Maarif-ul-Quran - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور قائم کر نماز کو دونوں طرف دن کے اور کچھ ٹکڑوں میں رات کے، البتہ نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو، یہ یادگاری ہے یاد رکھنے والوں کو،
خلاصہ تفسیر
اور (اے محمد ﷺ آپ نماز کی پابندی رکھئے دن کے دونوں سروں پر (یعنی اول اور آخر میں) اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیک کام (نامہ اعمال سے) مٹا دیتے ہیں برے کاموں کو یہ بات (کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں) ایک (جامع) نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کیلئے (کیونکہ ہر نیکی اس قاعدہ کلیہ میں داخل ہے، پس اس سے ہر نیکی کی رغبت ہونا چاہئے) اور (ان منکرین کی طرف سے جو معاملات پیش آتے ہیں ان پر) صبر کیا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے (صبر بھی اعلی درجہ کی نیکوکاری ہے اس کا پورا اجر ملے گا اور اوپر جو سابقہ کی ہلاکت کے واقعات مذکور ہوئے) تو (وجہ اس کی یہ ہوئی کہ) جو امتیں تم سے پہلے گزری ہیں ان میں ایسے سمجھ دار لوگ نہ ہوئے جو کہ (دوسروں کو) ملک میں فساد (یعنی کفر و شرک) پھیلانے سے منع کرتے بجز چند آدمیوں کے کہ جن کو ان میں سے ہم نے (عذاب سے) بچا لیا تھا (کہ وہ تو البتہ جیسے خود کفر و شرک سے تائب ہوگئے تھے اوروں کو بھی منع کرتے رہتے تھے اور ان ہی دونوں عمل کی برکت سے وہ عذاب سے بچ گئے تھے باقی اور لوگ چونکہ خود ہی کفر میں مبتلا تھے انہوں نے اوروں کو بھی منع نہ کیا) اور جو لوگ نافرمان تھے وہ جس ناز و نعمت میں تھے اسی کے پیچھے پڑے رہے اور جرائم کے خوگر ہوگئے (کہ اس سے باز ہی نہ آئے، خلاصہ یہ کہ نافرمانی تو ان میں عام طور پر رہی اور منع کرنے والا کوئی ہوا نہیں اس لئے سب ایک ہی عذاب میں مبتلا ہوئے ورنہ کفر کا عذاب عام ہوتا اور فساد کا خاص، اب بوجہ منع نہ کرنے کے غیر مفسد بھی مفسد ہونے میں شریک قرار دیئے گئے اس لئے جو عذاب مجموعہ کفر و فساد پر نازل ہوا وہ بھی عام رہا) اور (اس سے ثابت ہوگیا کہ) آپ کا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو کفر کے سبب ہلاک کردے اور ان کے رہنے والے (اپنی اور دوسروں کی) اصلاح میں لگے ہوں (بلکہ جب بجائے اصلاح کے فساد کریں اور فساد کرنے والوں کو منع نہ کریں اس وقت عذاب خاص کے مستحق ہوجاتے ہیں) اور اگر اللہ کو منظور ہوتا سب آدمیوں کو ایک ہی طریقہ کا بنا دیتا (یعنی سب کو مومن کردیتا لیکن بعض حکمتوں سے ایسا منظور نہ ہوا، اس لئے دین کے خلاف مختلف طریقوں پر ہوگئے) اور (آئندہ بھی) ہمیشہ اختلاف (ہی) کرتے رہیں گے مگر جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو (وہ دین کے خلاف طریقہ اختیار نہ کرے گا) اور (ان میں اختلاف رہے) اور (اختلاف کیلئے پیدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ) آپ کے رب کی یہ بات پوری ہوگی کہ میں جہنم کو جنات سے اور انسانوں سے دونوں سے بھر دوں گا (اور خود اس کی حکمت یہ ہے کہ جس طرح مرحومین میں صفت رحمت کا ظہور ہو مغضوبین میں صفت غضب کی ظاہر ہو پھر اس ظہور کی حکمت یا اس حکمت کی حکمت اللہ ہی کو معلوم، غرض اس ظہور کی حکمت سے جہنم میں جانا بعضوں کا ضرور اور جہنم میں جانے کیلئے وجود کفار کا تکوینًا ضروری اور وجود کفار کے لئے اختلاف لازم، یہ وجہ ہے سب کے مسلمان نہ ہونے کی) اور پیغمبروں کے