Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ
: یاد رکھو
اِنَّ
: بیشک
اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ
: اللہ کے دوست
لَا خَوْفٌ
: نہ کوئی خوف
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا
: اور نہ
ھُمْ
: وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
خلاصہ تفسیر
(یہ تو علم الہٰی کا بیان ہوا آگے مخلصین و مطیعین کی محفوظیت کا بیان ہے کہ) یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ (کسی مطلب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ ان کو خوف ناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے اور) وہ (اللہ کے دوست) وہ ہیں جو ایمان لائے اور (معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں (یعنی ایمان اور تقوی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور خوف و حزن سے ان کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ) ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (من جانب اللہ خوف و حزن سے بچنے کی) خوش خبری ہے (اور) اللہ کی باتوں میں (یعنی وعدوں میں) کچھ فرق ہوا نہیں کرتا (پس جب بشارت میں ان سے وعدہ کیا گیا اور وعدہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے اس لئے عدم خوف و عدم حزن لازم ہے اور) یہ (بشارت جو مذکور ہوئی) بڑی کامیابی ہے۔
معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں اولیاء اللہ کے مخصوص فضائل اور ان کی تعریف اور پہچان پھر دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت کا ذکر ہے، فرمایا کہ اولیاء اللہ کو نہ کسی ناگوار چیز کے پیش آنے کا خطرہ ہوگا اور نہ کسی مقصد کے فوت ہوجانے کا غم، اور اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی و پرہیزگاری اختیار کی، ان کے لئے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی۔
اس میں چند باتیں قابل غور ہیںاول یہ کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونے کے کیا معنی ہیں ؟
دوسرے یہ کہ اولیاء اللہ کی تعریف کیا ہے اور ان کی علامات کیا ہیں ؟ تیسرے یہ کہ دنیا و آخرت میں ان کی بشارت سے کیا مراد ہے ؟
پہلی بات کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہیں ہوتا، اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ آخرت میں حساب کتاب کے بعد جب ان کو ان کے مقام جنت میں داخل کردیا جائے گا تو خوف و غم سے ان کو ہمیشہ کے لئے نجات ہوجائے گی، نہ کسی تکلیف و پریشانی کا خطرہ رہے گا نہ کسی محبوب و مطلوب چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہوگا، بلکہ جنت کی نعمتیں دائمی اور لازوال ہوں گی، اس معنی کے اعتبار سے تو مضمون آیت پر کوئی اشکال نہیں لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس میں اولیاء اللہ کی کوئی خصوصیت نہ رہی بلکہ تمام اہل جنت جن کو جہنم سے نجات مل گئی ہو اسی حال میں ہوں گے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ انجام کار جنت میں پہنچ گئے وہ سب اولیاء اللہ ہی کہلائیں گے، دنیا میں ان کے اعمال کتنے ہی مختلف رہے ہوں مگر دخول جنت کے بعد سب کے سب اولیاء اللہ کی ہی فہرست میں شمار ہوں گے۔
لیکن بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونا دنیا و آخرت دونوں کے لئے عام ہے اور اولیاء اللہ کی خصوصیت یہی ہے کہ دنیا میں بھی وہ خوف و غم سے محفوظ ہیں اور آخرت میں ان پر خوف و غم نہ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں، اور اس میں سب اہل جنت داخل ہیں۔
مگر اس پر حالات و واقعات کے اعتبار سے یہ اشکال ہے کہ دنیا میں تو یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے کیونکہ اولیاء اللہ تو کیا انبیاء (علیہم السلام) بھی اس دنیا میں خوف و غم سے محفوظ نہیں بلکہ ان کا خوف و خشیت اوروں سے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤ ُ ا، یعنی اللہ تعالیٰ سے پوری طرح علماء ہی ڈرتے ہیں، اور دوسری جگہ میں اولیاء اللہ ہی کا یہ حال بیان فرمایا ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ ، اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ، یعنی یہ لوگ اللہ کے عذاب سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں جس سے کوئی بےفکر ہو کر بیٹھ سکے۔
صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت صدیق و فاروق ؓ اور تمام صحابہ وتابعین اور اولیاء اللہ کی گریہ وزاری اور خوف آخرت کے واقعات بیشمار ہیں۔
اس لئے روح المعانی میں علامہ آلوسی نے یہ فرمایا کہ حضرات اولیاء اللہ کا دنیا میں خوف و غم سے محفوظ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ جن چیزوں کے خوف و غم میں عام طور سے اہل دنیا مبتلا رہتے ہیں کہ دنیوی مقاصد آرام و راحت عزت و دولت میں ذرا سی کمی ہوجانے پر مرنے لگتے ہیں اور ذرا ذرا سی تکلیف و پریشانی کے خوف سے ان سے بچنے کی تدبیروں میں رات دن کھوئے رہتے ہیں، اولیاء اللہ کا مقام ان سب سے بالا و بلند ہوتا ہے، ان کی نظر میں نہ دنیا کی فانی عزت و دولت، راحت و آرام کوئی چیز ہے جس کے حاصل کرنے میں سرگرداں ہوں، اور نہ یہاں کی محنت و کلفت اور رنج کچھ قابل التفات ہے جس کی مدافعت میں پریشان ہوں بلکہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ
نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے بہ پیش ہمت ماہرچہ آمد بود مہمانے
اللہ جل شانہ کی عظمت و محبت اور خوف و خشیت ان حضرات پر ایسی چھائی ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی رنج و راحت، سود و زیاں پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے بقول بعض
یہ ننگ عاشقی ہیں سود و حاصل دیکھنے والے
یہاں گمراہ کہلاتے ہیں منزل دیکھنے والے
دوسری بات اولیاء اللہ کی تعریف اور ان کی علامات سے متعلق ہے، اولیاء ولی کی جمع ہے، لفظ ولی عربی زبان میں قریب کے معنی میں بھی آتا ہے اور دوست و محب کے معنی میں بھی، اللہ تعالیٰ کے قرب و محبت کا ایک عام درجہ تو ایسا ہے کہ اس سے دنیا کا کوئی انسان و حیوان بلکہ کوئی چیز بھی مستثنی نہیں، اگر یہ قرب نہ ہو تو سارے عالم میں کوئی چیز وجود ہی میں آسکتی، تمام عالم کے وجود کی اصلی علت وہی خاص رابطہ ہے جو اس کو حق تعالیٰ شانہ سے حاصل ہے گو اس رابطہ کی حقیقت کو نہ کسی نے سمجھا اور نہ سمجھ سکتا ہے مگر ایک بےکیف رابطہ کا ہونا یقینی ہے، مگر لفظ اولیاء اللہ میں یہ درجہ ولایت کا مراد نہیں بلکہ ولایت و محبت اور قرب کا ایک دوسرا درجہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندوں کے ساتھ خاص ہے یہ قرب محبت کہلاتا ہے جن لوگوں کو یہ قرب خاص حاصل ہو وہ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے، میں ہی اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، وہ جو کچھ دیکھتا ہے مجھ سے دیکھتا ہے میں ہی اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جو کچھ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کی کوئی حرکت و سکون اور کوئی کام میری رضاء کے خلاف نہیں ہوتا۔
اور اس ولایت خاصہ کے درجات بیشمار اور غیر متناہی ہیں، اس کا اعلی درجہ انبیاء (علیہم السلام) کا حصہ ہے، کیونکہ ہر نبی کا ولی اللہ ہونا لازمی ہے، اور اس میں سب سے اونچا مقام سید الانبیاء نبی اکرم ﷺ کا ہے، اور ادنی درجہ اس ولایت کا وہ ہے جس کو صوفیائے کرام کی اصطلاح میں درجہ فنا کہا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کا قلب اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایسا مستغرق ہو کہ دنیا میں کسی کی محبت اس پر غالب نہ آئے وہ جس سے محبت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، جس سے نفرت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، اس کے حب و بغض اور محبت و عداوت میں اپنی ذات کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مشغول رہتا ہے اور وہ ہر ایسی چیز سے پرہیز کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند ہو، اسی حالت کی علامت ہے کثرت ذکر اور دوام طاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا اور ہمیشہ ہر حال میں اس کے احکام کی اطاعت کرنا، یہ دو وصف جس شخص میں موجود ہوں وہ ولی اللہ کہلاتا ہے جس میں ان دونوں میں سے کوئی ایک نہ ہو وہ اس فہرست میں داخل نہیں، پھر جس میں یہ دونوں موجود ہوں اس کے درجات ادنی و اعلی کی کوئی حد نہیں، انہیں درجات کے اعتبار سے اولیاء اللہ کے درجات متفاضل اور کم و بیش ہوتے ہیں۔
