Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
اب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پر وہ تھے تو کہہ اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب، چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ۔
خلاصہ تفسیر
(جب کعبہ قبلہ نماز مقرر ہو کر یہود کا قبلہ متروک ہوگیا تو بوجہ ناگواری کے) اب تو (یہ) بیوقوف لوگ ضرور ہی کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو ان کے (سابق سمیت) قبلہ سے (کہ بیت المقدس تھا) جس طرف پہلے متوجہ ہوا کرتے تھے کس بات نے (دوسری سمت کی طرف) بدل دیا آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ سب (سمتیں خواہ) مشرق ہو اور (خواہ) مغرب (ہو) اللہ ہی ملک ہیں (خدا تعالیٰ کو مالکانہ اختیار ہے جس سمت کو چاہیں مقرر فرمادیں کسی کو منصب علت دریافت کرنے کا نہیں ہے اور سیدھا طریق احکام شرعیہ کے باب میں یہی اعتقاد ہے لیکن بعضوں کو اس راہ کے اختیار کرنے کی توفیق نہیں ہوتی خواہ مخواہ علتیں ڈھونڈتے پھرا کرتے ہیں البتہ) جس کو خدا ہی (اپنے فضل سے) چاہیں (یہ) سیدھا طریق بتلا دیتے ہیں،
معارف و مسائل
اس آیت میں میں مخالفین کا اعتراض درباہ تحویل قبلہ نقل کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے اس اعتراض اور جواب سے پہلے قبلہ کی حقیقت اور اس کی مختصر تاریخ سن لیجئے جس سے سوال و جواب کا سمجھنا آسان ہوجائے گا،
قبلہ کے لفظی معنی ہیں سمت توجہ یعنی جس طرف رخ کیا جائے یہ ظاہر ہے کہ مومن کا رخ ہر عبادت میں صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف ہوتا ہے اور اس کی ذات پاک مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی قیدوں اور سمتوں سے بالاتر ہے وہ کسی خاص سمت میں نہیں اس کا اثر طبعی طور پر یہ ہونا تھا کہ کوئی عبادت کرنے والا کسی خاص رخ کا پابند نہ ہوتا جس کا جس طرف جی چاہتا نماز میں اپنا رخ اس طرف کرلیتا اور ایک ہی آدمی کسی وقت ایک طرف اور کسی وقت کئی طرف رخ کرتا تو وہ بھی بےجا نہ ہوتا،
لیکن ایک دوسری حکمت الہیہ اس کی مقتضی ہوئی کہ تمام عبادت گذاروں کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ عبادت کی مختلف قسمیں ہیں بعض انفرادی ہیں بعض اجتماعی ذکر اللہ اور روزہ وغیرہ انفرادی عبادات ہیں جن کو خلوت میں اور اخفاء کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے اور نماز اور حج اجتماعی عبادات ہیں جن کو جماعت و اجتماع و اعلان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے ان میں عبادت کے ساتھ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی کے آداب کا بتلانا اور سکھانا بھی پیش نظر ہے اور یہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ اجتماعی نظام کا سب سے بڑا بنیادی اصول افراد کثیرہ کی وحدت اور یک جہتی ہے، یہ وحدت جتنی زیادہ قوی سے قوی ہوگی اتنا ہی اجتماعی نظام مستحکم اور مضبوط ہوگا انفرادیت اور تشتت اجتماعی نظام کے لئے سم قاتل ہے پھر نقطہ وحدت متعین کرنے میں ہر قرن ہر زمانہ کے لوگوں کی مختلف راہیں رہی ہیں کسی قوم نے نسل اور نسب کو نقطہ وحدت قرار دیا کسی نے وطن اور جغرافیائی خصوصیات کو کسی نے رنگ اور زبان کو،
لیکن دین الہی اور شرائع انبیاء (علیہم السلام) نے ان غیر اختیاری چیزوں کو نقطہ وحدت بنانے کے قابل نہیں سمجھا اور نہ درحقیقت یہ چیزیں ایسی ہیں جو پورے افراد انسانی کو کسی ایک مرکز پر جمع کرسکیں بلکہ جتنا غور کیا جائے یہ وحدتیں درحقیقت افراد انسانی کو بہت سی کثرتوں میں تقسیم کر ڈالنے اور آپس میں ٹکراؤ اور اختلافات کے اسباب ہیں،
