Maarif-ul-Quran - An-Naml : 30
اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ مِنْ : سے سُلَيْمٰنَ : سلیمان وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ بِسْمِ اللہِ : نام سے اللہ کے الرَّحْمٰنِ : جو رحم کرنے والا الرَّحِيمِ : نہایت مہربان
سلیمان کی طرف سے اور وہ یہ ہے شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے
خط نویس کے چند آداب
اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، قرآن نے انسانی زندگی کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا جس پر ہدایات نہ دی ہوں۔ خط و کتابت اور مراسلت کے ذریعہ باہمی گفت و شنید بھی انسان کی اہم ضروریات میں داخل ہے۔ اس سورت میں حضرت سلیمان ؑ کا مکتوب بنام ملکہ سبا (بلقیس) پورا کا پورا نقل فرمایا گیا۔ یہ ایک پیغمبر و رسول کا خط ہے اور قرآن کریم نے اس کو بطور استحسان کے نقل کیا ہے اس لئے اس خط میں جو ہدایات خط و کتابت کے معاملے میں پائی جاتی ہیں وہ مسلمانوں کے لئے بھی قابل اتباع ہیں۔
کاتب اپنا نام پہلے لکھے پھر مکتوب الیہ کا
سب سے پہلے ایک ہدایت تو اس خط میں یہ ہے کہ خط کو حضرت سلیمان ؑ نے اپنے نام سے شروع کیا، مکتوب الیہ کا نام کس طرح لکھا قرآن کریم کے الفاظ میں وہ مذکور نہیں مگر اتنی بات اس سے معلوم ہوئی کہ خط لکھنے والے کے لئے سنت انبیاء یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنا نام لکھے جس میں بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً خط پڑھنے سے پہلے ہی مکتوب الیہ کے علم میں آجائے کہ میں کس کا خط پڑھ رہا ہوں تاکہ وہ اسی ماحول میں خط کے مضمون کو پڑھے اور غور کرے مخاطب کو یہ تکلیف نہ اٹھانی پڑے کہ کاتب کا نام خط میں تلاش کرے کہ کس کا خط ہے کہاں سے آیا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے جتنے مکاتیب منقول اور شائع شدہ عالم میں موجود ہیں ان سب میں بھی آپ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے کہ (من محمد عبداللہ و رسولہ) سے شروع فرمایا گیا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی اپنے چھوٹے کو خط لکھے اس میں تو اپنے نام کی تقدیم پر کوئی اشکال نہیں، لیکن کوئی چھوٹا اپنے باپ، استاد، شیخ یا اور کسی بڑے کو خط لکھے اس میں اپنے نام کو مقدم کرنا کیا اس کے ادب کے خلاف نہ ہوگا اور اس کو ایسا کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اس معاملے میں حضرات صحابہ کرام کا عمل مختلف رہا ہے اکثر حضرات نے تو اتباع سنت نبوی کو ادب پر مقدم رکھ کر خود آنحضرت ﷺ کو جو خطوط لکھے ان میں سے بھی اپنے نام کو مقدم لکھا ہے۔ روح المعانی میں بحر محیط کے حوالہ سے حضرت انس ؓ کا یہ قول نقل کیا ہے۔
ماکان احد اعظم حرمۃ من رسول اللہ ﷺ وکان اصحابہ اذا کتنبوا الیہ کتابا بداوا بانفسھم قلت و کتاب علاء الحضرمی یشھد لہ علی ماروی۔
رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تو کوئی انسان قابل تعظیم نہیں، مگر صحابہ کرام جب آپ کو بھی خط لکھتے تو اپنا نام ہی شروع میں لکھا کرتے تھے اور حضرت علائی حضرمی کا خط جو رسول اللہ ﷺ کے نام معروف ہے وہ اس پر شاہد ہے۔
البتہ روح المعانی میں مذکورہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ سب کلام افضلیت میں ہے جواز میں نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا نام شروع کے بجائے اخیر میں لکھ دے تو یہ بھی جائز ہے۔ فقیہ ابو اللیث کی بستان میں ہے کہ اگر کوئی شخص مکتوب الیہ کے نام سے شروع کر دے تو اس کے جواز میں کسی کو کلام نہیں کیونکہ امت میں یہ طریقہ بھی چلا آ رہا ہے اس پر نکیر نہیں کی گئی۔ (روح المعانی و قرطبی)
خط کا جواب دینا بھی سنت انبیاء ہے
