Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ
: اب کہیں گے
السُّفَهَآءُ
: بیوقوف
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
مَا
: کس
وَلَّاهُمْ
: انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا
عَنْ
: سے
قِبْلَتِهِمُ
: ان کا قبلہ
الَّتِيْ
: وہ جس
کَانُوْا
: وہ تھے
عَلَيْهَا
: اس پر
قُلْ
: آپ کہہ دیں
لِلّٰہِ
: اللہ کے لئے
الْمَشْرِقُ
: مشرق
وَالْمَغْرِبُ
: اور مغرب
يَهْدِیْ
: وہ ہدایت دیتا ہے
مَنْ
: جس کو
يَّشَآءُ
: چاہتا ہے
إِلٰى
: طرف
صِرَاطٍ
: راستہ
مُّسْتَقِيمٍ
: سیدھا
اب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پر وہ تھے تو کہہ اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب، چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ۔
خلاصہ تفسیر
(جب کعبہ قبلہ نماز مقرر ہو کر یہود کا قبلہ متروک ہوگیا تو بوجہ ناگواری کے) اب تو (یہ) بیوقوف لوگ ضرور ہی کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے (سابق سمیت) قبلہ سے (کہ بیت المقدس تھا) جس طرف پہلے متوجہ ہوا کرتے تھے کس بات نے (دوسری سمت کی طرف) بدل دیا آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ سب (سمتیں خواہ) مشرق ہو اور (خواہ) مغرب (ہو) اللہ ہی ملک ہیں (خدا تعالیٰ کو مالکانہ اختیار ہے جس سمت کو چاہیں مقرر فرمادیں کسی کو منصب علت دریافت کرنے کا نہیں ہے اور سیدھا طریق احکام شرعیہ کے باب میں یہی اعتقاد ہے لیکن بعضوں کو اس راہ کے اختیار کرنے کی توفیق نہیں ہوتی خواہ مخواہ علتیں ڈھونڈتے پھرا کرتے ہیں البتہ) جس کو خدا ہی (اپنے فضل سے) چاہیں (یہ) سیدھا طریق بتلا دیتے ہیں،
معارف و مسائل
اس آیت میں میں مخالفین کا اعتراض درباہ تحویل قبلہ نقل کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے اس اعتراض اور جواب سے پہلے قبلہ کی حقیقت اور اس کی مختصر تاریخ سن لیجئے جس سے سوال و جواب کا سمجھنا آسان ہوجائے گا،
قبلہ کے لفظی معنی ہیں سمت توجہ یعنی جس طرف رخ کیا جائے یہ ظاہر ہے کہ مومن کا رخ ہر عبادت میں صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف ہوتا ہے اور اس کی ذات پاک مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی قیدوں اور سمتوں سے بالاتر ہے وہ کسی خاص سمت میں نہیں اس کا اثر طبعی طور پر یہ ہونا تھا کہ کوئی عبادت کرنے والا کسی خاص رخ کا پابند نہ ہوتا جس کا جس طرف جی چاہتا نماز میں اپنا رخ اس طرف کرلیتا اور ایک ہی آدمی کسی وقت ایک طرف اور کسی وقت کئی طرف رخ کرتا تو وہ بھی بےجا نہ ہوتا،
لیکن ایک دوسری حکمت الہیہ اس کی مقتضی ہوئی کہ تمام عبادت گذاروں کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ عبادت کی مختلف قسمیں ہیں بعض انفرادی ہیں بعض اجتماعی ذکر اللہ اور روزہ وغیرہ انفرادی عبادات ہیں جن کو خلوت میں اور اخفاء کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے اور نماز اور حج اجتماعی عبادات ہیں جن کو جماعت و اجتماع و اعلان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے ان میں عبادت کے ساتھ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی کے آداب کا بتلانا اور سکھانا بھی پیش نظر ہے اور یہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ اجتماعی نظام کا سب سے بڑا بنیادی اصول افراد کثیرہ کی وحدت اور یک جہتی ہے، یہ وحدت جتنی زیادہ قوی سے قوی ہوگی اتنا ہی اجتماعی نظام مستحکم اور مضبوط ہوگا انفرادیت اور تشتت اجتماعی نظام کے لئے سم قاتل ہے پھر نقطہ وحدت متعین کرنے میں ہر قرن ہر زمانہ کے لوگوں کی مختلف راہیں رہی ہیں کسی قوم نے نسل اور نسب کو نقطہ وحدت قرار دیا کسی نے وطن اور جغرافیائی خصوصیات کو کسی نے رنگ اور زبان کو،
لیکن دین الہی اور شرائع انبیاء (علیہم السلام) نے ان غیر اختیاری چیزوں کو نقطہ وحدت بنانے کے قابل نہیں سمجھا اور نہ درحقیقت یہ چیزیں ایسی ہیں جو پورے افراد انسانی کو کسی ایک مرکز پر جمع کرسکیں بلکہ جتنا غور کیا جائے یہ وحدتیں درحقیقت افراد انسانی کو بہت سی کثرتوں میں تقسیم کر ڈالنے اور آپس میں ٹکراؤ اور اختلافات کے اسباب ہیں،