دین اسلام نے جو درحقیقت تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ہے وحدت کا اصل نقطہ فکر و خیال اور عقیدہ کی وحدت کو قرار دیا اور کروڑوں خداؤں کی پرستش میں بٹی ہوئی دنیا کو ایک ذات حق وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی جس پر مشرق ومغرب اور ماضی و مستقبل کے تمام افراد انسانی جمع ہوسکتے ہیں پھر اس حقیقی فکری اور نظری وحدت کو عملی صورت اور قوت دینے کے لئے کچھ ظاہری وحدتیں بھی ساتھ لگائی گئیں مگر ان ظاہری وحدتوں میں بھی اصول یہ رکھا گیا کہ وہ عملی اور اختیاری ہوں تاکہ تمام افراد انسانی ان کو اختیار کرکے ایک رشتہ اخوت میں منسلک ہوسکیں نسب، وطن، زبان، رنگ وغیرہ اختیاری چیزیں نہیں ہیں جو شخص ایک خاندان کے اندر پیدا ہوچکا ہے وہ کسی طرح دوسرے خاندان میں پیدا نہیں ہوسکتا جو پاکستان میں پیدا ہوچکا وہ انگلستان یا افریقہ میں پیدا نہیں ہوسکتا جو کالا ہے وہ اپنے اختیار سے گورا اور جو گورا ہے وہ اپنے اختیار سے کالا نہیں ہوسکتا،
اب اگر ان چیزوں کو مزکز وحدت بنایا جائے تو انسانیت کا سیکڑوں بلکہ ہزاروں ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجانا ناگریز ہوگا اس لئے دین اسلام نے ان چیزوں سے جن سے تمدنی مفاد وابستہ ہیں ان کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان کو وحدت انسانی کا مرکز نہیں بننے دیا کہ یہ وحدتیں افراد انسانی کو مختلف کثرتوں میں بانٹنے والی ہیں ہاں اختیاری امور میں اس کی پوری رعایت رکھی کہ فکری وحدت کے ساتھ عملی اور صوری وحدت بھی قائم ہوجائے مگر اس میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا گیا کہ مرکز وحدت ایسی چیزیں بنائی جائیں جن کا اختیار کرنا ہر مرد و عورت لکھے پڑھے اور ان پڑھ شہری اور دیہاتی امیر و غریب کو یکساں طور پر آسان ہو، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلام نے تمام دنیا کے لوگوں کو لباس اور مسکن کھانے اور پینے کے کسی ایک طریقہ کا پابند نہیں کہا کہ ہر جگہ کے موسم اور طبائع مختلف اور ان کے ضروریات مختلفہ ہیں سب کو ایک ہی طرح کے لباس یا شعار (یونیفارم) کا پابند کردیا جائے تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی پھر اگر یہ یونیفارم کم سے کم تجویز کردیا جائے تو یہ اعتدال انسانی پر ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے عمدہ لباس اور عمدہ کپڑوں کی بےحرمتی ہوگی اور اگر اس سے زائد کسی لباس کا پابند کیا جائے تو غریب مفلس لوگوں کو مشکلات پیش آئیں گی،
اس لئے شریعت اسلام نے مسلمانوں کا کوئی ایک شعار (یونیفارم) مقرر نہیں کیا بلکہ مختلف قوموں میں جو طریقے اور اوضاع لباس کی رائج تھیں ان سب پر نظر کرکے ان میں سے جو صورتیں اسراف بیجا یا فخر وغیرہ یا کسی غیر مسلم قوم کی نقالی پر مبنی تھیں صرف ان کو ممنوع قرار دے کر باقی چیزوں میں ہر فرد اور ہر قوم کو آزاد اور خود مختار رکھا مرکز وحدت ایسی چیزوں کو بنایا گیا جو اختیاری بھی ہوں اور آسان اور سستی بھی ان چیزوں میں جیسے جماعت نماز کی صف بندی ایک امام کی نقل و حرکت کی مکمل پابندی حج میں لباس اور مسکن کا اشتراک وغیرہ ہیں،
اسی طرح ایک اہم چیز سمت قبلہ کی وحدت بھی ہے کہ اگرچہ اللہ جل شانہ کی ذات پاک ہر سمت وجہت سے بالاتر ہے اس کے لئے شش جہت یکساں ہیں لیکن نماز میں اجتماعی صورت اور وحدت پیدا کرنے کے لئے تمام دنیا کے انسانوں کا رخ کسی ایک ہی جہت وسمت کی طرف ہونا ایک بہترین اور آسان اور بےقیمت وحدت کا ذریعہ ہے جس پر سارے مشرق ومغرب اور جنوب و شمال کے انسان آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں اب وہ ایک سمت وجہت کونسی ہو جس کی طرف ساری دنیا کا رخ پھیر دیا جائے اس کا فیصلہ اگر انسانوں پر چھوڑا جائے تو یہ ایک سب سے بڑی بناء اختلاف ونزاع بن جاتی ہے اس لئے ضرور تھا کہ اس کا تعین خود حضرت حق جل وعلا شانہ کی طرف سے ہوتا حضرت آدم ؑ کو دنیا میں اتارا گیا تو فرشتوں کے ذریعہ بیت اللہ کعبہ کی بنیاد پہلے ہی رکھ دی گئی تھی حضرت آدم ؑ اور اولاد آدم ؑ کا سب سے پہلا قبلہ یہی بیت اللہ اور خانہ کعبہ بنایا گیا،
