Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 69
یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ
يُّضٰعَفْ : دوچند کردیا جائیگا لَهُ : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَيَخْلُدْ : اور وہ ہمیشہ رہے گا فِيْهٖ : اس میں مُهَانًا : خوارہ ہو کر
دونا ہوگا، اس کو عذاب قیامت کے دن اور پڑا رہے گا اس میں خوار ہو کر
آگے اس عذاب کا بیان ہے جو جرائم مذکورہ کے کرنے والوں پر ہوگا اور آیات کے سیاق وسباق سے یہ بات متعین ہے کہ یہ عذاب کفار کے لئے مخصوص ہے جنہوں نے شرک و کفر بھی کیا اور اس کے ساتھ قتل و زنا میں بھی مبتلا ہوئے۔ کیونکہ اول تو يّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ کے الفاظ مسلمان گناہگاروں کے لئے نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے ایک گناہ پر ایک ہی سزا کا وعدہ قرآن و سنت میں منصوص ہے۔ سزا میں تضاعف یعنی کیفیت یا کمیت میں زیادتی مومنین کے لئے نہیں ہوگی۔ یہ کفار کی خصوصیت ہے کہ کفر پر جو عذاب ہونا تھا اگر کفر کے ساتھ اور گناہ بھی کئے تو عذاب دوہرا ہوجاوے گا۔ دوسرے اس عذاب میں یہ بھی مذکور ہے وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا، یعنی ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس عذاب میں ذلیل و خوار ہو کر۔ کوئی مومن ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں نہیں رہے گا، کتنا ہی بڑا گناہگار ہو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکال لیا جاوے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ شرک و کفر میں بھی مبتلا ہوئے اور قتل و زنا میں بھی، ان کا عذاب مضاعف یعنی دوہرا، شدید بھی ہوگا اور پھر یہ عذاب دائمی بھی رہے گا۔ آگے یہ بیان ہے کہ ایسے سخت مجرم جن کا عذاب یہاں مذکور ہوا ہے اگر وہ توبہ کرلیں اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے سیئات کو حسنات سے یعنی برائیوں کو بھلائیوں سے تبدیل کردیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اس توبہ کے بعد ان کے اعمال نامہ میں حسنات ہی حسنات رہ جائیں گی کیونکہ شرک و کفر سے توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ بحالت شرک و کفر جتنے گناہ کئے ہوں اسلام و ایمان قبول کرلینے سے وہ پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اس لئے پچھلے زمانے میں جو ان کا نامہ اعمال سیئات اور معاصی ہی سے لبریز تھا اب ایمان لانے سے وہ تو سب معاف ہوگئے۔ آگے ان معاصی اور سیئات کی جگہ ایمان اور اس کے بعد کے اعمال صالحہ نے لے لی۔ سیئات کو حسنات میں تبدیل کرنے کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس، حسن بصری، سعید بن جبیر، مجاہد وغیرہ ائمہ، تفسیر سے منقول ہے۔ (مظہری)
ابن کثیر نے اس کی ایک دوسری تفسیر یہ بھی نقل کی ہے کہ انہوں نے جتنے گناہ زمانہ کفر و جاہلیت میں کئے تھے، ایمان لانے کے بعد ان سب گناہوں کے بجائے نیکیاں لکھ دی جاویں گی۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد جب کبھی ان لوگوں کو اپنے پچھلے گناہ یاد آویں گے تو ان پر نادم ہوں گے اور توبہ کی تجدید کریں گے ان کے اس عمل سے وہ گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاویں گے، اس کی دلیل میں بعض روایات حدیث بھی پیش فرمائی ہیں۔
Top