ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم یعنی تم سب سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے متعلق باز پرس ہوگی کہ تم نے ان کا شکر کیا ادا کیا اور ان کو گناہوں میں تو خچ نہیں کیا، ان میں سے بعض نعمتوں کے متعلق تو خود قرآن میں دوسری جگہ وضاحت آگئی جیسا فرمایا ان السمع والبصر و الفوادکل اولیک کان عنہ مسؤ لا جس میں انسان کی قوت شنوائی، بینائی اور دل سے متعلق وہ لاکھوں نعمتیں آگئیں جن کو انسان ہر لمحہ استعمال کرتا ہے۔
حدیث۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز بندہ سے جس چیز کا سب سے پہلے سوال ہوگا (وہ تندرستی ہے) اس کو کہا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں تندرستی نہیں دی تھی اور کیا ہم نے تمہیں ٹھنڈا پانی نہیں پلایا تھا (الترمذی عن ابی ہریرہ و ابن حبان فی صحیحہ۔ ابن کثیر)
حدیث۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں کوئی آدمی اپنی جگہ سے سرک نہ سکے گا جب تک پانچ سوالوں کا جواب اس سے نہ لیا جائے۔ ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کو کن کاموں میں فنا کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس نے اپنے شباب کی قوت کو کن کاموں میں خرچ کیا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو مال اس نے حاصل کیا وہ کس کس طریقے جائز یا ناجائز سے حاصل کیا۔ چوتھے یہ کہ اس مال کو کہاں کہاں خرچ کیا، پانچویں یہ کہ جو علم اللہ نے اس کو دیا تھا اس پر کتنا عمل کیا۔ (رواہ البخاری)
اور امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ قیامت میں یہ سوال دنیا کی ہر لذت کے متعلق ہوگا (قرطبی) خوا ہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو لیالباس اور مکان سے یا بیوی اور اولاد سے یا حکومت و عزت سے۔ قرطبی نے اس کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ بالکل درست ہے اس سوال میں کسی خاص نعمت کی تخصیص نہیں ہے۔
سورة تکاثر کی خاص فضیلت۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے خطاب کر کے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی آدمی اس کی قدرت نہیں رکھتا کہ ہر روز قرآن کی ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ روزانہ ایک ہزار آیتیں کون پڑھ سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی الہاکم التکاثر نہیں پڑھ سکتا، مطلب یہ ہے کہ الہاکم التکاثر روزانہ پڑھنا ایک ہزار آیتوں کے پڑھنے کی برابر ہے۔ (مظہری بحوالہ حاکم و بیہقی عن ابن عمر)