Maarif-ul-Quran - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ : اللہ کے دوست لَا خَوْفٌ : نہ کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
خلاصہ تفسیر
(یہ تو علم الہٰی کا بیان ہوا آگے مخلصین و مطیعین کی محفوظیت کا بیان ہے کہ) یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ (کسی مطلب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو خوف ناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے اور) وہ (اللہ کے دوست) وہ ہیں جو ایمان لائے اور (معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں (یعنی ایمان اور تقوی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور خوف و حزن سے ان کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ) ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (من جانب اللہ خوف و حزن سے بچنے کی) خوش خبری ہے (اور) اللہ کی باتوں میں (یعنی وعدوں میں) کچھ فرق ہوا نہیں کرتا (پس جب بشارت میں ان سے وعدہ کیا گیا اور وعدہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے اس لئے عدم خوف و عدم حزن لازم ہے اور) یہ (بشارت جو مذکور ہوئی) بڑی کامیابی ہے۔

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں اولیاء اللہ کے مخصوص فضائل اور ان کی تعریف اور پہچان پھر دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت کا ذکر ہے، فرمایا کہ اولیاء اللہ کو نہ کسی ناگوار چیز کے پیش آنے کا خطرہ ہوگا اور نہ کسی مقصد کے فوت ہوجانے کا غم، اور اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی و پرہیزگاری اختیار کی، ان کے لئے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی۔
اس میں چند باتیں قابل غور ہیںاول یہ کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونے کے کیا معنی ہیں ؟
دوسرے یہ کہ اولیاء اللہ کی تعریف کیا ہے اور ان کی علامات کیا ہیں ؟ تیسرے یہ کہ دنیا و آخرت میں ان کی بشارت سے کیا مراد ہے ؟
پہلی بات کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہیں ہوتا، اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ آخرت میں حساب کتاب کے بعد جب ان کو ان کے مقام جنت میں داخل کردیا جائے گا تو خوف و غم سے ان کو ہمیشہ کے لئے نجات ہوجائے گی، نہ کسی تکلیف و پریشانی کا خطرہ رہے گا نہ کسی محبوب و مطلوب چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہوگا، بلکہ جنت کی نعمتیں دائمی اور لازوال ہوں گی، اس معنی کے اعتبار سے تو مضمون آیت پر کوئی اشکال نہیں لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس میں اولیاء اللہ کی کوئی خصوصیت نہ رہی بلکہ تمام اہل جنت جن کو جہنم سے نجات مل گئی ہو اسی حال میں ہوں گے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ انجام کار جنت میں پہنچ گئے وہ سب اولیاء اللہ ہی کہلائیں گے، دنیا میں ان کے اعمال کتنے ہی مختلف رہے ہوں مگر دخول جنت کے بعد سب کے سب اولیاء اللہ کی ہی فہرست میں شمار ہوں گے۔
لیکن بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونا دنیا و آخرت دونوں کے لئے عام ہے اور اولیاء اللہ کی خصوصیت یہی ہے کہ دنیا میں بھی وہ خوف و غم سے محفوظ ہیں اور آخرت میں ان پر خوف و غم نہ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں، اور اس میں سب اہل جنت داخل ہیں۔
مگر اس پر حالات و واقعات کے اعتبار سے یہ اشکال ہے کہ دنیا میں تو یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے کیونکہ اولیاء اللہ تو کیا انبیاء (علیہم السلام) بھی اس دنیا میں خوف و غم سے محفوظ نہیں بلکہ ان کا خوف و خشیت اوروں سے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤ ُ ا، یعنی اللہ تعالیٰ سے پوری طرح علماء ہی ڈرتے ہیں، اور دوسری جگہ میں اولیاء اللہ ہی کا یہ حال بیان فرمایا ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ ، اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ، یعنی یہ لوگ اللہ کے عذاب سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں جس سے کوئی بےفکر ہو کر بیٹھ سکے۔
صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت صدیق و فاروق ؓ اور تمام صحابہ وتابعین اور اولیاء اللہ کی گریہ وزاری اور خوف آخرت کے واقعات بیشمار ہیں۔
اس لئے روح المعانی میں علامہ آلوسی نے یہ فرمایا کہ حضرات اولیاء اللہ کا دنیا میں خوف و غم سے محفوظ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ جن چیزوں کے خوف و غم میں عام طور سے اہل دنیا مبتلا رہتے ہیں کہ دنیوی مقاصد آرام و راحت عزت و دولت میں ذرا سی کمی ہوجانے پر مرنے لگتے ہیں اور ذرا ذرا سی تکلیف و پریشانی کے خوف سے ان سے بچنے کی تدبیروں میں رات دن کھوئے رہتے ہیں، اولیاء اللہ کا مقام ان سب سے بالا و بلند ہوتا ہے، ان کی نظر میں نہ دنیا کی فانی عزت و دولت، راحت و آرام کوئی چیز ہے جس کے حاصل کرنے میں سرگرداں ہوں، اور نہ یہاں کی محنت و کلفت اور رنج کچھ قابل التفات ہے جس کی مدافعت میں پریشان ہوں بلکہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ
نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے بہ پیش ہمت ماہرچہ آمد بود مہمانے
اللہ جل شانہ کی عظمت و محبت اور خوف و خشیت ان حضرات پر ایسی چھائی ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی رنج و راحت، سود و زیاں پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے بقول بعض
یہ ننگ عاشقی ہیں سود و حاصل دیکھنے والے
یہاں گمراہ کہلاتے ہیں منزل دیکھنے والے
دوسری بات اولیاء اللہ کی تعریف اور ان کی علامات سے متعلق ہے، اولیاء ولی کی جمع ہے، لفظ ولی عربی زبان میں قریب کے معنی میں بھی آتا ہے اور دوست و محب کے معنی میں بھی، اللہ تعالیٰ کے قرب و محبت کا ایک عام درجہ تو ایسا ہے کہ اس سے دنیا کا کوئی انسان و حیوان بلکہ کوئی چیز بھی مستثنی نہیں، اگر یہ قرب نہ ہو تو سارے عالم میں کوئی چیز وجود ہی میں آسکتی، تمام عالم کے وجود کی اصلی علت وہی خاص رابطہ ہے جو اس کو حق تعالیٰ شانہ سے حاصل ہے گو اس رابطہ کی حقیقت کو نہ کسی نے سمجھا اور نہ سمجھ سکتا ہے مگر ایک بےکیف رابطہ کا ہونا یقینی ہے، مگر لفظ اولیاء اللہ میں یہ درجہ ولایت کا مراد نہیں بلکہ ولایت و محبت اور قرب کا ایک دوسرا درجہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندوں کے ساتھ خاص ہے یہ قرب محبت کہلاتا ہے جن لوگوں کو یہ قرب خاص حاصل ہو وہ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے، میں ہی اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، وہ جو کچھ دیکھتا ہے مجھ سے دیکھتا ہے میں ہی اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جو کچھ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کی کوئی حرکت و سکون اور کوئی کام میری رضاء کے خلاف نہیں ہوتا۔
اور اس ولایت خاصہ کے درجات بیشمار اور غیر متناہی ہیں، اس کا اعلی درجہ انبیاء (علیہم السلام) کا حصہ ہے، کیونکہ ہر نبی کا ولی اللہ ہونا لازمی ہے، اور اس میں سب سے اونچا مقام سید الانبیاء نبی اکرم ﷺ کا ہے، اور ادنی درجہ اس ولایت کا وہ ہے جس کو صوفیائے کرام کی اصطلاح میں درجہ فنا کہا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کا قلب اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایسا مستغرق ہو کہ دنیا میں کسی کی محبت اس پر غالب نہ آئے وہ جس سے محبت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، جس سے نفرت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، اس کے حب و بغض اور محبت و عداوت میں اپنی ذات کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مشغول رہتا ہے اور وہ ہر ایسی چیز سے پرہیز کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند ہو، اسی حالت کی علامت ہے کثرت ذکر اور دوام طاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا اور ہمیشہ ہر حال میں اس کے احکام کی اطاعت کرنا، یہ دو وصف جس شخص میں موجود ہوں وہ ولی اللہ کہلاتا ہے جس میں ان دونوں میں سے کوئی ایک نہ ہو وہ اس فہرست میں داخل نہیں، پھر جس میں یہ دونوں موجود ہوں اس کے درجات ادنی و اعلی کی کوئی حد نہیں، انہیں درجات کے اعتبار سے اولیاء اللہ کے درجات متفاضل اور کم و بیش ہوتے ہیں۔