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ (96: 3) سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ گھر ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہدایت والا جہان والوں کیلئے نوح ؑ تک سب کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا طوفان نوح ؑ کے وقت پوری دنیا غرق ہو کر تباہ ہوگئی بیت اللہ کی عمارت بھی منہدم ہوگئی اور ان کے بعد حضرت خلیل اللہ ؑ اور اسماعیل ؑ نے دوبارہ بحکم خداوندی بیت اللہ کی تعمیر کی اور یہی ان کا اور ان کی امت کا قبلہ رہا اس کے بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کے لئے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا اور بقول ابو العالیہ انبیاء سابقین جو بیت المقدس میں نماز پڑہتے تھے وہ بھی عمل ایسا کرتے تھے کہ صخرہ بیت المقدس بھی سامنے رہے اور بیت اللہ بھی (ذکرہ القرطبی)
حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتدا آپ کا قبلہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم ؑ کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قرار دیا گیا مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے اور مدینہ طیبہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سے ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے آپ کو اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی مسجد نبوی میں آج تک اس کی علامات موجود ہیں جہاں کھڑے ہو کر آپ نے بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا فرمائی تھیں (قرطبی)
حکم خداوندی کی تعمیل کے لئے تو سید الرسل سر تاپا اطاعت تھے اور حکم خداوندی کے مطابق نمازیں بیت المقدس کی طرف ادا فرما رہے تھے لیکن آپ کی طبعی رغبت اور دلی خواہش یہی تھی کہ آپ کا قبلہ پھر وہی آدم ؑ اور ابراہیم ؑ کا قبلہ قرار دے دیا جائے اور چونکہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں کی مراد اور خواہش ورغبت کو پورا فرماتے ہیں،
تو چناں خواہی خدا خواہد چنیں
می دہد یزداں مراد متقیں
آنحضرت ﷺ کو بھی یہ امید تھی کہ آپ کی تمنا پوری کی جائے گی اور اس لئے انتظار وحی میں آپ بار بار آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے تھے اسی کا بیان قرآن کی اس آیت میں ہے، قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَ آفَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (144: 2) ہم دیکھ رہے ہیں آپ کا بارہا آسمان کی طرف نظر اٹھانا سو ہم آپ کا قبلہ وہی بدل دیں گے جو آپ کو پسند ہے اس لئے آئندہ آپ نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کیا کریں،
اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی تمنا کا اظہار فرما کر اس کو پورا کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے کہ آئندہ آپ مسجد حرام کی طرف رخ کیا کریں،
نماز میں خاص بیت اللہ کا استقبال ضروری نہیں اس کی سمت کا استقبال بھی بیرونی دنیا کے لئے کافی ہے
یہاں ایک فقہی نکتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں کعبہ یا بیت اللہ کے بجائے لفظ مسجد حرام کا استعمال فرمایا گیا ہے جس میں اشارہ ہے کہ بلاد بعیدہ کے رہنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ عین بیت اللہ کی محاذات پائی جائے، بلکہ سمت بیت اللہ کی طرف رخ کرلینا کافی ہے، ہاں جو شخص مسجد حرام میں موجود ہے یا کسی قریبی پہاڑ پر بیت اللہ کو سامنے دیکھ رہا ہے اس کے لئے خاص بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنا ضروری ہے اگر بیت اللہ کی کوئی چیز بھی اس کے چہرے کے محاذات میں نہ آئی تو اس کی نماز نہیں ہوتی بخلاف ان لوگوں کے جن کے سامنے بیت اللہ نہیں کہ ان کے واسطے سمت بیت اللہ یا سمت مسجد حرام کی طرف رخ کرلینا کافی ہے،
بہرحال ہجرت مدینہ سے سولہ سترہ مہینے بعد پھر آپ کا اور مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ کو بنایا گیا اس پر یہود اور بعض مشرکین و منافقین آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ ان کے دین کا بھی کوئی ٹھکانا نہیں ان کا قبلہ بھی روز روز بدلتا رہتا ہے،