قصوں میں سے ہم یہ سارے (مذکورہ) قصے آپ سے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعہ سے ہم آپ کے دل کو تقویت دیتے ہیں (ایک فائدہ بیان قصص کا تو یہ ہوا جس کا حاصل آپ کو تسلی دینا ہے) اور ان قصوں میں آپ کے پاس ایسا مضمون پہنچا ہے جو خود بھی راست (اور قطعی) ہے اور مسلمانوں کیلئے (برے کاموں سے روکنے کیلئے) نصیحت ہے اور (اچھے کام کرنے کیلئے) یاد دھانی ہے (یہ دوسرا فائدہ بیان قصص کا ہوا، ایک فائدہ نبی کیلئے، دوسرا امت کیلئے) اور جو لوگ باوجود ان حجج قاطعہ کے بھی) ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجئے کہ (میں تم سے الجھتا نہیں) تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو ہم بھی (اپنے طور پر) عمل کر رہے ہیں اور (ان اعمال کے نتیجہ کے) تم (بھی) منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں (سو عنقریب باطل کھل جاوے گا) اور آسمانوں اور زمین میں جتنی غیب کی باتیں ہیں ان کا علم خدا ہی کو ہے (تو بندوں کے اعمال تو غیب بھی نہیں ان کا علم تو بدرجہ اولی حق تعالیٰ کو ہے) اور سب امور اسی کی طرف رجوع ہوں گے (یعنی علم و اختیار دونوں اللہ ہی کے ہیں پھر اس کو کیا مشکل ہے اگر اعمال کی جزا و سزا دیدے اور جب وہ ایسا علم و اختیار رکھتا ہے) تو (اے محمد ﷺ آپ اسی کی عبادت کیجئے (جس میں تبلیغ بھی داخل ہے) اور اسی پر بھروسہ رکھئے (اگر تبلیغ میں کسی اذیت کا احتمال ہو، یہ بیچ میں بطور جملہ معترضہ کے آپ سے خطاب فرما دیا، آگے پھر وہی مضمون ہے یعنی) اور آپ کا رب ان باتوں سے بیخبر نہیں جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو (جیسا کہ اوپر علم غیب سے اعمال کا علم بدرجہ اولی ثابت ہوگیا)۔

معارف و مسائل
اسلوب قرآنی میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت شان کی طرف اشارہ
سورة ہود میں انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے عبرتناک حالات و واقعات ذکر کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ اور امت محمدیہ کو چند ہدایات دی گئی ہیں جن کا سلسلہ پچھلی آیت (آیت) فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ سے شروع ہوا ہے، ان ہدایات میں قرآن کریم کا یہ حسن بیان کس قدر دلکش اور ادب آموز ہے کہ جس کام کا حکم مثبت انداز میں دیا گیا اس میں تو رسول کریم ﷺ کو مخاطب بنایا گیا ہے اور امت محمدیہ کو تبعاً اس میں شامل کیا گیا ہے، جیسے فاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ اور مذکورہ صدر آیت میں (آیت) اَقِمِ الصَّلٰوةَ اور اس کے بعد واصْبِرْ۔ اور جس کام سے روکا گیا اور اس سے بچنے کی ہدایت کی گئی تو اس میں براہ راست امت کو مخاطب کیا گیا، جیسے پچھلی آیتوں میں (آیت) لَا تَطْغَوْا اور لَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۔
اور غور کیا جائے تو پورے قرآن میں عام طور پر یہی طرز استعمال ہوا ہے کہ امر کا مخاطب نبی کریم ﷺ کو بنایا گیا ہے اور نہی و ممانعت کا مخاطب امت کو، جس میں رسول کریم ﷺ کی عظمت شان کا اظہار ہے کہ جو کام قابل ترک ہیں رسول اللہ ﷺ خود ہی ان سے پرہیز کرتے ہیں، آپ کی فطرت سلیمہ اور طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی تھی کہ کسی بری خواہش اور بری چیز کی طرف میلان ہی نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایسی چیزیں جو ابتداء اسلام میں جائز و حلال تھیں مگر انجام کار ان کا حرام ہونا اللہ تعالیٰ کے علم میں طے شدہ تھا رسول کریم ﷺ ان کے حلال ہونے کے زمانہ میں کبھی ان کے پاس نہیں گئے، جیسے شراب یا سود اور جوا وغیرہ۔
اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے آپ کو اور آپ کی پوری امت کو اقامت صلوة کا حکم دیا گیا ہے، علماء تفسیر صحابہ وتابعین کا اس پر اتفاق ہے کہ صلوة سے مراد اس جگہ فرض نمازیں ہیں (بحر محیط، قرطبی) اور صلوة کی اقامت سے مراد اس کی پوری پابندی اور مداومت ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کو اس کے تمام آداب کے ساتھ ادا کرنا مراد ہے بعض نے فرمایا کہ نماز کو اس کے افضل وقت میں ادا کرنا مراد ہے یہی تیں قول آیت اَقِمِ الصَّلٰوةَ کی تفسیر میں منقول ہیں اور درحقیقت یہ کوئی اختلاف نہیں یہ سبھی چیزیں ”اقامت صلوة“ کے مفہوم میں شامل ہیں۔
اقامت صلوة کا حکم دینے کے بعد نماز کے اوقات کا اجمالی بیان یہ ہے کہدن کے دونوں سروں یعنی شروع اور آخر میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو۔ کیونکہ زلفا، زلفة کی جمع ہے جس کے معنی ایک حصہ اور قطعہ کے ہیں، دن کے دونوں سروں کی نماز کے متعلق اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ پہلے سرے کی نماز نماز فجر ہے، آخری سرے کی نماز بعض حضرات نے مغرب کو قرار دیا ہے کہ دن کے بالکل ختم پر ہے اور بعض حضرات نے عصر کی نماز کو دن کے آخری سرے کی نماز قرار دیا ہے کیونکہ دن کی آخری نماز وہی ہے، وقت مغرب دن کا جزء نہیں بلکہ دن گزرنے کے بعد آتا ہے، اور زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ، یعنی رات کے حصوں کی نماز سے مراد جمہور مفسرین حسن بصری، مجاہد، محمد بن کعب، قتادہ، ضحاک وغیرہم نے مغرب و عشاء کی نماز کو قرار دیا ہے، اور ایک حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے ’‘ جس میں ارشاد فرمایا ہے کہ زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ، مغرب و عشاء ہیں (تفسیر ابن کثیر)۔
جبکہ طَرَفَيِ النَّهَارِ سے مراد صبح اور عصر کی نماز ہوئی اور زُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ سے مغرب و عشاء کی تو اس آیت میں چار نمازوں کے اوقات کا بیان آگیا صرف ظہر کی نماز کا بیان رہ گیا جو دوسری آیت (آیت) اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ میں آیا ہے۔
اس آیت میں اوقات مذکورہ میں اقامت صلوة کے حکم کے بعد ان کا ایک عظیم فائدہ بھی بتلایا گیا ہے کہ (آیت) اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ یعنی نیک کام مٹا دیتے ہیں برے کاموں کو، حضرات مفسرین نے فرمایا کہ نیک کام سے تمام نیک کام مراد ہیں، جن میں نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حسن خلق، حسن معاملہ وغیرہ سب داخل ہیں مگر نماز کو ان سب میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح السَّـيِّاٰتِ کا لفظ تمام برے کاموں کو حاوی اور شامل ہے خواہ وہ کبیرہ گناہ ہوں یا صغیرہ، لیکن قرآن مجید کی ایک دوسری آیت نیز رسول کریم ﷺ کے متعدد ارشادات نے اس کو صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، معنی یہ ہیں کہ نیک کام جن میں نماز سب سے افضل ہے، صغیرہ گناہوں کا کفارہ کردیتے ہیں اور ان کے گناہوں سے بچتے رہو تو ہم تمہارے چھوٹے گناہوں کا خود کفارہ کردیں گے۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک