Maarif-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 10
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اَنْ : کہ اَرْسِلْ : تو بھیج دے مَعَنَا : ہمارے ساتھ بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل
یہ کہ بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ، بنی اسرائیل ملک شام کے باشندے تھے، وہاں جانا چاہتے تو فرعون ان کو جانے نہ دیتا تھا اس طرح چار سو سال سے وہ اس کی قید میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کی تعداد اس وقت چھ لاکھ تیس ہزار تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کو پیغام حق پہنچانے کے ساتھ ہی بنی اسرائیل پر جو ظلم اس نے کر رکھا تھا اس سے باز آنے اور ان کو آزاد چھوڑ دینے کی ہدایت فرمائی۔ (قرطبی)
پیغمبرانہ مناظرہ کا ایک نمونہ مناظرے کے موثر آداب
دو مختلف الخیال شخصوں اور جماعتوں میں نظریاتی بحث و مباحثہ جس کو اصطلاح میں مناظرہ کہا جاتا ہے، زمانہ قدیم سے رائج ہے مگر عام طور پر مناظرہ ایک ہار جیت کا کھیل ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کی نظر میں مناظرہ کا حاصل اتنا ہی ہے کہ اپنی بات اونچی ہو، چاہے اس کی غلطی خود بھی معلوم ہوچکی ہو، اس کو صحیح اور قوی ثابت کرنے کے لئے دلائل اور ذہانت کا سارا زور خرچ کیا جائے۔ اسی طرح مخالف کی کوئی بات سچی اور صحیح بھی ہو تو بہرحال رد ہی کرنا اور اس کی تردید میں پوری توانائی صرف کرنا ہے۔ اسلام ہی نے اس کام میں خاص اعتدال پیدا کیا ہے اس کے اصول و قواعد اور حدود متعین کر کے اس کو ایک مفید و موثر آلہ تبلیغ و اصلاح بنایا ہے۔
آیات مذکورہ میں اس کا ایک مختصر سا نمونہ ملاحظہ فرمایئے۔ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) نے جب فرعون جیسے جبار خدائی کے مدعی کو اس کے دربار میں دعوت حق پہنچائی تو اس نے مخالفانہ بحث کا آغاز اول دو ایسی باتوں سے کیا جن کا تعلق حضرت موسیٰ ؑ کی ذات سے تھا۔ جیسا ہوشیار مخالف عموماً جب اصل بات کے جواب پر قادر نہیں ہوتا تو مخاطب کی ذاتی کمزوریاں ڈھونڈا اور بیان کیا کرتا ہے تاکہ وہ کچھ شرمندہ ہوجائے اور لوگوں میں اس کی ہوا اکھڑ جائے، یہاں بھی فرعون نے دو باتیں کہیں۔ اول تو یہ کہ تم ہمارے پروردہ ہمارے گھر میں پل کر جوان ہوئے ہو۔ ہم نے تم پر احسانات کئے ہیں۔ تمہاری کیا مجال ہے کہ ہمارے سامنے بولو۔ دوسری بات یہ ہے کہ تم نے ایک قبطی شخص کو بلا وجہ قتل کر ڈالا ہے جو علاوہ ظلم کے حق ناشناسی اور ناشکری بھی ہے کہ جس قوم میں پلے اور جوان ہوئے اسی کے آدمی کو مار ڈالا۔ اس کے بالمقابل حضرت موسیٰ ؑ کا پیغمبرانہ جواب دیکھئے کہ اول تو جواب میں سوال کی ترتیب کو بدلا یعنی قبطی کے قتل کا قصہ جو فرعون نے بعد میں بیان کیا تھا اس کا جواب پہلے آیا اور خانہ پروردہ ہونے کے احسان کا ذکر جو پہلے کیا تھا اس کا جواب بعد میں۔ اس ترتیب بدلنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ واقعہ قبطی میں ایک اپنی کمزوری ضرور واقع ہوئی تھی آج کل کے مناظروں کے طرز پر تو ایسی چیز کے ذکر ہی کو رلا ملا دیا جاتا ہے اور دوسری باتوں کی طرف توجہ پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے رسول نے اسی کے جواب کو اولیت دی۔ اور جواب بھی فی الجملہ اعتراف کمزوری کے ساتھ دیا۔ اس کی قطعاً پروا نہ کی کہ مخالف لوگ کہیں گے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ہار مان لی۔