قرآن کریم نے ان کا یہ اعتراض آیت مذکورہ میں نقل فرمایا مگر ساتھ ہی عنوان یہ رہا کہ بیوقوف لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں اور ان کی بیوقوفی اس جواب سے واضح ہوگئی جو اس کے بعد ذکر فرمایا گیا ہے ارشاد ہے، قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ یعنی آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی کے ہیں مشرق اور مغرب وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ چلاتا ہے،
اس میں استقبال قبلہ کی حقیقت کو واضح فرما دیا کہ کعبہ اور بیت المقدس کی کوئی خصوصیت بجز اس کے نہیں کہ حکم ربانی نے ان کو کوئی امتیاز دے کر قبلہ بنادیا وہ اگر چاہیں تو ان دونوں کے علاوہ کسی تیسری چوتھی چیز کو بھی قبلہ بنا سکتے ہیں پھر جس کو قبلہ بنادیا گیا اس کی طرف رخ کرنے میں جو کچھ فضیلت اور ثواب ہے اس کی روح حکم حق جل شانہ کی اطاعت کے سوا کچھ نہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم ؑ کی ملت کا بنیادی اصول ہے اور اسی لئے دوسری آیت میں اور زیادہ واضح فرمایا کہ
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ (177: 2) اس میں ذاتی کوئی نیکی اور ثواب نہیں کہ تم مشرق کی طرف رخ کرو یا مغرب کی طرف لیکن نیکی اللہ پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے میں ہے،
اور ایک آیت میں فرمایا،
فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (115: 2) یعنی تم اللہ کے فرمان کے مطابق جس طرف بھی رخ کرو اللہ تعالیٰ کی توجہ اسی طرف پاؤ گے،
ان آیات نے قبلہ اور استقبال قبلہ کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا کہ اس میں ان مقامات کی کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان میں فضیلت پیدا ہونے کا سبب ہی یہ ہے کہ ان کو حق تعالیٰ نے قبلہ بنانے کے لئے اختیار فرما لیا اور اس کی طرف رخ کرنے میں ثواب کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ حکم ربانی کی اطاعت ہے اور شاید آنحضرت ﷺ کے لئے قبلہ میں تغیر وتبدل فرمانے کی یہ بھی حکمت ہو کہ عملی طور سے لوگوں پر یہ واضح ہوجائے کہ قبلہ کوئی بت نہیں جس کی پرستش کی جائے بلکہ اصل چیز حکم خداوندی ہے وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا آگیا تو اس کی تعمیل کی پھر جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اسی کی طرف رخ کرنا عبادت ہوگیا اس کے بعد والی آیت میں خود قرآن کریم نے بھی اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں فرمایا ہے ،
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ (143: 2) یعنی جس قبلہ پر آپ پہلے رہ چکے ہیں اس کو قبلہ بنانا تو محض اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ کون رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرتا ہے اور کون پیچھے ہٹ جاتا ہے،
اس حقیقت قبلہ کے بیان سے ان بیوقوف مخالفین کا بھی پورا جواب ہوگیا جو قبلہ کے بارے میں تغییر وتحویل کو اصول اسلام کے منافی سمجھتے اور مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے آخر میں ارشاد فرمایا يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ اس میں بتلا دیا ہے کہ سیدھی راہ یہی ہے کہ انسان حکم حق جل شانہ کے لئے کمربستہ منتظر رہے جو حکم مل جائے اس پر بےچون وچرا عمل کرے اور یہ سیدھی راہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔
مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل کتاب کو مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا حسد تین چیزوں پر ہے ایک یہ کہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے مخصوص کرنے کا حکم ساری امتوں کو ملا تھا یہود نے سنیچر کا دن مقرر کرلیا اور نصاریٰ نے اتوار کا اور حقیقت میں عنداللہ وہ جمعہ کا روز تھا جو مسلمانوں کے انتخاب میں آیا۔ دوسرے وہ قبلہ جو تحویل کے بعد مسلمانوں کے لئے مقرر کیا گیا اور کسی امت کو اس کی توفیق نہیں ہوئی تیسرے امام کے پیچھے آمین کہنا کہ یہ تینوں خصلتیں صرف مسلمانوں کو میسر ہوئیں اہل کتاب ان سے محروم ہیں۔
Top