Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 41
اَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ١ۛۚ فَلْیَاْتُوْا بِشُرَكَآئِهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ
اَمْ لَهُمْ : یا ان کے لیے شُرَكَآءُ : کچھ شریک ہیں فَلْيَاْتُوْا : پس چاہیے کہ لے آئیں بِشُرَكَآئِهِمْ : اپنے شریکوں کو اِنْ كَانُوْا : اگر ہیں وہ صٰدِقِيْنَ : سچے
کیا ان مشرکوں کے تجویز کردہ شرکاء ہیں پھر اگر یہ سچے ہیں تو ان اپنے تجویز کردہ شرکاء کو پیش کردیں۔
(41) کیا ان مشرکوں کے تجویز کردہ کچھ شرکاء ہیں جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک مقرر کررکھا ہے پھر اگر یہ سچے ہیں تو ان اپنے تجویز کردہ شرکاء کو پیش کریں۔ یعنی اگر یہ یوں کہیں کہ وہ جن کو ہم شریک خدائی سمجھتے ہیں اور جن کی ہم پرستش کیا کرتے ہیں وہ سب اپنی سفارش سے عالم آخرت میں یہ نعمتیں ہم کو دلوائیں گے تو ان سے کہو کہ ان کو ہمارے سامنے لائو تاکہ ہم دیککھیں کہ ان کو کیا طاقت ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے اس کی مرضی اور اس کی منشا کے خلاف دین حق کے منکروں کو جنت اور حسنیٰ دلوادیں گے۔ غرض جب یہ مضمون نہ کسی آسمانی کتاب میں ہے نہ کوئی ہمارا عہد و پیمان ہے پھر ایسی حالت میں کوئی شخص ان میں سے یان کے فرضی شرکاء میں سے ذمہ دار بھی نہیں تو پھر ان کا یہ دعویٰ کہ ماتحکمون اور ما تخیرون آخرت میں ہمارے لئے ہے غیر مسموع اور ناقابل توجہ دعویٰ ہے۔ آگے قیامت میں ان کی ذلت اور رسوائی کا ذکر فرمایا۔
Top