Maarif-ul-Quran - Al-Qalam : 12
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب جاتا رہا ابراہیم سے ڈر اور آئی اس کو خوشخبری جھگڑنے لگا ہم سے قوم لوط کے حق میں
خلاصہ تفسیر
پھر جب ابراہیم ؑ کا وہ خوف زائل ہوگیا (جب فرشتوں نے لَا تَخَفْ کہا اور ان کا فرشتہ ہونا معلوم ہوگیا) اور ان کو خوشی کی خبر ملی (کہ اولاد پیدا ہوگی) تو (ادھر سے بےفکر ہو کر دوسری طرف متوجہ ہوئے کہ قوم لوط ہلاک کی جاوے گی اور) ہم سے لوط ؑ کی قوم کے بارے میں (سفارش جو باعتبار مبالغہ و اصرار کے صورۃً) جدال (تھا) کرنا شروع کیا (جس کی تفصیل دوسری آیت میں ہے کہ وہاں تو لوط ؑ بھی موجود ہیں اس لئے عذاب نہ بھیجا جاوے کہ ان کو گزند پہنچے گا، مطلب یہ ہوگا کہ اس بہانہ سے قوم بچ جاوے جیسا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ سے ظا ہرا معلوم ہوتا ہے اور شاید ابراہیم ؑ کو ان کے مومن ہونے کی امید ہو) واقعی ابراہیم بڑے حلیم الطبع رحیم المزاج رقیق القلب تھے (اس لئے سفارش میں مبالغہ کیا، ارشاد ہوا کہ) اے ابراہیم (گو بہانہ لوط ؑ کا ہے مگر اصلی مطلب معلوم ہوگیا کہ قوم کی سفارش ہے سو) اس بات کو جانے دو (یہ ایمان نہ لاویں گے اسی لئے) تمہارے رب کا حکم (اس کے متعلق) آچکا ہے اور (اس کے سبب سے) ان پر ضرور ایسا عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ہٹنے والا نہیں (اس لئے اس باب میں کچھ کہنا سننا بیکار ہے، رہا لوط ؑ کا وہاں ہونا سو ان کو اور سب ایمان والوں کو وہاں سے علیحدہ کردیا جاوے گا اس کے بعد عذاب آوے گا تاکہ ان کو گزند نہ پہنچے چناچہ اس پر بات ختم ہوگئی) اور (ابراہیم ؑ کے پاس سے فارغ ہوکر) جب ہمارے وہ فرشتے لوط ؑ کے پاس آئے تو لوط ؑ ان کے (آنے کی) وجہ سے (اس لئے) مغموم ہوئے (کہ وہ بہت حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اور لوط ؑ نے ان کو آدمی سمجھا اور اپنی قوم کی نامعقول حرکت کا خیال آیا) اور (اس وجہ سے) ان کے (آنے کے) سبب بہت تنگدل ہوئے (اور غایت تنگدلی سے) کہنے لگے کہ آج کا دن بہت بھاری ہے (کہ ان کی تو ایسی صورتیں اور قوم کی یہ حرکتیں (اور میں تن تنہا، دیکھئے کیا ہوتا ہے ؟) اور ان کی قوم (نے جو یہ خبر سنی تو) ان کے (یعنی لوط ؑ کے) پاس دوڑے ہوئے آئے اور پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا ہی کرتے تھے (اسی خیال سے اب بھی آئے) لوط ؑ بڑے گھبرائے اور براہ تملق) فرمانے لگے کہ اے میری قوم یہ میری (بہو) بیٹیاں (جو تمہارے گھروں میں ہیں) موجود ہیں وہ تمہارے (نفس کی کامرانی کے) لئے (اچھی) خاصی ہیں سو (اَمردوں پر نگاہ کرنے کے باب میں) اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھ کو فضیحت مت کرو (یعنی ان مہمانوں کو کچھ کہنا مجھ کو شرمندہ اور رسوا کرنا ہے اگر ان کی رعایت نہیں کرتے کہ مسافر ہیں تو میرا خیال کرو کہ تم میں رہتا سہتا ہوں، افسوس اور تعجب ہے) کیا تم میں کوئی بھی (معقول آدمی اور) بھلا مانس نہیں (کہ اس بات کو سمجھے اور اوروں کو سمجھائے) وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کو آپ کی ان (بہو) بیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں (کیونکہ عورتوں سے ہم کو رغبت ہی نہیں) اور آپ کو تو معلوم ہے (یہاں آنے سے) جو ہمارا مطلب ہے، لوط ؑ نہایت عاجز اور زچ ہو کر) فرمانے لگے کیا خوب ہوتا اگر میرا تم پر کچھ زور چلتا (کہ خود تمہارے شر کو دفع کرتا) یا کسی مضبوط پایہ کی پناہ پکڑتا (مراد یہ کہ میرا کوئی کنبہ قبلیہ ہوتا کہ میری مدد کرتا، لوط ؑ کا جو اس قدر اضطراب دیکھا تو) فرشتے کہنے لگے اے لوط (ہم آدمی نہیں جو آپ اس قدر گھبراتے ہیں) ہم تو آپ کے رب کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں (تو ہمارا تو کیا کرسکتے ہیں اور آپ اپنے لئے بھی اندیشہ نہ کریں) آپ تک (بھی) ہرگز ان کی رسائی نہیں ہوگی (کہ آپ کو کچھ تکلیف پہنچا سکیں اور ہم ان پر عذاب نازل کرنے آئے ہیں) سو آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر (یہاں سے باہر) چلے جائیے اور تم میں سے کوئی پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھے (یعنی سب جلدی چلے جائیں) ہاں مگر آپ کی بیوی (بوجہ مسلمان نہ ہونے کے نہ جاوے گی اس پر بھی وہی آفت آنے والی ہے جو اور لوگوں پر آوے گی (اور ہم رات کے وقت نکل جانے کو اس لئے کہتے ہیں کہ) ان کے (عذاب کے) وعدہ کا وقت صبح کا وقت ہے (لوط ؑ بہت دق ہوگئے تھے فرمانے لگے کہ جو کچھ ہو ابھی ہوجاوے کذا فی الدر المنثور، فرشتوں نے کہا) کیا صبح کا وقت قریب نہیں (غرض لوط ؑ شبا شب دور نکل گئے اور صبح ہوئی اور عذاب کا سامان شروع ہوا) سو جب ہمارا حکم (عذاب کے لئے) آپہنچا تو ہم نے اس زمین (کو الٹ کر اس) کا اوپر کا تختہ تو نیچے کردیا (اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا) اور اس سر زمین پر کھنگر کے پتھر (مراد جھانوہ جو پک کر مثل پتھر کے ہوجاتا ہے) برسانا شروع کئے جو لگاتار گر رہے تھے جن پر آپ کے رب کے پاس (یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی تھا (جس سے اور پتھروں سے وہ پتھر ممتاز تھے) اور (اہل مکہ کو چاہئے کہ اس قصہ سے عبرت پکڑیں کیونکہ) یہ بستیاں (قوم لوط کی) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں (ہمیشہ شام کو آتے جاتے ان کی بربادی کے آثار دیکھتے ہیں پس ان کو اللہ اور رسول کی مخالفت سے ڈرنا چاہئے)۔

معارف و مسائل
سورة ہود میں اکثر انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے حالات اور انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت کی بناء پر مختلف قسم کے آسمانی عذابوں کا بیان آیا ہے، آیات مذکورہ میں حضرت لوط ؑ اور ان کی قوم کا حال اور قوم لوط پر عذاب شدید کا بیان ہے۔
حضرت لوط ؑ کی قوم کافر ہونے کے علاوہ ایک ایسی خبیث بدکاری اور بیحیائی میں مبتلا تھی جو دنیا میں کبھی پہلے نہ پائی گئی تھی جس سے جنگل کے جانور بھی نفرت کرتے ہیں کہ مرد مرد کے ساتھ منہ کالا کرے جس کا وبال و عذاب عام بدکاری سے بدرجہا زیادہ ہے، اسی لئے اس قوم پر ایسا شدید عذاب آیا جو عام بےحیائی اور بدکاری کرنے والوں پر کبھی نہیں آیا۔
حضرت لوط ؑ کا واقعہ جو ان آیات میں مذکور ہے اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے چند فرشتے جن میں جبریل امین بھی شامل تھے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے، جو پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے یہاں فلسطین پہنچے جس کا واقعہ پچھلی آیات میں بیان ہوچکا ہے، اس کے بعد حضرت لوط ؑ کے پاس آئے جن کا مقام وہاں سے دس بارہ میل کے فاصلہ پر تھا اللہ تعالیٰ شانہ جس قوم کو عذاب میں پکڑتے ہیں اس پر ان کے عمل کے مناسب ہی عذاب مسلط فرماتے ہیں، اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کے یہ فرشتے حسین لڑکوں کی شکل میں بھیجے گئے جب وہ حضرت لوط ؑ کے گھر پہنچے تو ان کو بشکل انسانی دیکھ کر انہوں نے بھی مہمان سمجھا اور اس وقت وہ سخت فکر و غم میں مبتلا ہوگئے کہ مہمانوں کی مہمانی نہ کی جائے تو یہ شان پیغمبری کے خلاف ہے اور اگر ان کو مہمان بنایا جاتا ہے تو اپنی قوم کی خباثت معلوم ہے، اس کا خطرہ ہے کہ وہ مکان پر چڑھ آئیں اور ان مہمانوں کو اذیت پہنچائیں اور وہ ان کی مدافعت نہ کرسکیں، اور دل میں کہنے لگے کہ آج بڑی سخت مصیبت کا دن ہے۔
اللہ جل شانہ نے اس عالم کو عجیب عبرت کی جگہ بنایا ہے جس میں اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے بیشمار مظاہر ہوتے ہیں، آزر بت پرست کے گھر میں اپنا خلیل حضرت ابراہیم ؑ پیدا کردیا، حضرت لوط ؑ جیسے مقبول و برگزیدہ پیغمبر کے گھر میں ان کی بیوی کافروں سے ملتی اور حضرت لوط ؑ کی مخالفت کرتی تھی، جب یہ محترم مہمان حسین لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط ؑ کے گھر میں مقیم ہوگئے تو ان کی بیوی نے ان کی قوم کے اوباش لوگوں کو خبر کردی کہ آج ہمارے گھر میں اس طرح کے مہمان آئے ہیں (قرطبی و مظہری)
Top