Ruh-ul-Quran - Hud : 74
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب ذَهَبَ : جاتا رہا عَنْ : سے (کا) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم الرَّوْعُ : خوف وَجَآءَتْهُ : اس کے پاس آگئی الْبُشْرٰي : خوشخبری يُجَادِلُنَا : ہم سے جھگڑنے لگا فِيْ : میں قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خوف دور ہوگیا اور انھیں بشارت مل گئی تو وہ ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔
فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرٰھِیْمَ الرَّوْعُ وَجَآئَ تْہُ الْبُشْرٰی یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْط۔ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ۔ (سورۃ ہود : 74، 75) (پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خوف دور ہوگیا اور انھیں بشارت مل گئی تو وہ ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ بیشک ابراہیم بڑے بردبار، دردمند اور ہرحال میں ہماری طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اللہ سے جدال کا مفہوم گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے آنے والے معزز مہمانوں کی اجنبیت کے باعث پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور جب تک مہمانوں نے حقیقتِ حال واضح نہیں کی، آپ اور آپ کے اہل خانہ برابر اس پریشانی میں گھلتے رہے۔ حقیقتِ حال کی وضاحت کے ساتھ ہی مہمانوں نے آپ کو بیٹے اور پوتے کا مژدہ سنا کر خورسند کردیا۔ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی پریشانی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اس قابل ہوئے کہ فرشتے جس اصل مقصد کے لیے قوم لوط کی طرف جارہے تھے اس پر توجہ دے سکیں۔ چناچہ جیسے ہی آپ کو معلوم ہوا کہ یہ مہمان دراصل فرشتے ہیں جو قوم لوط پر عذاب لے کر جارہے ہیں تو آپ چونکہ طبعی طور پر نہایت حلیم اور بردبار تھے جو کسی دشمن سے بھی انتقام لینا پسند نہیں کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ نہایت دردمند دل رکھتے تھے کیونکہاَوَّاہٌ آہ سے مبالغہ ہے جس کا لغوی معنی ہے کثرت سے آہ آہ کرنے والا۔ یہ وصف اسی میں ہوسکتا ہے جسے اللہ نے دل دردمند عطا کیا ہو۔ آپ اپنی طبیعت کی بردباری اور دل کی دردمندی کے باعث اس بات کو برداشت نہ کرسکے کہ قوم لوط پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ ایک ایسی قوم جس میں بچے بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔ عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی۔ وہ اپنے کفر اور نافرمانی کے باعث ہلاک کردیئے جائیں۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے گداز دل رکھنے والے کے لیے ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ آپ کو ایک جھٹکا سا لگا۔ دنیا آپ کی نگاہوں میں اندھیر ہوگئی۔ آپ سوچنے لگے کہ قوم عاد کو اللہ کے غضب سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔ آپ کی فطرت میں چونکہ اللہ نے انابت کا ملکہ رکھا تھا اسی لیے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو انیب قرار دیا ہے کہ آپ کثرت سے اللہ کی طرف لوٹنے والے تھے۔ ہر بات میں اور ہر تکلیف کے وقت آپ کا رجوع اللہ کی ذات کی طرف ہوتا تھا۔ چناچہ آپ اس مشکل وقت میں بھی اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور بار بار اللہ کی رحمت کو پکارا، اور بار بار التجا کی کہ یا اللہ، یہ لوگ برے سہی، ان میں کچھ اچھے لوگ بھی تو ہوں گے، ان کی برکت سے انھیں معاف فرما دے۔ انھیں مزید مہلت عطا فرما اور یہ بات اس اصرار اور تکرار کے ساتھ کہی کہ اسے قرآن کریم نے جدال اور جھگڑے سے تعبیر کیا، حالانکہ اللہ سے جھگڑنے کی جرأت کون کرسکتا ہے اور پھر اللہ کا خلیل جو اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنے والا اور جان دینے والا ہے اس سے اس کی امید کیسے ہوسکتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک مقام ہے جو بعض دفعہ اہل محبت کے یہاں کسی کو نصیب ہوجاتا ہے۔ جیسے ماں باپ بچے کی ضد کو برداشت کرتے ہیں اور محبوب اپنے عاشق ناشاد کو بعض دفعہ اصرار کی اجازت دے دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم کو بھی ایسا ہی مقام حاصل تھا ورنہ وہ اللہ کے مقام کی عظمت سے سب سے زیادہ آگاہ تھے۔ قرآن کریم نے جدال کا لفظ بول کر آپ کی آہ وزاری اور اصرار اور تکرار کی ایک تصویر کھینچ دی ہے جس کے اندر ایک جہانِ معنی مضمر ہے۔ البتہ تورات نے اسے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کہاں تک محفوظ ہے، لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہر طرح سے قوم لوط کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی رحیمی اور کریمی کے باوجود حضرت ابراہیم کی درخواست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ تورات میں منقول ہے : پر ابراہام خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا۔ تب ابراہام نے نزدیک جا کر کہا کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا ؟ شاید اس شہر میں پچاس راست باز ہوں۔ کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس راست بازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑے گا ؟ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہوجائیں۔ یہ تجھ سے بعید ہے۔ کیا تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کرے گا اور خداوند نے فرمایا کہ اگر مجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راست باز ملیں تو میں ان کی خاطر اس مقام کو چھوڑ دوں گا۔ تب ابراہام نے جواب دیا، کہا کہ دیکھئے ! میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی اگرچہ میں راکھ اور خاک ہوں۔ شاید پچاس راست بازوں میں پانچ کم ہوں۔ کیا ان پانچ کی کمی کے سبب سے تو تمام شہر کو نیست کر دے گا ؟ اس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس ملیں تو میں اسے نیست نہیں کروں گا، پھر اس نے کہا کہ شاید وہاں چالیس ملیں۔ تب اس نے کہا کہ میں ان چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کروں گا، پھر اس نے کہا کہ خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس ملیں۔ اس نے کہا اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی میں ایسا نہیں کروں گا، پھر اس نے کہا دیکھئے ! میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی۔ شایدوہاں بیس ملیں۔ اس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ تب اس نے کہا، خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں، شاید وہاں دس ملیں۔ اس نے کہا میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ (پیدائش باب 18: 23۔ 32)
Top