Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 89
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ١۪ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاۙ
وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں لَوْ تَكْفُرُوْنَ : کاش تم کافر ہو كَمَا : جیسے كَفَرُوْا : وہ کافر ہوئے فَتَكُوْنُوْنَ : تو تم ہوجاؤ سَوَآءً : برابر فَلَا تَتَّخِذُوْا : پس تم نہ بناؤ مِنْھُمْ : ان سے اَوْلِيَآءَ : دوست حَتّٰي : یہانتک کہ يُھَاجِرُوْا : وہ ہجرت کریں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَاِنْ : پھر اگر تم تَوَلَّوْا : منہ موڑیں فَخُذُوْھُمْ : تو ان کو پکڑو وَاقْتُلُوْھُمْ : اور انہیں قتل کرو حَيْثُ : جہاں کہیں وَجَدْتُّمُوْھُمْ : تم انہیں پاؤ وَلَا : اور نہ تَتَّخِذُوْا : بناؤ مِنْھُمْ : ان سے وَلِيًّا : دوست وَّلَا : اور نہ نَصِيْرًا : مددگار
وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہوگئی ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جائو تاکہ وہ اور تم سب ایک ہو جائو لہٰذا تم ان میں سے اس وقت تک کسی کو اپنا دوست نہ بنائو جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں پھر اگر وہ ہجرت سے اعراض کریں تو تم جہاد کہیں بھی ان پر قابو پائو ان کو گرفتار کرو اور ان کو قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق۔ اور مددگار نہ بنائو۔4
4 وہ تو یہ چاہتے ہیں اور وہ تو اس بات کے متمنی ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی ان ہی جیسے کافر بن جائو تاکہ تم اور وہ سب ایک سے ہو جائو یعنی جیسے انہوں نے کافرانہ روش اختیار کی ویسے ہی تم بھی کفر کی روش اختیار کرلو جس میں تم او وہ سب برابر ہو جائو۔ لہٰذا تم اس وقت تک ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور دوست نہ بنائو جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور صحیح طور پر مہاجر نہ بنیں ۔ پھر اگر وہ ایمان لانے سے روگردانی کریں یعنی وہ ہجرت نہ کریں جو اصل ایمان کی علامت ہے تو تم جہاں کہیں بھی ان پر قابو پائو ان کو گرفتار کرو اور ان کو قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ بنائو۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جب تک تم میں نہ آ رہیں تب تک ان کو برے بھلے میں شریک نہ کرو اور لڑائی میں ان کو نہ بچائو۔ (موضح القرآن) آیت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ پہلے ان کی کافرانہ تمنا کا ذکر ہے کہ تم لوگ تو ان کے کفر و اسلام میں اختلاف کر رہے ہو اور ان کی یہ حالت ہے کہ وہ خود تو دارالاسلام سے دارالکفر چلے ہی گئے اب یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان ہی جیسے کافر بن جائو اور جس طرح انہوں نے کفر اختیار کیا ہے اسی طرح تم بھی کفر اختیار کرلو۔ پھر تم اور وہ مساوی ہوجائیں۔ فتکونون کا عطف تکفرون پر ہے ہم نے محاورے کے موافق ترجمہ کردیا ہے پھر ان کے ساتھ برتائو کا ذکر ہے کہ جب ان کی یہ حالت ہے تو تم ان کے ساتھ مسلمانوں سا برتائو نہ کرو اور ان کو دوست نہ بنائو اور ان کو رفیق تجویز نہ کرو اور یہ دوستی اور رفاقت اس وقت تک نہ کرو جب تک وہ سچے دل سے مسلمان ہو کر ہجرت نہ کریں اور اگر وہ ہجرت یا ایمان سے روگردانی کریں اور کفر ہی پر قائم رہیں تو ان کو جہاں کہیں پائو پکڑو اور قتل کرو۔ غالباً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرت توحید و رسالت کے اقرار کرنے کے قائمقام ہوگا جیسا کہ ہم نے اوپر بھی اشارہ کیا تھا دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف، ہجرت کر کے آجانا ہی کلمئہ شہادت کے قائمقام سمجھا جاتا تھا اور چونکہ ہجرت اور ایمان دونوں مساوی تھے اس لئے فان تو لوا کے معنی کسی نے ہجرت سے روگردانی اور کسی نے ایمان سے روگردانی کئے ہیں ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں دونوں کی رعایت کی ہے اگرچہ مطلب میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہجرت بھی وہی معتبر ہے جو تکمیل دین کے اعتبار سے کی جائے ورنہ یوں تو کافر بھی دارالسلام آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے تیسیر میں عرض کیا ہے کہ و ہ ہجرت جو ایمان کی علامت ہے غرض یہ کہ جب تک یہ لوگ صحیح طور پر ہجرت کر کے تمہارے پاس نہ آجائیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو اور اگر صحیح ہجرت سے روگردانی کریں تو پھر وہی برتائو کرو جو حربی کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ آخر میں پھر ولایت و نصرت کے تعلقات سے منع فرمایا کہ ان مذکورہ لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھو بلکہ بالکل بےتعلق رہو دوستی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بالکل اجتناب کرو اور ان سے کوئی مدد نہ لو۔ اب آگے اس حکم میں سے بعض قیود اور بعض شرائط کے ساتھ کچھ کو مستثنیٰ کرتے ہیں۔ (تسہیل)
Top