ایک حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ مذکور ہے کہ رسول کریم ﷺ سوال کیا گیا کہ اس آیت میں اولیاء اللہ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو خالص اللہ کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، کوئی دنیاوی غرض درمیان میں نہیں ہوتی (مظہری از ابن مردویہ) اور ظاہر ہے کہ یہ حالت انہیں لوگوں کی ہو سکتی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس درجہ ولایت کے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ امت کے افراد کو یہ درجہ ولایت رسول کریم ﷺ ہی کے فیض صحبت سے حاصل ہوسکتا ہے، اسی سے تعلق مع اللہ کا وہ رنگ جو آنحضرت ﷺ کو حاصل تھا اپنے حوصلہ کے مطابق اس کا کوئی حصہ امت کے اولیاء کو ملتا ہے، پھر یہ فیض صحبت صحابہ کرام کو بلا واسطہ حاصل تھا، اسی وجہ سے ان کا درجہ ولایت تمام امت کے اولیاء و اقطاب سے بالاتر تھا بعد کے لوگوں کو یہی فیض ایک واسطہ یا چند واسطوں سے حاصل ہوتا ہے جتنے وسائط بڑھتے جاتے ہیں اتنا ہی اس میں فرق پڑجاتا ہے، یہ واسطہ صرف وہی لوگ بن سکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کے رنگ میں رنگے ہوئے آپ کی سنت کے پیرو ہیں ایسے لوگوں کی کثرت سے مجالست اور صحبت جبکہ اس کے ساتھ ان کے ارشادات کی پیروی اور اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت بھی ہو، یہی نسخہ ہے درجہ ولایت حاصل کرنے کا جو تین جزء سے مرکب ہے۔ کسی ولی اللہ کی صحبت، اس کی اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت، بشرطیکہ یہ کثرت ذکر مسنون طریقہ پر ہو، کیونکہ کثرت ذکر سے آئینہ قلب کو جلا ہوتی ہے تو وہ نور ولایت کے انعکاس کے قابل بن جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ ہر چیز کے لئے صیقل اور صفائی کا کوئی طریقہ ہوتا ہے، قلب کی صیقل ذکر اللہ سے ہوتی ہے، اس کو بیہقی نے بروایت ابن عمر نقل فرمایا ہے۔ (مظہری)۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی بزرگ سے محبت کرتا ہے مگر عمل کے اعتبار سے ان کے درجہ تک نہیں پہنچتا ؟ آپ نے فرمایا المرء مع من احب یعنی ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت و صحبت انسان کے لئے حصول ولایت کا ذریعہ ہے، اور بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت رزین کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت رزین سے فرمایا کہ میں تمہیں دین کا ایسا اصول بتلاتا ہوں جس سے تم دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی حاصل کرسکتے ہو، وہ یہ ہے کہ اہل ذکر کی مجلس و صحبت کو لازم پکڑو اور جب تنہائی میں جاؤ تو جتنا زیادہ ہوسکے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو حرکت دو ، جس سے محبت کرو اللہ کے لئے کرو جس سے نفرت کرو اللہ کے لئے کرو۔ (مظہری)۔
مگر یہ صحبت و مجالست انہیں لوگوں کی مفید ہے جو خود ولی اللہ متبع سنت ہوں اور جو رسول کریم ﷺ کی سنت کے تابع نہیں وہ خود درجہ ولایت سے محروم ہیں، چاہے کشف و کرامات ان سے کتنے ہی صادر ہوں۔ اور جو شخص مذکورہ صفات کے اعتبار سے ولی ہو اگرچہ اس سے کبھی کوئی کشف و کرامت ظاہر نہ ہوئی ہو وہ اللہ کا ولی ہے۔ (مظہری)
اولیاء اللہ کی علامت اور پہچان تفسیر مظہری میں ایک حدیث قدسی کے حوالہ سے یہ نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اولیاء میرے بندوں میں سے وہ لوگ ہیں جو میری یاد کے ساتھ یاد آویں اور جن کی یاد کے ساتھ میں یاد آؤ ں، اور ابن ماجہ میں بروایت حضرت اسماء بنت یزید مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولیاء اللہ کی یہ پہچان بتلائی الذین اذا رء وا ذکر اللہ، یعنی جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے۔
خلا صہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کو اللہ کے ذکر کی توفیق اور دنیاوی فکروں کی کمی محسوس ہو، یہ علامت اس کے ولی اللہ ہونے کی ہے۔
تفسیر مظہری میں فرمایا کہ عوام نے جو اولیاء اللہ کی علامت کشف و کرامت یا غیب کی چیزیں معلوم ہونے کو سجھ رکھا ہے یہ غلط اور دھوکہ ہے، ہزاروں اولیاء اللہ ہیں جن سے اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں اور اس کے خلاف ایسے لوگوں سے کشف اور غیب کی خبریں منقول ہیں جن کا ایمان بھی درست ہیں۔
Top