Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 98
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةً وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیْلًاۙ
اِلَّا : مگر الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : بےبس مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَالنِّسَآءِ : اور عورتیں وَالْوِلْدَانِ : اور بچے لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : نہیں کرسکتے حِيْلَةً : کوئی تدبیر وَّلَا : اور نہ يَهْتَدُوْنَ : پاتے ہیں سَبِيْلًا : کوئی راستہ
اور وہ دوزخ بہت ہی بری باز شت ہے مگر ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے واقعی ایسے بےبس ہوں کہ نہ تو وہ کوئی تدبیر کرسکتے ہیں اور نہ وہ راستے سے واقف ہیں1
1 یقینا جب فرشتے ایسے لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں جو باوجود استطاعت کے ہجرت نہ کر کے اپنے حق میں برا کر رہے ہیں تو اس وقت وہ فرشتے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم لوگ کس حالت میں تھے اور کیا کام کیا کرتے تھے وہ جواب دیتے ہیں ہم اس سر زمین میں محض عاجز و بےبس تھے وہ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس زمین میں ترک وطن کر کے چلے جائو اور یہاں سے نکل جائو لہٰذا ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ دوزخ بہت بری بازگشت اور پھر جانی کی بری جگہ ہے ۔ مگر ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے واقعی ایسے بےبس ہوں کہ نہ تو وہ کوئی تدبیر کرسکتے ہوں اور نہ راستے سے واقف ہوں۔ (تیسیر) شاید یاد ہوگا ہم ن اس صورت کی تمہید میں عرض کیا تھا کہ مسلمان مدینہ میں جس قدر ترقی کرتے جاتے تھے اور ملک میں ان کا اقتدار بڑھتا جاتا تھا اسی قدر نئی نئی ضروریات پیش آتی جاتی تھیں اور ان ضروریات کے متعلق احکام نازل ہوتے رہتے تھے مکہ کی زندگی میں مجبوریاں ہی مجبوریاں تھیں ، ہجرت کے بعد ایک ایسی سر زمین نصیب ہوئی جہاں مسلمان بےخوف و خطر احکام اسلامی پر عمل کرنے کے قابل ہوئے لہٰذا جو لوگ مکہ میں باقی رہ گئے تھے وہ بےبس کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کے لئے ضروری ہوا کہ وہ آزاد سر زمین پر چلے جائیں اسی طرح اگر آس پاس کی بستی میں کوئی مسلمان ہوگیا اور وہاں کفار کے غلبہ کی وجہ سے آزادانہ احکام اسلامی پر عمل نہ کرسکتا ہو تو اس کو بھی حکم ہوا کہ وہ آزاد سر زمین کی طرف ہجرت کر کے نکل آئے۔ یہاں تک کہ ابھی ہم نے کچھ اوپر عرض کیا تھا کہ ہجرت کلمہ توحید کے قائم مقام قرار دی گئی ہجرت کر کے دار الاسلام میں چلا آنا توحید و رسالت کا اقرار شمار ہوتا تھا اور جو شخص ہجرت کر کے نہ آئے اس کی ولایت اور نصرت کی ممانعت کی گئی اور جس طرح جہاد عام مفاد انسان کے لئے فرض کیا گیا اسی ہجرت خاص مفاد کے لحاظ سے فرض کی گئی ۔ جہاد سے عام انسانوں کو امن دینا اور امن کی زندگی بسر کرنے کا موقع دینا ہوتا ہے کہ اصل اشاعت اسلامی یہی ہے تو ہجرت میں شخصی امن اور شخصی عافیت اور آزادی کے ساتھ احکام اسلامی پر عمل مقصود ہوتا ہے اور چونکہ ترک وطن ایک مشکل اور سخت کام ہے اس لئے لوگ وطن کے لالچ میں بےبسی کی زندگی پر قناعت کرتے تھے ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعید نازل کی کیونکہ ہجرت کی قدرت اور استطاعت کے ہوتے ہوئے ہجرت نہ کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے دین پر عمل نہ کرنے اور تمام احکام کے بجا نہ لانے پر رضا مند ہو اس لئے تارکین ہجرت پر وعید فرمائی اور یہاں اس وعید کا ایک مخصوص طریقہ اختیار کیا کہ جو لوگ باوجود قدرت و استطاعت کے تارک ہجرت ہوں اور ترک ہجرت کی وجہ سے گناہ گارہوں