Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 9
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ
عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا ہر غیب وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر الْكَبِيْرُ : سب سے بڑا الْمُتَعَالِ : بلند مرتبہ
جاننے والا پوشیدہ اور ظاہر کا سب سے بڑا برتر،
خلاصہ تفسیر
وہ تمام پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا ہے سب سے بڑا (اور) عالی شان ہے تم میں سے جو شخص کوئی بات چپکے سے کہے اور جو پکار کر کہے اور جو شخص رات میں کہیں چھپ جائے اور جو دن میں چلے پھرے یہ سب (خدا کے علم میں) برابر ہیں (یعنی سب کو یکساں جانتا ہے اور جیسا تم میں سے ہر شخص کو جانتا ہے اسی طرح ہر ایک کی حفاظت بھی کرتا ہے چناچہ تم میں سے) ہر شخص (کی حفاظت) کے لئے فرشتے (مقرر) ہیں جن کی بدلی ہوتی رہتی ہے کچھ اس کے آگے اور کچھ اس کے پیچھے کہ وہ بحکم خدا (بہت بلاؤں سے) اس کی حفاظت کرتے ہیں (اور اس سے کوئی یوں نہ سمجھ جائے کہ جب فرشتے ہمارے محافظ ہیں پھر جو چاہو کرو معصیت خواہ کفر کسی طرح عذاب نازل ہی نہ ہوگا یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ) واقعی اللہ تعالیٰ (ابتدا تو کسی کو عذاب دیتا نہیں چناچہ اس کی عادت ہے کہ وہ) کسی قوم کی (اچھی) حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی (صلاحیت کی) حالت کو نہیں بدل دیتے) مگر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جب وہ اپنی صلاحیت میں خلل ڈالنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مصیبت و عقوبت تجویز کی جاتی ہے) اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر مصیبت ڈالنا تجویز کرلیتا ہے تو پھر اس کے ہٹنے کی کوئی صورت ہی نہیں (وہ واقع ہوجاتی ہے) اور (ایسے وقت میں) کوئی خدا کے سوا (جن کی حفاظت کا ان کو زعم ہے) ان کا مددگار نہیں رہتا ہے (حتی کہ فرشتے بھی ان کی حفاظت نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی تو حفاظت ان کے کام نہ آسکتی) وہ ایسا (عظیم الشان) ہے کہ تم کو (بارش کے وقت) بجلی (چمکتی ہوئی) دکھلاتا ہے جس سے (اس کے گرنے کا) ڈر بھی ہوتا ہے اور (اس سے بارش کی) امید بھی ہوتی ہے اور وہ بادلوں کو (بھی) بلند کرتا ہے جو پانی سے بھرے ہوتے ہیں اور رعد (فرشتہ) اس کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتا ہے اور (دوسرے) فرشتے بھی اس کے خوف سے (اس کی تحمید و تسبیح کرتے ہیں) اور وہ (زمین کی طرف) بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہے گرا دیتا ہے اور وہ لوگ اللہ کے بارے میں (یعنی اس کی توحید میں باوجود اس کے ایسے عظیم الشان ہونے کے) جھگڑتے ہیں حالانکہ وہ بڑا شدید القوت ہے (جس سے ڈرنا چاہئے مگر یہ لوگ ڈرتے نہیں اور اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور وہ ایسا مجیب الدعوات ہے) کہ سچا پکارنا اسی کے لئے خاص ہے (کیونکہ اس کو قبول کرنے کی قدرت ہے) اور خدا کے سوا جن کو یہ لوگ (اپنے حوائج و مصائب میں) پکارتے ہیں وہ (بوجہ عدم قدرت کے) ان کی درخواست کو اس سے زیادہ منظور نہیں کرسکتے جتنا پانی اس