دین اسلام نے جو درحقیقت تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ہے وحدت کا اصل نقطہ فکر و خیال اور عقیدہ کی وحدت کو قرار دیا اور کروڑوں خداؤں کی پرستش میں بٹی ہوئی دنیا کو ایک ذات حق وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی جس پر مشرق ومغرب اور ماضی و مستقبل کے تمام افراد انسانی جمع ہوسکتے ہیں پھر اس حقیقی فکری اور نظری وحدت کو عملی صورت اور قوت دینے کے لئے کچھ ظاہری وحدتیں بھی ساتھ لگائی گئیں مگر ان ظاہری وحدتوں میں بھی اصول یہ رکھا گیا کہ وہ عملی اور اختیاری ہوں تاکہ تمام افراد انسانی ان کو اختیار کرکے ایک رشتہ اخوت میں منسلک ہوسکیں نسب، وطن، زبان، رنگ وغیرہ اختیاری چیزیں نہیں ہیں جو شخص ایک خاندان کے اندر پیدا ہوچکا ہے وہ کسی طرح دوسرے خاندان میں پیدا نہیں ہوسکتا جو پاکستان میں پیدا ہوچکا وہ انگلستان یا افریقہ میں پیدا نہیں ہوسکتا جو کالا ہے وہ اپنے اختیار سے گورا اور جو گورا ہے وہ اپنے اختیار سے کالا نہیں ہوسکتا،
اب اگر ان چیزوں کو مزکز وحدت بنایا جائے تو انسانیت کا سیکڑوں بلکہ ہزاروں ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجانا ناگریز ہوگا اس لئے دین اسلام نے ان چیزوں سے جن سے تمدنی مفاد وابستہ ہیں ان کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان کو وحدت انسانی کا مرکز نہیں بننے دیا کہ یہ وحدتیں افراد انسانی کو مختلف کثرتوں میں بانٹنے والی ہیں ہاں اختیاری امور میں اس کی پوری رعایت رکھی کہ فکری وحدت کے ساتھ عملی اور صوری وحدت بھی قائم ہوجائے مگر اس میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا گیا کہ مرکز وحدت ایسی چیزیں بنائی جائیں جن کا اختیار کرنا ہر مرد و عورت لکھے پڑھے اور ان پڑھ شہری اور دیہاتی امیر و غریب کو یکساں طور پر آسان ہو، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلام نے تمام دنیا کے لوگوں کو لباس اور مسکن کھانے اور پینے کے کسی ایک طریقہ کا پابند نہیں کہا کہ ہر جگہ کے موسم اور طبائع مختلف اور ان کے ضروریات مختلفہ ہیں سب کو ایک ہی طرح کے لباس یا شعار (یونیفارم) کا پابند کردیا جائے تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی پھر اگر یہ یونیفارم کم سے کم تجویز کردیا جائے تو یہ اعتدال انسانی پر ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے عمدہ لباس اور عمدہ کپڑوں کی بےحرمتی ہوگی اور اگر اس سے زائد کسی لباس کا پابند کیا جائے تو غریب مفلس لوگوں کو مشکلات پیش آئیں گی،
اس لئے شریعت اسلام نے مسلمانوں کا کوئی ایک شعار (یونیفارم) مقرر نہیں کیا بلکہ مختلف قوموں میں جو طریقے اور اوضاع لباس کی رائج تھیں ان سب پر نظر کرکے ان میں سے جو صورتیں اسراف بیجا یا فخر وغیرہ یا کسی غیر مسلم قوم کی نقالی پر مبنی تھیں صرف ان کو ممنوع قرار دے کر باقی چیزوں میں ہر فرد اور ہر قوم کو آزاد اور خود مختار رکھا مرکز وحدت ایسی چیزوں کو بنایا گیا جو اختیاری بھی ہوں اور آسان اور سستی بھی ان چیزوں میں جیسے جماعت نماز کی صف بندی ایک امام کی نقل و حرکت کی مکمل پابندی حج میں لباس اور مسکن کا اشتراک وغیرہ ہیں،
اسی طرح ایک اہم چیز سمت قبلہ کی وحدت بھی ہے کہ اگرچہ اللہ جل شانہ کی ذات پاک ہر سمت وجہت سے بالاتر ہے اس کے لئے شش جہت یکساں ہیں لیکن نماز میں اجتماعی صورت اور وحدت پیدا کرنے کے لئے تمام دنیا کے انسانوں کا رخ کسی ایک ہی جہت وسمت کی طرف ہونا ایک بہترین اور آسان اور بےقیمت وحدت کا ذریعہ ہے جس پر سارے مشرق ومغرب اور جنوب و شمال کے انسان آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں اب وہ ایک سمت وجہت کونسی ہو جس کی طرف ساری دنیا کا رخ پھیر دیا جائے اس کا فیصلہ اگر انسانوں پر چھوڑا جائے تو یہ ایک سب سے بڑی بناء اختلاف ونزاع بن جاتی ہے اس لئے ضرور تھا کہ اس کا تعین خود حضرت حق جل وعلا شانہ کی طرف سے ہوتا حضرت آدم ؑ کو دنیا میں اتارا گیا تو فرشتوں کے ذریعہ بیت اللہ کعبہ کی بنیاد پہلے ہی رکھ دی گئی تھی حضرت آدم ؑ اور اولاد آدم ؑ کا سب سے پہلا قبلہ یہی بیت اللہ اور خانہ کعبہ بنایا گیا،
