Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور رکھ دیئے اس پر بوجھ اور اگائی اس میں ہر چیز اندازے سے
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس (زمین) میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیئے اور اس میں ہر قسم کی (ضرورت کی پیداوار) ایک معین مقدار سے اگائی اور ہم نے تمہارے واسطے اس (زمین) میں معاش کے سامان بنائے (جس میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں داخل ہیں جو کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے سے متعلق ہیں) اور (یہ سامان معاش اور ضروریات زندگی صرف تم کو ہی نہیں دیا بلکہ) ان کو بھی دیا جن کو تم روزی نہیں دیتے (یعنی وہ تمام مخلوقات جو ظاہر میں بھی تمہارے ہاتھ سے خوردو نوش اور زندگی گذارنے کا سامان نہیں پاتے ظاہر اس لئے کہا کہ گھر کے پالتو جانور بکری، گائے، بیل، گھوڑا، گدھا وغیرہ بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اپنی روزی اور ضروریات معاش حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے پاتے ہیں مگر ظاہری طور پر ان کے خوردو نوش اور رہائش کا انتظام انسانوں کے ہاتھوں ہوتا ہے ان کے علاوہ تمام دنیا کے بری اور بحری جانور، پرندے اور درندے ایسے ہیں جن کے سامان معاش میں کسی انسانی ارادے اور عمل کا کوئی دخل اور شائبہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ جانور اتنے بےحد و بیشمار ہیں کہ انسان نہ ان سب کو پہچان سکتا ہے نہ شمار کرسکتا ہے) اور جتنی چیزیں (ضروریات زندگی سے متعلق ہیں ہمارے پاس سب کے خزانے کے خزانے (بھرے پڑے) ہیں اور ہم (اپنی خاص حکمت کے مطابق) اس (چیز) کو ایک معین مقدار سے اتارتے رہتے ہیں اور ہم ہی ہواؤں کو بھیجتے رہتے ہیں جو بادل کو پانی سے بھر دیتی ہیں پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں اور تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھنے والے نہ تھے (کہ اگلی بارش تک اس ذخیرہ کو استعمال کرتے رہتے) اور ہم ہی ہیں کہ زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں اور (سب کے مرنے کے بعد) ہم ہی باقی رہ جاویں گے اور ہم ہی جانتے ہیں تم میں سے آگے بڑھ جانے والوں کو اور ہم جانتے ہیں پیچھے رہنے والوں کو اور بیشک آپ کا رب ہی ان سب کو (قیامت میں) محشور فرماوے گا (یہ اس لے فرمایا کہ اوپر توحید ثابت ہوئی ہے اس میں منکر توحید کی سزاء کی طرف اشارہ کردیا) بیشک وہ حکمت والا ہے (ہر شخص کو اس کے مناسب بدلہ دے گا اور) علم والا ہے (سب کے اعمال کی اس کو پوری خبر ہے)

معارف و مسائل
حکمت الہیہ ضروریات معاش میں تناسب وموزونیت
مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو ترجمہ میں لیا گیا ہے کی بتقاضائے حکمت ہر اگنے والی چیز کی ایک مقدار معین اگائی جس سے کم ہوجاتی تو زندگی میں دشواریاں پیدا ہوجاتیں اور زیادہ ہوجاتی تو بھی مشکلات پیدا کرتی انسانی ضرورت کے گندم اور چاول وغیرہ اور بہتر سے بہتر عمدہ پھل اگر اتنے زیادہ پیدا ہوجائیں جو انسانوں اور جانوروں کے کھانے پینے کے بعد بھی بہت بچ رہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سڑیں گے ان کا رکھنا بھی مشکل ہوگا اور پھینکنے کے لئے جگہ نہ رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو یہ بھی تھا کہ جن دانوں اور پھلوں پر انسان کی زندگی موقوف ہے ان کو اتنا زیادہ پیدا کردیتے کہ ہر شخص کو ہر جگہ مفت مل جایا کرتے اور بےفکری سے استعمال کرنے کے بعد بھی ان کے بڑے ذخیرے پڑے رہتے لیکن یہ انسان کے لئے عذاب ہوجاتا اس لئے ایک خاص مقدار میں نازل کئے گئے کہ ان کی قدر و قیمت بھی باقی رہے اور بیکار بھی نہ بچیں۔
اور مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام اگنے والی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تناسب اور موزونیت کے ساتھ پیدا کیا ہے جس سے اس میں حسن اور دل کشی پیدا ہوتی، مختلف رنگ اور ذائقے کے پیدا کئے گئے جس کے تناسب اور حسین منظر سے تو انسان فائدہ اٹھاتا ہے مگر ان کی تفصیلی حکمتوں کا ادراک کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔
Top