Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
اللہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ اور جو سکڑتے ہیں پیٹ اور بڑھتے ہیں اور ہر چیز کا اس کے یہاں اندازہ ہے۔
ارشاد ہے (آیت) اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا بد شکل نیک ہے یا بد اور جو کچھ ان عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے کہ کبھی ایک بچہ پیدا ہوتا ہے کبھی زیادہ اور کبھی جلدی پیدا ہوتا ہے کبھی دیر میں۔
اس آیت میں حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کا بیان ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں تمام کائنات و مخلوقات کے ذرہ ذرہ سے واقف اور ہر ذرہ کے بدلتے ہوئے حالات سے باخبر ہیں اس کے ساتھ ہی تخلیق انسانی کے ہر دور اور ہر تغیر اور ہر صفت سے پوری طرح واقف ہونے کا ذکر ہے کہ حمل کا یقینی اور صحیح علم صرف اسی کو ہوتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی یا دونوں یا کچھ بھی نہیں صرف پانی یا ہوا ہے قرائن اور تخمینہ سے کوئی حکیم یا ڈاکٹر جو کچھ اس معاملہ میں رائے دیتا ہے اس کی حیثت ایک گمان اور اندازہ سے زیادہ نہیں ہوتی بسا اوقات واقعہ اس کے خلاف نکلتا ہے ایکسرے کا جدید آلہ بھی اس حقیقت کو کھولنے سے قاصر ہے اس کا حقیقی اور یقینی علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے اسی کا بیان ایک دوسری آیت میں ہے (آیت) وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے
لفظ تغیض عربی زبان میں کم ہونے اور خشک ہونے کے معنی میں آتا ہے آیت مذکورہ میں اس کے بالمقابل تزدادُ کے لفظ نے متعین کردیا کہ اس جگہ معنی کم ہونے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ رحم مادر میں جو کچھ کمی یا بیشی ہوتی ہے اس کا علم صحیح بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس کمی اور بیشی سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کی تعداد میں کمی بیشی ہو کہ حمل میں صرف ایک بچہ ہے یا زیادہ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمانہ پیدائش کی کمی بیشی مراد ہو کہ یہ حمل کتنے مہینے کتنے دن اور کتنے گھنٹوں میں پیدا ہو کر ایک انسان کو ظاہری وجود دے گا اس کا یقینی علم بھی بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہوسکتا۔
امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ زمانہ حمل میں جو خون عورت کو آجاتا ہے وہ حمل کی جسامت وصحت میں کمی کا باعث ہوتا ہے تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ سے مراد یہ کمی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جتنے اقسام کمی کے ہیں آیت کے الفاظ سب پر حاوی ہیں اس لئے کوئی اختلاف نہیں۔
كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر چیز کا ایک خاص انداز اور پیمانہ مقرر ہے نہ اس سے کم ہو سکتی ہے نہ زیادہ بچے کے تمام حالات بھی اس میں داخل ہیں کہ اس کی ہر چیز اللہ کے نزدیک متعین ہے کہ کتنے دن حمل میں رہے گا پھر کتنے زمانہ تک دنیا میں زندہ رہے گا کتنا رزق اس کو حاصل ہوگا اللہ جل شانہ کا یہ بےمثال علم اس کی توحید کی واضح دلیل ہے،
Top