Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور پاس نہ جاؤ بدکاری کے وہ ہے بےحیائی اور بری راہ ہے۔
خلاصہ تفسیر
اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو (یعنی اس کے مبادی اور مقدمات سے بھی بچو) بلاشبہ وہ (خود بھی) بڑی بےحیائی کی بات ہے اور (دوسرے مفاسد کے اعتبار سے بھی) بری راہ ہے (کیونکہ اس پر عداوتیں اور فتنے اور تضبیع نسب مرتب ہوتے ہیں)

معارف و مسائل
یہ ساتواں حکم زنا کی حرمت کے متعلق ہے جس کے حرام ہونے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ وہ بےحیائی ہے اور انسان میں حیا نہ رہی تو وہ انسانیت ہی سے محروم ہوجاتا ہے پھر اس کے لئے کسی بھلے برے کام کا امتیاز نہیں رہتا اسی معنی کے لئے حدیث میں ارشاد ہے اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت۔ یعنی جب تیری حیا ہی جاتی رہی تو کسی برائی سے رکاوٹ کا کوئی پردہ نہ رہا تو جو چاہو گے کرو گے اور اسی لئے رسول کریم ﷺ نے حیاء کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے والحیاء شعبۃ من الایمان (بخاری) دوسری وجہ معاشرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں رہتی اور اس کے نتائج بد بعض اوقات پورے قبیلوں اور قوموں کو برباد کردیتے ہیں فتنے چوری ڈاکہ قتل کی جتنی کثرت آج دنیا میں بڑھ گئی ہے اس کے حالات کی تحقیق کی جائے تو آدھے سے زیادہ واقعات کا سبب کوئی عورت و مرد نکلتے ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہوئے اس جرم کا تعلق اگرچہ بلاواسطہ حقوق العباد سے نہیں مگر اس جگہ حقوق العباد سے متعلقہ احکام کے ضمن میں اس کا ذکر کرنا شاید اسی بناء پر ہو کہ یہ جرم بہت سے ایسے جرائم ساتھ لاتا ہے جس سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں اور قتل و غارت گری کے ہنگامے برپا ہوتے ہیں اسی لئے اسلام نے اس جرم کو تمام جرائم سے اشد قرار دیا ہے اس کی سزاء بھی سارے جرائم کی سزاؤں سے زیادہ سخت رکھی ہے کیونکہ یہ ایک جرم دوسرے سینکڑوں جرائم کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرمگاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی کہ اہل جہنم بھی اس سے پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی (رواہ البزار عن بریدہ مظہری) ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مومن نہیں ہوتا چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مومن نہیں ہوتا یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے اس کی شرح ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ ان جرائم کے کرنے والے جس وقت مبتلائے جرم ہوتے ہیں تو ایمان ان کے قلب سے نکل کر باہر آجاتا ہے اور پھر جب اس سے لوٹ جاتے ہیں تو ایمان واپس آجاتا ہے (مظہری)
Top