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ (96: 3) سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ گھر ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہدایت والا جہان والوں کیلئے نوح ؑ تک سب کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا طوفان نوح ؑ کے وقت پوری دنیا غرق ہو کر تباہ ہوگئی بیت اللہ کی عمارت بھی منہدم ہوگئی اور ان کے بعد حضرت خلیل اللہ ؑ اور اسماعیل ؑ نے دوبارہ بحکم خداوندی بیت اللہ کی تعمیر کی اور یہی ان کا اور ان کی امت کا قبلہ رہا اس کے بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کے لئے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا اور بقول ابو العالیہ انبیاء سابقین جو بیت المقدس میں نماز پڑہتے تھے وہ بھی عمل ایسا کرتے تھے کہ صخرہ بیت المقدس بھی سامنے رہے اور بیت اللہ بھی (ذکرہ القرطبی)
حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتدا آپ کا قبلہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم ؑ کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قرار دیا گیا مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے اور مدینہ طیبہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سے ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے آپ کو اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی مسجد نبوی میں آج تک اس کی علامات موجود ہیں جہاں کھڑے ہو کر آپ نے بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا فرمائی تھیں (قرطبی)
حکم خداوندی کی تعمیل کے لئے تو سید الرسل سر تاپا اطاعت تھے اور حکم خداوندی کے مطابق نمازیں بیت المقدس کی طرف ادا فرما رہے تھے لیکن آپ کی طبعی رغبت اور دلی خواہش یہی تھی کہ آپ کا قبلہ پھر وہی آدم ؑ اور ابراہیم ؑ کا قبلہ قرار دے دیا جائے اور چونکہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں کی مراد اور خواہش ورغبت کو پورا فرماتے ہیں،
تو چناں خواہی خدا خواہد چنیں
می دہد یزداں مراد متقیں
آنحضرت ﷺ کو بھی یہ امید تھی کہ آپ کی تمنا پوری کی جائے گی اور اس لئے انتظار وحی میں آپ بار بار آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے تھے اسی کا بیان قرآن کی اس آیت میں ہے، قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَ آفَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (144: 2) ہم دیکھ رہے ہیں آپ کا بارہا آسمان کی طرف نظر اٹھانا سو ہم آپ کا قبلہ وہی بدل دیں گے جو آپ کو پسند ہے اس لئے آئندہ آپ نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیا کریں،
اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی تمنا کا اظہار فرما کر اس کو پورا کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے کہ آئندہ آپ مسجد حرام کی طرف رخ کیا کریں،
نماز میں خاص بیت اللہ کا استقبال ضروری نہیں اس کی سمت کا استقبال بھی بیرونی دنیا کے لئے کافی ہے
یہاں ایک فقہی نکتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں کعبہ یا بیت اللہ کے بجائے لفظ مسجد حرام کا استعمال فرمایا گیا ہے جس میں اشارہ ہے کہ بلاد بعیدہ کے رہنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ عین بیت اللہ کی محاذات پائی جائے، بلکہ سمت بیت اللہ کی طرف رخ کرلینا کافی ہے، ہاں جو شخص مسجد حرام میں موجود ہے یا کسی قریبی پہاڑ پر بیت اللہ کو سامنے دیکھ رہا ہے اس کے لئے خاص بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اگر بیت اللہ کی کوئی چیز بھی اس کے چہرے کے محاذات میں نہ آئی تو اس کی نماز نہیں ہوتی بخلاف ان لوگوں کے جن کے سامنے بیت اللہ نہیں کہ ان کے واسطے سمت بیت اللہ یا سمت مسجد حرام کی طرف رخ کرلینا کافی ہے،
بہرحال ہجرت مدینہ سے سولہ سترہ مہینے بعد پھر آپ کا اور مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ کو بنایا گیا اس پر یہود اور بعض مشرکین و منافقین آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ ان کے دین کا بھی کوئی ٹھکانا نہیں ان کا قبلہ بھی روز روز بدلتا رہتا ہے،
