Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے يُحَكِّمُوْنَكَ : وہ آپ کو منصف بنائیں گے وَعِنْدَهُمُ : جبکہ ان کے پاس التَّوْرٰىةُ : توریت فِيْهَا : اس میں حُكْمُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ثُمَّ : پھر يَتَوَلَّوْنَ : پھرجاتے ہیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ : اور نہیں اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ماننے والے
اور یہ لوگ آپ کیسے منصف بناتے ہیں حالانکہ ان کے پاس توریت ہے جس میں خدا کا حکم موجود ہے پھر تعجب ہے کہ آپ کے فیصلہ کرنے کے بعد پھرجاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کو کسی پر اعتقاد ہی نہیں2
2 اور عجب بات ہے یہ لوگ اپنے دینی معاملات میں آپ کو کیسے منصف بناتے ہیں اور آپ سے کس طرح فیصلے کراتے ہیں حالانکہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا حکم مذکور ہے پھر تعجب ہے کہ آپ کے فیصلے کرنے کے بعد آپ کے فیصلے سے بھی پھرے جاتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کسی پر اعتقاد رکھنے والے نہیں نہ توریت پر نہ محمد ﷺ پر (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اول تو یہی بات عجیب ہے کہ توریت ہوتے ساتے جب کہ اس میں احکام الٰہی مذکور ہیں پھر یہ آپ کو کیسے منصف بناتے ہیں اور آپ کے پاس اپنے دینی معاملات کیسے لاتے ہیں یا آپ کا فتویٰ معلوم کرنے کی غرض سے اپنے جاسوسوں کو کیسے بھیجتے ہیں یعنی جس شخص پر ان کو ایمان کیسے لاتے ہیں یا آپ کا فتویٰ معلوم کرنے کی غرض سے اپنے جاسوسوں کو کیسے بھیجتے ہیں یعنی جس شخص پر ان کو ایمان اور اعتقاد ہی نہیں تو اس کو مفتی یا منصف کیسے قرار دیتے ۔ پھر تعجب یہ کہ جب آپ کی رائے اور آپ کا فیصلہ ان کو معلوم ہوجاتا ہے اور وہ فیصلہ آپ کا توریت کے موافق ہوتا ہے جیسا کہ زانی اور زانیہ کے رجم میں یا بنو نضیر اور بنو قریظہ کے خون کی مساوات میں تو آپ کا فیصلہ سننے کے بعد اس سے بھی پھرے جاتے ہیں اور ان کی اس معجتبانہ روش سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کسی پر اعتقاد ہی نہیں نہ آپ پر ان کو اعتقاد ہے اور نہ اپنی کتاب پر آپ پر اعتقاد کا نہ ہونا تو ظاہر ہے لیکن جب آپ کا فتویٰ کیا یا آپ کو حکم تسلیم کر کے آپ کی خدمت میں مقدمہ لے آئے اور پھر آپ کے فتوے اور فیصلے کو نہ مانا تو اس سے یہ بات اور کھل گئی کہ صرف اپنے مطلب کو آپ کے پاس آتے ہیں ان کو آپ پر اعتقاد نہیں۔ اگرچہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم توریت کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں اور یوں بھی تقریر کی جاسکتی ہے کہ توری کے ہوتے ساتے آپ کے پاس فیصلہ کرانے آئے معلوم ہوا کہ تورات پر اعتقاد نہیں اور جب آپ کا فیصلہ نہ مانا تو معلوم ہوا کہ آپ پر بھی اعتقاد نہیں لہٰذا یہ ایسے لوگ ہیں کہ کسی پر بھی اعتقاد نہیں رکھتے ان کے سامنے صرف ان کا مطلب اور ان کی اپنی غرض ہے اوپر کی آیتوں میں یہود و نصاریٰ کے نقض عہد کا ذکر تھا پھر توریت و انجیل کا اجمالی ذکر تھا اب آگے ان کتابوں کی تعریف ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کتابیں سرچشمہ ہدایت نور تھیں اور اپنے اپنے زمانے میں یہ کتابیں واجب الاتباع تھیں لیکن ان لوگوں نے اپنی خواہشات نفسانی کے سامنے ان کتابوں کی ناقدری کی اور ان کو پس پشت ڈال دیا اگر یہ لوگ ان کتابوں کو صحیح طور پر مانتے ہوتے تو آج قرآن کریم کا انکار نہ کرتے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top