Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 71
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَلْبِسُوْنَ : تم ملاتے ہو الْحَقَّ : سچ بِالْبَاطِلِ : جھوٹ وَتَكْتُمُوْنَ : اور تم چھپاتے ہو الْحَقَّ : حق وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ھو
اے اہل کتاب تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں مخلوط کرتے ہو اور کیوں سچی بات کو جان بوجھ کر چھپاتے ہو1
1۔ اے اہل کتاب تم کیوں حق اور سچ بات کو باطل اور جھوٹ کے ساتھ ملاتے ہو اور جانتے پوچھتے ہوئے کیوں حق کو چھپاتے ہو اور حق کو ظاہر نہیں کرتے۔ ( تیسیر) تلبسون الحق بالباطل کی تفسیر ہم پہلے پارے میں بیان کرچکے ہیں ۔ یہود کے علماء کی عام عادت یہ تھی کہ اپنی دنیاوی وجاہت کے لئے بعض احکام کو تو سرے ہی سے ترک کردیا تھا ۔ بعض باتوں میں تحریف لفظی کے مرتکب ہوتے تھے بعض الفاظ کے معنی بدل دیئے تھے اور بعض احکام کو چھپا رکھا تھا غرض اسی قسم کی شرارتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں توریت کے بعض حکم تو موقوف ہی کر ڈالے تھے غرض کے واسطے اور بعض آیتوں کے معنی پھیر ڈالے تھے اور بعض چیز چھپا رکھی تھی ہر کسی کو خبر نہ کرتے تھے جیسے بیان پیغمبر آخری کا ( موضح القرآن) مدعا یہ ہے کہ جو صورت بھی اختیار کی جائے اور احکام الٰہی اور آیات الٰہی کے بیان کرنے میں جس طرح کی بھی خیانت کی جائے خواہ وہ کتمان ہو تبدیل و تحریف ہو خواہ لفظی ہو یا معنوی ہو ۔ تلبسون الحق بالباطل میں داخل ہے اور علماء سوء کا ہمیشہ یہی طریقہ کار ہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ اب آگے ان کی بعض اور چالاکیوں کا پردہ چاک کیا جاتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top