ایک حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ مذکور ہے کہ رسول کریم ﷺ سوال کیا گیا کہ اس آیت میں اولیاء اللہ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو خالص اللہ کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، کوئی دنیاوی غرض درمیان میں نہیں ہوتی (مظہری از ابن مردویہ) اور ظاہر ہے کہ یہ حالت انہیں لوگوں کی ہو سکتی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس درجہ ولایت کے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ امت کے افراد کو یہ درجہ ولایت رسول کریم ﷺ ہی کے فیض صحبت سے حاصل ہوسکتا ہے، اسی سے تعلق مع اللہ کا وہ رنگ جو آنحضرت ﷺ کو حاصل تھا اپنے حوصلہ کے مطابق اس کا کوئی حصہ امت کے اولیاء کو ملتا ہے، پھر یہ فیض صحبت صحابہ کرام کو بلا واسطہ حاصل تھا، اسی وجہ سے ان کا درجہ ولایت تمام امت کے اولیاء و اقطاب سے بالاتر تھا بعد کے لوگوں کو یہی فیض ایک واسطہ یا چند واسطوں سے حاصل ہوتا ہے جتنے وسائط بڑھتے جاتے ہیں اتنا ہی اس میں فرق پڑجاتا ہے، یہ واسطہ صرف وہی لوگ بن سکتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کے رنگ میں رنگے ہوئے آپ کی سنت کے پیرو ہیں ایسے لوگوں کی کثرت سے مجالست اور صحبت جبکہ اس کے ساتھ ان کے ارشادات کی پیروی اور اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت بھی ہو، یہی نسخہ ہے درجہ ولایت حاصل کرنے کا جو تین جزء سے مرکب ہے۔ کسی ولی اللہ کی صحبت، اس کی اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت، بشرطیکہ یہ کثرت ذکر مسنون طریقہ پر ہو، کیونکہ کثرت ذکر سے آئینہ قلب کو جلا ہوتی ہے تو وہ نور ولایت کے انعکاس کے قابل بن جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ ہر چیز کے لئے صیقل اور صفائی کا کوئی طریقہ ہوتا ہے، قلب کی صیقل ذکر اللہ سے ہوتی ہے، اس کو بیہقی نے بروایت ابن عمر نقل فرمایا ہے۔ (مظہری)۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی بزرگ سے محبت کرتا ہے مگر عمل کے اعتبار سے ان کے درجہ تک نہیں پہنچتا ؟ آپ نے فرمایا المرء مع من احب یعنی ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت و صحبت انسان کے لئے حصول ولایت کا ذریعہ ہے، اور بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت رزین کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت رزین سے فرمایا کہ میں تمہیں دین کا ایسا اصول بتلاتا ہوں جس سے تم دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی حاصل کرسکتے ہو، وہ یہ ہے کہ اہل ذکر کی مجلس و صحبت کو لازم پکڑو اور جب تنہائی میں جاؤ تو جتنا زیادہ ہوسکے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو حرکت دو ، جس سے محبت کرو اللہ کے لئے کرو جس سے نفرت کرو اللہ کے لئے کرو۔ (مظہری)۔
مگر یہ صحبت و مجالست انہیں لوگوں کی مفید ہے جو خود ولی اللہ متبع سنت ہوں اور جو رسول کریم ﷺ کی سنت کے تابع نہیں وہ خود درجہ ولایت سے محروم ہیں، چاہے کشف و کرامات ان سے کتنے ہی صادر ہوں۔ اور جو شخص مذکورہ صفات کے اعتبار سے ولی ہو اگرچہ اس سے کبھی کوئی کشف و کرامت ظاہر نہ ہوئی ہو وہ اللہ کا ولی ہے۔ (مظہری)
اولیاء اللہ کی علامت اور پہچان تفسیر مظہری میں ایک حدیث قدسی کے حوالہ سے یہ نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اولیاء میرے بندوں میں سے وہ لوگ ہیں جو میری یاد کے ساتھ یاد آویں اور جن کی یاد کے ساتھ میں یاد آؤ ں، اور ابن ماجہ میں بروایت حضرت اسماء بنت یزید مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولیاء اللہ کی یہ پہچان بتلائی الذین اذا رء وا ذکر اللہ، یعنی جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے۔
خلا صہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کو اللہ کے ذکر کی توفیق اور دنیاوی فکروں کی کمی محسوس ہو، یہ علامت اس کے ولی اللہ ہونے کی ہے۔
تفسیر مظہری میں فرمایا کہ عوام نے جو اولیاء اللہ کی علامت کشف و کرامت یا غیب کی چیزیں معلوم ہونے کو سجھ رکھا ہے یہ غلط اور دھوکہ ہے، ہزاروں اولیاء اللہ ہیں جن سے اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں اور اس کے خلاف ایسے لوگوں سے کشف اور غیب کی خبریں منقول ہیں جن کا ایمان بھی درست ہیں۔
Top