Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 96
دَرَجٰتٍ مِّنْهُ وَ مَغْفِرَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
دَرَجٰتٍ : درجے مِّنْهُ : اس کی طرف سے وَمَغْفِرَةً : اور بخشش وَّرَحْمَةً : اور رحمت وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
وہ اجر عظیم بہت سے درجے ہیں جو خدا کی جانب سے عطا ہوں گے اور بخشش ہے اور مہربانی ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا اور بڑی مہربانی کرنیوالا ہے۔2
2 مسلمانوں میں سے اصحاب عذر کے علاوہ وہ لوگ جو گھروں میں بیٹھے رہیں وہ ان مجاہدین کے برابر نہیں ہوسکتے جو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں یعنی جو لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے گھروں میں بیٹھے رہیں وہ ثواب میں اور فضیلت میں ان لوگوں کے برابر نہیں جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانیں لڑا کر جہاد کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان مجاہدین کا جو اپنے مال اور اپنی جانیں اللہ کی راہ میں لڑاتے ہیں ان بیٹھ رہنے والوں سے درجہ زیادہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین باموالہم و انفسہم کو قاعدین پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت و بزرگی عطا فرمائی ہے۔ ہاں ! جنت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو فریق سے کر رکھا ہے یعنی جنت کا وعدہ قاعدین اور مجاہدین دونوں سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ مجاہدین کو گھر بیٹھنے والوں کے مقابلہ میں بہت بڑا اجر وثواب عطا فرماتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ بہت سے درجات ہیں جو مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوں گے اور ان کے گناہوں کی مغفرت ہے اور ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بدن کے نقصان والے یعنی اپاہج جہاد کے حکم سے معاف ہیں باقی لوگوں میں لڑنے والوں کو بڑے درجے ہیں کہ بیٹھنے والوں کو نہیں اگرچہ بیٹھنے والے بھی جنتی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جہاد فرض کفایہ ہے فرض عین نہیں یعنی بعضے جہاد کرتے ہیں تو نہ کرنے والے معاف ہیں اور جو سب موقوف کریں تو سب گناہگار ہیں (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ شرعاً معذور ہیں جیسے اندھے، مریض اور اپاہج وغیرہ ان کو چھوڑ کر باقی لوگوں میں سے جہاد کرنے والے اور بیٹھ رہنے والوں کا فرق بیان فرمایا ہے اور مجاہدین کے ان درجات اور فضیلت اور مغفرت و رحمت کا ذکر فرمایا جو قاعدین کو میسر نہ ہوں گے اور چونکہ جہاد فرض کفایہ ہے اس لئے بیٹھنے والے بھی گناہگار نہ ہوں گے البتہ ان درجات اور فضائل سے محروم رہیں گے جو مجاہدین کو نصیب ہوں گے البتہ جنت میں دونوں فریق جائیں گے کیوں جہاد نہ کرنے والے آخر دوسرے احکام تو بجا لاتے ہی ہیں اس لئے وہ بھی جنتی ہیں جس طرح مجاہدین جنتی ہیں۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ جنت میں کوئی کہاں ہوتا ہے اور کوئی کہاں ہوتا ہے کون بڑے بڑے درجات کا وارث بنتا ہے اور کون کس مقام پر روک دیا جاتا ہے حسنیٰ اچھی چیز اور اچھے گھر کو کہتے ہیں یہاں حضرت قتادہ نے جنت کے ساتھ تفسیر کی ہے۔ زید بن ثابت کا قول ہے کہ جب یہ آیت نبی کریم ﷺ لکھوا رہے تھے تو اسی وقت عبداللہ بن ام مکتوم آ نکلے انہوں نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر میں استطاعت رکھتا تو میں ضرور جہاد کرتا اسی وقت نبی کریم ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور حضرت جبرئیل غیر اولی الضرر کا جملہ لے کر آئے۔ انس بن مالک کی روایت میں ہے کہ یہ ابن مکتوم کے بارے میں نازل ہوا بہرحال اس استثنا میں ہر قسم کے اپاہج اور معذور لوگ داخل ہیں اور اس امر کی توقع ہے کہ جو لوگ معذور ہوں اور ان کی نیت جہاد کی ہو تو ان کو بھی مجاہدین کی مثل ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک غزوے میں فرمایا تھا۔ ان بالمدینۃ رجالا ماقطعتم وادیاولا سرتم مسیراً الا کانوا معکم اولئک قوم حبسھم العذر۔ یعنی کچھ لوگ مدینے میں ہیں لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ تم جو میدان قطع کرتے ہو اور جو تم کہیں چلتے پھرتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو مدینہ میں کسی عذر نے روک رکھا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث قدسی میں ہے کہ جب کوئی بندہ بیمار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تک یہ بندہ بیمار ہے اس کے وہ عمل لکھتے رہو جو یہ صحت کے زمانے میں کیا کرتا تھا یہاں تک کہ یہ تندرست ہوجائے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ معذور جہاد کے ثواب میں تو شریک ہوں گے لیکن وہ فضیلت ان کو نہ ہوگی جو جہاد کرنے والوں کو ہوگی۔ بعض اہل علم نے اس فرق سے بھی انکار کیا ہے۔ واللہ اعلم ہوسکتا ہے کہ مباشر اور عازم دونوں برابر ہوں اور ہوسکتا ہے کہ کمیت ثواب میں فرق ہو۔ پہلے جو درجہ ذکر کیا تھا اسی کی آخر میں تاکید فرمائی اور تفصیل بیان فرمائی کہ وہ درجہ اجر عظیم ہے اور وہ اجر عظیم یہ ہے کہ اعمال مختلفہ پر بہت سے درجات مختلفہ کا حصول موقوف ہے اور مغفرت و رحمت ہے، منہ درجات کے ساتھ متعلق ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مغفرت و رحمت میں بھی اس قید کا لحاظ ہو جیسا کہ بعض مفسرین نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ ان لوگوں کے لئے اللہ کی جانب سے درجات اور مغفرت و رحمت ہے۔ واللہ اعلم۔ ہر چند کہ جہاد کا اصل حکم فرض کفایہ ہے جیسا حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے لیکن بعض اوقات میں یہ فرض عبن ہوجاتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اب آگے جہاد کی مناسبت سے ہجرت کا ذکر فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top