Maarif-ul-Quran - At-Tur : 26
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہم نے چاہا کہ غارت کریں کسی بستی کو حکم بھیج دیا اس کے عیش کرنے والوں کو پھر انہوں نے نافرمانی کی اس میں تب ثابت ہوگئی ان پر بات پھر اکھاڑ مارا ہم نے ان کو اٹھا کر
ربط آیات
اس سے پہلی آیات میں اس کا بیان تھا کہ حق تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات نہ پہنچ جائیں اور پھر بھی وہ اطاعت نہ کریں اس وقت تک ان پر عذاب نہیں بھیجتے مذکورہ آیات میں اس کے دوسرے رخ کا بیان ہے کہ جب کسی قوم کے پاس رسول اور اللہ کے پیغام پہنچ گئے اور پھر بھی انہوں نے سرکشی سے کام لیا تو اس پر عذاب عام بھیج دیا جاتا ہے۔

خلاصہ تفسیر
اور جب ہم کسی بستی کو (جو اپنے کفر و نافرنی کی وجہ سے بمتقضائے حکمت الہیہ ہلاک کرنے کے قابل ہو) ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو (اسکو بعثت رسل سے پہلے ہلاک نہیں کرتے بلکہ پہلے کسی رسول کی معرفت) اس (بستی) کے خوش عیش (یعنی امیر ورئیس) لوگوں کو (خصوصا اور دوسرے عوام کو عموما ایمان و اطاعت کا) حکم دیتے ہیں پھر (جب) وہ لوگ (کہنا نہیں مانتے بلکہ) وہاں شرارت مچاتے ہیں تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے پھر اس بستی کو تباہ و غارت کر ڈالتے ہیں اور (اسی عادت کے موافق) ہم نے بہت سی امتوں کو نوح ؑ کے (زمانہ کے) بعد (ان کے کفر و معصیت کے سبب) ہلاک کیا ہے (جیسے عاد وثمود وغیرہ اور نوح ؑ کی قوم کا غرق ہو کر ہلاک ہونا مشہور و معروف ہے اس لئے مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ پر اکتفا کیا گیا خود قوم نوح کا ذکر نہیں کیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شروع سورت میں آیت ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ میں لفظ حَمَلْنَا سے طوفان نوح کی طرف اشارہ موجود ہے اس کو قوم نوح کی ہلاکت کا بیان قرار دے کر یہاں مابعد نوح ؑ کا ذکر فرمایا گیا) اور آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں کا جاننے والا دیکھنے والا کافی ہے (تو جیسا کسی قوم کا گناہ ہوتا ہے کے ویسی سزا دیتا ہے)

معارف و مسائل
ایک شبہ اور اس کا جواب
الفاظ آیت اِذَآ اَرَدْنَآ اور اس کے بعد اَمَرْنَا کے ظاہر سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ ان لوگوں کا ہلاک کرنا ہی مقصود خداوندی تھا اس لئے ان کو اول بذریعہ انبیاء (علیہم السلام) ایمان و اطاعت کا حکم دینا پھر ان کے فسق و فجور کو عذاب کا سبب بنانا یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوا تو اس صورت میں یہ بیچارے معذور و مجبور ہوئے اس کے جواب کی طرف ترجمہ اور خلاصہ تفسیر کے ضمن میں یہ اشارہ آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل واختیار دیا اور عذاب وثواب کے راستے متعین کردیئے جب کوئی اپنے اختیار سے عذاب ہی کے کام کا عزم کرے تو عادت اللہ یہ ہے کہ وہ اسی عذاب کے اسباب مہیا کردیتے ہیں تو اصلی سبب عذاب کا خود ان کو عزم اور قصد ہے کفر و معصیت کا نہ کہ محض ارادہ اس لئے وہ معذور نہیں ہو سکتے۔
آیت مذکورہ کی ایک دوسری تفسیر
لفظ اَمَرْنَا کا مشہور مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی حکم دیا ہم نے لیکن اس آیت میں اس لفظ کی قراءتیں مختلف ہیں ایک قراءت میں جس کو ابو عثمان نہدی ابو رجاء ابوالعالیہ اور مجاہد نے اختیار کیا ہے یہ لفظ بتشدید میم آیا ہے یعنی امرنا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم نے امیر وحاکم بنادیا خوش عیش سرمایہ دار لوگوں کو جو فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے اور سب قوم کے لئے عذاب کا سبب بنے۔
اور حضرت علی وابن عباس کی ایک قراءت میں یہ لفظ امرنا پڑھا گیا جس کی تفسیر انہیں حضرات سے اکثرنا نقل کی گئی ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب بھیجتے ہیں تو اس کی ابتدائی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم میں خوش عیش سرمایہ دار لوگوں کی کثرت کردی جاتی ہے اور وہ اپنے فسق و فجور کے ذریعہ پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
ان میں سے پہلی قراءت کا حاصل تو یہ ہوا کہ ایسے خوش عیش سرمایہ داروں کو قوم کا حاکم بنادیا جاتا ہے اور دوسری قراءت کا حاصل یہ ہے کہ قوم میں ایسے لوگوں کی کثرت کردی جاتی ہے ان دونوں سے یہ معلوم ہوا کہ عیش پسند لوگوں کی حکومت یا ایسے لوگوں کی قوم میں کثرت کچھ خوشی کی چیز نہیں عذاب الہی کی علامت ہے حق تعالیٰ جب کسی قوم پر ناراض ہوتے ہیں اور اس کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ابتدائی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے حاکم ورئیس ایسے لوگ بنا دیئے جاتے ہیں جو عیش پسند عیاش ہوں یا حاکم بھی نہ بنیں تو اس قوم کے افراد میں ایسے لوگوں کی کثرت کر دیجاتی ہے دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہوات ولذات میں مست ہو کر اللہ کی نافرمانیاں خود بھی کرتے ہیں دوسروں کے لئے بھی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں بالآخران پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجاتا ہے۔
مالداروں کا قوم پر اثر ہونا ایک طبعی امر ہے
آیت میں خوش عیش مالداروں کا خصوصیت سے ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ فطری طور پر عوام اپنے مالداروں اور حاکموں کے اخلاق و اعمال سے متاثر ہوتے ہیں جب یہ لوگ بدعمل ہوجائیں تو پوری قوم بد عمل ہوجاتی ہے اس لئے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت دیا ہے ان کو اس کی زیادہ فکر ہونا چاہئے کہ اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کرتے رہیں ایسا نہ ہو کہ یہ عیش پرستی میں پڑ کر اس سے غافل ہوجائیں اور پوری قوم ان کی وجہ سے غلط راستے پر پڑجائے تو قوم کے اعمال بد کا وبال بھی ان پر پڑے گا۔
Top