حضرت موسیٰ ؑ نے اس کے جواب میں اس کا تو اعتراف کرلیا کہ اس قتل میں مجھ سے غلطی اور خطا ہوگئی مگر ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی واضح کردیا کہ یہ غلطی قصداً نہیں تھی ایک صحیح اقدام تھا جو اتفاقاً غلط انجام پر پہنچ گیا کہ مقصد تو قبطی کو اسرائیلی شخص پر ظلم سے روکنا تھا اسی قصد سے اس کو ایک ضرب لگائی تھی اتفاقاً وہ اسی سے مرگیا اس لئے یہ فعل خطا ہونے کے باوجود ہمارے اصل معاملہ یعنی نبوت کے دعوے اور اس کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ مجھے اس غلطی پر تنبہ ہوا اور قانونی گرفت کے خوف سے شہر سے نکل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر کرم فرمایا اور نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا۔
غور کیجئے کہ اس وقت دشمن کے مقابلہ میں موسیٰ ؑ کا سیدھا صاف جواب یہ تھا کہ مقتول قبطی کو واجب القتل ثابت کرتے، اس پر ایسے الزامات لگاتے جس سے اس کا واجب القتل ہونا ثابت ہوتا۔ کوئی دوسرا آدمی تکذیب کرنے والا بھی وہاں موجود نہ تھا جس سے تردید کا اندیشہ ہوتا اور اس جگہ حضرت موسیٰ ؑ کے سوا کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہ ہوتا مگر وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ایک اولوالعزم رسول صدق مجسم تھا جو حق و صدق اور حقیت کے اظہار ہی کو اپنی فتح سمجھتا تھا۔ دشمن کے بھرے دربار میں اپنی خطا کا اعتراف بھی کرلیا اور اس سے جو نبوت و رسالت پر شبہ ہوسکتا تھا اس کا جواب بھی دیدیا۔ اس کے بعد پہلی بات یعنی خانہ پروردہ ہونے کے احسان جتلانے کے جواب کی طرف توجہ فرمائی تو اس کے اس ظاہری احسان کی اصل حقیقت کی طرف توجہ دلا دی کہ ذرا سوچو، میں کہاں اور دربار فرعون کہاں ؟ میری پرورش تمہارے گھر میں ہونے کے سبب پر غور کرو تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ تم جو پوری قوم بنی اسرائیل پر یہ خلاف انسانیت ظلم توڑ رہے تھے کہ ان کے بےگناہ معصوم لڑکوں کو قتل کردیتے تھے، بظاہر تو تمہارے اس ظلم و ستم سے بچنے کے لئے میری والدہ نے مجھے دریا میں ڈالا اور تم نے اتفاقی طور پر میرا تابوت دریا سے نکال کر گھر میں رکھ لیا اور حقیقۃً یہ اللہ تعالیٰ کا حکمیانہ انتظام اور تمہارے ظلم کی غیبی سزا تھی کہ جس بچے کے خطرہ سے بچنے کے لئے تم نے ہزاروں بچے قتل کر ڈالے تھے قدرت نے اس بچے کو تمہارے ہی ہاتھوں پلوایا۔ اب سوچو کہ یہ میری پرورش تمہارا کیا احسان تھا۔ اسی پیغمبرانہ طرز جواب کا یہ اثر تو طبعی اور عقلی طور پر حاضرین پر ہونا ہی تھا کہ یہ بزرگ کوئی بات بنانے والے نہیں، سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے، اس کے بعد جب معجزات دیکھے تو اور زیادہ اس کی تصدیق ہوگئی اور گو اقرار نہیں کیا مگر مرعوب اتنا ہوگیا کہ یہ صرف دو آدمی جن کے آگے پیچھے کوئی تیسرا مددگار نہیں، دربار سارا اس کا، شہر اور ملک اس کا، مگر یہ خوف اس پر طاری ہے کہ یہ دو آدمی ہمیں اپنے اس ملک و مملکت سے نکال دیں گے۔
یہ ہوتا ہے خدا داد رعب اور صدق و حق اور سچائی کی ہیبت حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے مجادلات و مناظرات بھی صدق و سچائی اور مخاطب کی دینی خیر خواہی کے جذبات سے پر ہوتے ہیں۔ وہی دلوں میں گھر کرتے ہیں اور بڑے بڑے سرکشوں کو رام کرلیتے ہیں۔
Top