ان تمام گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں جو ان کے درمیان صادر ہوں، جبکہ یہ شخص کبائر یعنی بڑے گناہوں سے بچا رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ بڑے گناہ تو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے مگر چھوٹے گناہ دوسرے نیک کام نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ کرنے سے خود بھی معاف ہوجاتے ہیں، مگر تفسیر بحر محیط میں محقیقن علماء اصول کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صغیرہ گناہ بھی نیک کام کرنے سے جبھی معاف ہوتے ہیں جبکہ آدمی ان کے کرنے پر نادم ہو اور آئندہ کیلئے نہ کرنے کا ارادہ کرے، ان پر اصرار نہ کرنے، روایات حدیث میں جتنے واقعات کفارہ ہوجانے کے منقول ہیں ان سب میں یہ تصریح بھی ہے کہ ان کا کرنے والا جب اپنے فعل پر نادم ہو اور آئندہ کیلئے توبہ کرے اس پر آنحضرت ﷺ نے اس کو گناہ معاف ہوجانے کی بشارت سنائی۔ واللہ اعلم۔
مشہور و معروف روایات حدیث میں کبائر یعنی بڑے گناہ ان چیزوں کو بتلا یا ہے۔
(1) اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک یا برابر قرار دینا، (2) قصدًا کسی فرض نماز کا چھوڑنا، (3) کسی کو ناحق قتل کرنا، (4) حرام کاری، (5) چوری (6) شراب نوشی، (7) ماں باپ کی نافرمانی، (8) جھوٹی قسم، (9) جھوٹی گواہی، (10) جادو کرنا، (11) سود کھانا، (12) یتیم کا مال ناجائز طور پر لے لینا، (13) میدان جہاد سے بھاگنا، (14) پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا، (15) کسی کا مال ناجائز طور پر غصب کرنا، (16) عہد شکنی کرنا، (17) امانت میں خیانت کرنا، (18) کسی کو گالی دینا، (19) کسی شخص کو ناحق مجرم قرار دیدینا وغیرہ۔ کبیرہ اور صغیرہ یعنی بڑے اور چھوٹے گناہوں کی تفصیل مستقل رسالوں میں علماء نے لکھ دی ہیں، میرے رسالہ گناہ بےلذت میں بھی مذکور ہے وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
بہرحال آیت مذکورہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نیک کام کرنے سے بھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ برے کام کے بعد نیک کام کرلو تو وہ اس کی برائی کو مٹا دے گا، اور فرمایا کہ لوگوں سے خوش خلقی کے ساتھ معاملہ کرو (ابن کثیر بحوالہ مسند احمد)۔
حضرت ابوذر غفاری نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمایئے آپ نے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیک کام کرو تاکہ وہ اس کو مٹا دے۔
درحقیقت ان حادیث میں گناہ سے توبہ کرنے کا مسنون و محمود طریقہ بتلایا گیا ہے جیسا کہ مسند احمد میں بروایت صدیق اکبر منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرکے دو رکعت نماز نفل ادا کرلے تو اس گناہ کی معافی ہوجائے گی (الروایات کلہا من ابن کثیر) اس نماز کو نماز توبہ ہی کہا جاتا ہے۔
(آیت) ذٰلِكَ ذِكْرٰي للذّٰكِرِيْنَ ، یعنی یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے، اس میں ذلک کا اشارہ قرآن کریم کی طرف بھی ہوسکتا ہے اور احکام امر و نہی کی طرف بھی، جن کا ذکر اس سے پہلے آیا ہے، مراد یہ ہے کہ یہ قرآن یا اس کے مذکورہ احکام ان لوگوں کیلئے ہدایت و نصیحت ہیں جو نصیحت سننے اور ماننے کے عادی ہیں اس میں اشارہ یہ ہے کہ ہٹ دھرم، ضدی آدمی جو کسی چیز پر غور ہی نہ کرے وہ ہر ہدایت سے محروم رہتا۔
Top