قرآن کریم نے ان کا یہ اعتراض آیت مذکورہ میں نقل فرمایا مگر ساتھ ہی عنوان یہ رہا کہ بیوقوف لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں اور ان کی بیوقوفی اس جواب سے واضح ہوگئی جو اس کے بعد ذکر فرمایا گیا ہے ارشاد ہے، قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ یعنی آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی کے ہیں مشرق اور مغرب وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ چلاتا ہے،
اس میں استقبال قبلہ کی حقیقت کو واضح فرما دیا کہ کعبہ اور بیت المقدس کی کوئی خصوصیت بجز اس کے نہیں کہ حکم ربانی نے ان کو کوئی امتیاز دے کر قبلہ بنادیا وہ اگر چاہیں تو ان دونوں کے علاوہ کسی تیسری چوتھی چیز کو بھی قبلہ بنا سکتے ہیں پھر جس کو قبلہ بنادیا گیا اس کی طرف رخ کرنے میں جو کچھ فضیلت اور ثواب ہے اس کی روح حکم حق جل شانہ کی اطاعت کے سوا کچھ نہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم ؑ کی ملت کا بنیادی اصول ہے اور اسی لئے دوسری آیت میں اور زیادہ واضح فرمایا کہ
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ (177: 2) اس میں ذاتی کوئی نیکی اور ثواب نہیں کہ تم مشرق کی طرف رخ کرو یا مغرب کی طرف لیکن نیکی اللہ پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے میں ہے،
اور ایک آیت میں فرمایا،
فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (115: 2) یعنی تم اللہ کے فرمان کے مطابق جس طرف بھی رخ کرو اللہ تعالیٰ کی توجہ اسی طرف پاؤ گے،
ان آیات نے قبلہ اور استقبال قبلہ کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا کہ اس میں ان مقامات کی کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان میں فضیلت پیدا ہونے کا سبب ہی یہ ہے کہ ان کو حق تعالیٰ نے قبلہ بنانے کے لئے اختیار فرما لیا اور اس کی طرف رخ کرنے میں ثواب کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ حکم ربانی کی اطاعت ہے اور شاید آنحضرت ﷺ کے لئے قبلہ میں تغیر وتبدل فرمانے کی یہ بھی حکمت ہو کہ عملی طور سے لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ قبلہ کوئی بت نہیں جس کی پرستش کی جائے بلکہ اصل چیز حکم خداوندی ہے وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا آگیا تو اس کی تعمیل کی پھر جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اسی کی طرف رخ کرنا عبادت ہوگیا اس کے بعد والی آیت میں خود قرآن کریم نے بھی اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں فرمایا ہے ،
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ (143: 2) یعنی جس قبلہ پر آپ پہلے رہ چکے ہیں اس کو قبلہ بنانا تو محض اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ کون رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتا ہے اور کون پیچھے ہٹ جاتا ہے،
اس حقیقت قبلہ کے بیان سے ان بیوقوف مخالفین کا بھی پورا جواب ہوگیا جو قبلہ کے بارے میں تغییر وتحویل کو اصول اسلام کے منافی سمجھتے اور مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے آخر میں ارشاد فرمایا يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ اس میں بتلا دیا ہے کہ سیدھی راہ یہی ہے کہ انسان حکم حق جل شانہ کے لئے کمربستہ منتظر رہے جو حکم مل جائے اس پر بےچون وچرا عمل کرے اور یہ سیدھی راہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔
مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل کتاب کو مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا حسد تین چیزوں پر ہے ایک یہ کہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے مخصوص کرنے کا حکم ساری امتوں کو ملا تھا یہود نے سنیچر کا دن مقرر کرلیا اور نصاریٰ نے اتوار کا اور حقیقت میں عنداللہ وہ جمعہ کا روز تھا جو مسلمانوں کے انتخاب میں آیا۔ دوسرے وہ قبلہ جو تحویل کے بعد مسلمانوں کے لئے مقرر کیا گیا اور کسی امت کو اس کی توفیق نہیں ہوئی تیسرے امام کے پیچھے آمین کہنا کہ یہ تینوں خصلتیں صرف مسلمانوں کو میسر ہوئیں اہل کتاب ان سے محروم ہیں۔
Top