جیسا کہ فرض کا تارک گناہگار ہوتا ہے تو اس کی جان نکالتے وقت اس سے فرشتے سوال کرتے ہیں فیم کنتم یعنی تم کس حال میں تھے یعنی کیا تم مسلمان تھے جیسا کہ تم اپنی زبان سے کہا کر تھے یا تم کافر تھے، جیسا کہ تمہارا مقام ظاہر کرتا ہے اور بلا عذر کفار کے ساتھ تمہاری موافقت اور ان کے ساتھ تمہارے رہن سہن سے ظاہر ہوتا ہے یا یہ مطلب کہ تم دین کے کیا کیا ضروری کام کیا کرتے تھے اور کون کون سے کام چھوڑے بیٹھے تھے یا یہ مطلب کہ تم قوت وضعف کی کس حالت میں تھے، سوال چونکہ تو بیخا ہوگا اس لئے بعض لوگوں نے یہ مطلب بیان کیا کہ تم کچھ بھی نہیں تھے اور تمہارا کوئی دین نہیں تھا وہ جواب میں اپنی بےبسی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اس سر زمین میں مغلوب تھے یعنی کفار کے دبائو کی وجہ سے تمام ضروریات دین پر عمل نہ کرسکتے تھے وہ جواب دیں گے کہ کیا خدا کی زمین کشادہ نہیں ہے تم کو کسی اور ایسی جگہ چلا جانا چاہئے تھا جہاں تم تمام ضروریات دین پر عمل کرسکتے اور آزادی کے ساتھ احکام اسلامی کو بجا لاتے اور فرائض کو ادا کرتے فرشتوں کی اس بات کو سن کر یہ کوئی جواب نہ دیں گے اور ان پر چونکہ جرم ثابت ہوجائے گا تو اس کی جزا بیان فرمائی۔ آگے ان لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا جو واقعی بےبس اور ہجرت کے قابل نہیں۔ استنثیٰ متصل ہو تو ماواھم کی ضمیر سے استثنا ہوگا اور اگر استثناء منقطع ہے تو مطلب ظاہر ہی ہم نے ترجمہ اور تیسیر دونوں کی رعایت رکھی ہے۔ جن مردوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے ان سے وہ مرد مراد ہیں جو بوڑھے ہوں یا اپاہج ہوں یا صاحب عیال ہوں پیدل چل نہ سکتے ہوں سواری کی استطاعت نہ ہو رہی عورتیں تو وہ کمزور و ناتواں ہوتی ہی ہیں۔ رہے بچے تو باوجود مکلف نہ ہونے کے ان کا ذکر مبالغہ کی غرض سے فرمایا کہ جب غیر مکلف کا بھی ذکر ہے تو جو لوگ مکلف ہیں ان کا کیا حال ہوگا یا یہ مطلب ہو کہ بچے اگرچہ گناہ نہ ہوں لیکن یہ ترک ہجرت کا فعل تو انتہائی برا ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ بچوں کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ یہ بات معلوم ہو سکے کہ وہ شخص مستثنیٰ ہوسکتا ہے جو بچوں کی طرح مجبور ہو یا اس لئے ذکر فرمایا کہ ہجرت کی اہمیت معلوم ہو کہ اگرچہ ان پر اس وقت واجب نہیں۔ لیکن بالغ ہونے کے بعد واجب ہوجائے گی اس سے بچ نہیں سکیں گے۔ اگر باوجود بچہ ہونے کے بھی ان کو بالواسطہ یا بلاواسطہ قدرت حاصل ہوجائے تو ان کو ہجرت کر لینی چاہئے یا ان کے اولیاء پر اس امر کو ظاہر کرنا ہوگا کہ اگر قدرت حاصل ہوجائے تو بچوں کو بھی دارالفکر میں نہیں چھوڑنا چاہئے ان کو ہمراہ لے کر نکلنا چاہئے۔ (واللہ اعلم) آگے ان کمزوروں کی صفت بیان فرمائی کہ نہ کوئی حیلہ کرسکتے ہیں اور نہ راستے سے واقف ہیں۔ حیلہ سے مراد اسباب ہجرت ہیں یعنی اسباب ہجرت کا فقدان اسباب عام ہیں ینی جو صورت بھی ہجرت کو ممکن بنا دے اس میں سے کسی پر قادر نہیں۔ دوسرے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ راستے سے ناواقف ہیں جیسا کہ بعض مہاجرین کے ساتھ ایسا ہو بھی چکا تھا کہ وہ راستہ نہ جاننے کی وجہ سے ٹکراتے پھرے اور مکہ کے کافران کو پھر پکڑ کرلے گئے یہ ہوسکتا ہے کہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ کے متعلق ہو جیسے قیس بن الکنالہ اور قیس بن الولید وغیرہ کہ ان لوگوں کو باوجود مسلمان ہونے کے کفار مکہ اپنی بھیڑ بڑھانے کو میدان جنگ میں لے جاتے تھے۔ بہرحال ! جن لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا تھا آگے ان کی معافی کا اعلان فرمایا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)
Top