شخص کی درخواست کو منظور کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوتا ہو (اور اس کو اشارہ سے اپنی طرف بلا رہا ہو) تاکہ وہ (پانی) اس کے منہ تک (اڑ کر) آجاوے اور وہ (از خود) اس کے منہ تک (کسی طرح) آنیوالا نہیں (پس جس طرح پانی ان کی درخواست قبول کرنے سے عاجز ہے اسی طرح ان کے معبود عاجز ہیں اس لئے) کافروں کی (ان سے) درخواست کرنا محض بےاثر ہے اور اللہ ہی (ایسا قادر مطلق ہے کہ اسی) کے سامنے سب سرخم کئے ہوئے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں (بعضے) خوشی سے اور (بعضے) مجبوری سے (خوشی سے یہ کہ باختیار خود عبادت کرتے ہیں اور مجبوری کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق میں جو تصرف کرنا چاہتے ہیں وہ اس کی مخالفت نہیں کرسکتا) اور ان (زمین والوں) کے سائے بھی (سرخم کئے ہیں) صبح اور شام کے وقتوں میں (یعنی سایہ کو جتنا چاہیں بڑھائیں جتنا چاہیں گھٹائیں اور صبح وشام کے وقت چونکہ دراز ہونے اور گھٹنے کا زیادہ ظہور ہوتا ہے اس لئے تخصیص کی گئی ورنہ سایہ بھی بایں معنی ہر طرح مطیع ہے)

معارف و مسائل
آیات مذکورہ سے پہلے اللہ جل شانہ کی مخصوص صفات کمال کا سلسلہ چل رہا ہے جو در حقیقت توحید کے دلائل ہیں اس آیت میں فرمایا،
عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَال غیب سے مراد وہ چیز ہے جو انسانی حواس سے غائب ہو یعنی نہ آنکھوں سے اس کو دیکھا جاسکے نہ کانوں سے سنا جاسکے نہ ناک سے سونگھا جاسکے نہ زبان سے چکھا جاسکے نہ ہاتھوں سے چھو کر معلوم کیا جاسکے
شہادت اس کے بالمقابل وہ چیزیں ہیں جن کو انسانی حواس مذکورہ کے ذریعہ معلوم کیا جاسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کی خاص صفت کمال یہ ہے کہ وہ ہر غیب کو اس طرح جانتا ہے جس طرح حاضر و موجود کو جانتا ہے
الکبیر کے معنی بڑا اور متعال کے معنی بالا و بلند مراد ان دونوں لفظوں سے یہ ہے وہ مخلوقات کی صفات سے بالا وبلند اور اکبر ہے کفار و مشرکین اللہ تعالیٰ کے لئے اجمالی طور بڑائی اور کبریائی کا تو اقرار کرتے تھے مگر اپنے قصور فہم سے اللہ تعالیٰ کو بھی عام انسانوں پر قیاس کر کے اللہ کے لئے ایسی صفات ثابت کرتے تھے جو اس کی شان سے بہت بعید ہیں جیسے یہود و نصارٰی نے اللہ کے لئے بیٹا ثابت کیا کسی نے اللہ کے لئے انسان کی طرح جسم اور اعضاء ثابت کئے کسی نے جہت اور سمت کو ثابت کیا حالانکہ وہ ان تمام حالات وصفات سے بالا و بلند اور منزہ ہے قرآن کریم نے ان کی بیان کردہ صفات سے برات کے لئے بار بار فرمایا سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْن یعنی پاک ہے اللہ ان صفات سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں
پہلے جملہ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ میں نیز اس سے پہلی آیت اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ میں اللہ جل شانہ کے کمال علمی کا بیان تھا اس دوسرے جملے الْكَبِيْرُ الْمُتَعَال میں کمال قدرت و عظمت کا ذکر ہے کہ ان کی طاقت وقدرت انسانی تصورات سے بالاتر ہے اس کے بعد کی آیت میں بھی اسی کمال علمی اور کمال قدرت کو ایک خاص انداز سے بیان فرمایا ہے
Top