Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور مانگتا ہے آدمی برائی جیسے مانگتا ہے بھلائی اور ہے انسان جلد باز۔
شاید اسی مناسبت سے مذکورہ آیات میں سے آخری آیت میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ انسان تو بعض اوقات جلد بازی میں اپنے لئے ایسی دعا مانگ لیتا ہے جو اس کے لئے تباہی و بربادی کا سبب ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی ایسی دعا کو قبول فرما لیں تو یہ برباد ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ اکثر ایسی دعاؤں کو فورا قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ خود انسان سمجھ لیتا ہے کہ میری یہ درخواست غلط اور میرے لئے سخت مضر تھی اور آیت کے آخری جملہ میں انسان کی ایک طبعی کمزوری کو بطور ضابطہ کے بھی ذکر فرمایا کہ انسان اپنی طبیعت سے ہی جلد باز واقع ہوا ہے سرسری نفع نقصان پر نظر رکھتا ہے انجام بینی اور عاقبت اندیشی میں کوتاہی کرتا ہے فوری راحت چاہے تھوڑی ہو اس کو بڑی اور دائمی راحت پر ترجیح دینے لگتا ہے اس تقریر کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت میں عام انسانوں کی ایک طبعی کمزوری کا بیان ہے۔
اور بعض ائمہ تفسیر نے اس آیت کو ایک خاص واقعہ کے متعلق قرار دیا ہے وہ یہ کہ نضر بن حارث نے اسلام کی مخالفت میں ایک مرتبہ یہ دعا کر ڈالی (آیت) اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ یعنی یا اللہ اگر آپ کے نزدیک یہ اسلام ہی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یا کوئی اور درد ناک عذاب بھیج دے اس صورت میں انسان سے یہ خاص انسان یا جو اس کے ہم طبع ہوں مراد ہوں گے۔
Top