تفسیر قرطبی میں ہے کہ جس شخص کے پاس کسی کا خط آئے اس کے لئے مناسب ہے کہ اس کا جواب دے کیونکہ غائب کا خط حاضر کے سلام کے قائم مقام ہے اسی لئے حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ وہ خط کے جواب کو جواب سلام کی طرح واجب قرار دیتے تھے۔ (قرطبی)
خطوط میں بسم اللہ لکھنا
حضرت سلیمان ؑ کے مذکورہ خط سے نیز رسول کریم ﷺ کے تمام مکاتیب سے ایک مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ خط کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنا سنت انبیاء ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ بسم اللہ کو اپنے نام سے پہلے لکھے یا بعد میں تو رسول اللہ ﷺ کے مکاتیب اس پر شاہد ہیں کہ بسم اللہ کو سب سے مقدم، اس کے بعد کاتب کا نام، پھر مکتوب الیہ کا نام لکھا جائے اور قرآن کریم میں جو حضرت سلیمان ؑ کا نام پہلے اور بسم اللہ بعد میں مذکور ہے اس کے ظاہر سے جو از اس کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اپنے نام کے بعد لکھی جائے۔ لیکن ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان سے نقل کیا ہے کہ دراصل حضرت سلیمان ؑ نے اپنے خط میں اس طرح لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ من سلیمان بن داؤد الی بلقیس ابنتہ ذی شرح و قومھا۔ ان لا تعلوا الخ بلقیس نے جب یہ خط اپنی قوم کو سنایا تو اس نے قوم کی آگاہی کے لئے سلیمان ؑ کا نام پہلے ذکر کردیا، قرآن کریم میں جو کچھ آیا ہے وہ بلقیس کا قول ہے قرآن کریم میں اس کی تصریح نہیں کہ حضرت سلیمان ؑ کے اصل خط میں بسم اللہ مقدم تھی یا سلیمان ؑ کا نام اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلیمان ؑ کا نام لفافہ کے اوپر لکھا ہو اور اندر بسم اللہ سے شروع ہو، بلقیس نے جب اپنی قوم کو خط سنایا تو حضرت سلیمان ؑ کا نام پہلے ذکر کردیا۔
مسئلہخط نویسی کی اصل سنت تو یہی ہے کہ ہر خط کے شروع میں بسم اللہ لکھی جائے لیکن قرآن و سنت کے نصوص و اشارات سے حضرات فقہاء نے یہ کلیہ قاعدہ لکھا ہے کہ جس جگہ بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھا جائے اگر اس جگہ اس کاغذ کے بےادبی سے محفوظ رکھنے کا کوئی اہمتام نہیں بلکہ وہ پڑھ کر ڈال دیا جاتا ہے تو ایسے خطوط اور ایسی چیز میں بسم اللہ یا اللہ تعالیٰ کا کوئی نام لکھنا جائز نہیں کہ وہ اس طرح اس بےادبی کے گناہ کا شریک ہوجائے گا۔ آج کل جو عموماً ایک دوسرے کو خطوط لکھے جاتے ہیں ان کا حال سب جانتے ہیں کہ نالیوں اور گندگیوں میں پڑے نظر آتے ہیں، اس لئے مناسب یہ ہے کہ ادائے سنت کے لئے زبان سے بسم اللہ کہہ لے تحریر میں نہ لکھے۔
ایسی تحریر جس میں کوئی آیت قرآنی لکھی ہو، کیا کسی کافر مشرک کے ہاتھ میں دینا جائز ہے
یہ خط حضرت سلیمان ؑ نے بلقیس کو اس وقت بھیجا ہے جبکہ وہ مسلمان نہیں تھیں حالانکہ اس خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا جس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جو خطوط ملوک عجم کو لکھے ہیں اور وہ مشرک تھے، ان میں بھی بعض آیات قرآن لکھی ہیں۔ وجہ دراصل یہ ہے کہ قرآن کریم کا کسی کافر کے ہاتھ میں دینا تو جائز نہیں لیکن ایسی کوئی کتاب یا کاغذ جس میں کسی مضمون کے ضمن میں کوئی آیت آگئی ہے وہ عرف میں قرآن نہیں کہلاتا اس لئے اس کا حکم بھی قرآن کا حکم نہیں ہوگا وہ کسی کافر کے ہاتھ میں بھی دے سکتے ہیں اور بےوضو کے ہاتھ میں بھی (عالمگیری کتاب الخطر والاباحتہ)
خط مختصر، جامع، بلیغ اور موثر انداز میں لکھنا چاہئے
حضرت سلیمان ؑ کے اس والا نامہ کو دیکھئے تو چند سطروں میں تمام اہم اور ضروری مضامین بھی جمع کردیئے اور بلاغت کا اعلی معیار بھی قائم ہے۔ کافر کے مقابلے میں اپنی شاہانہ شوکت کا اظہار بھی ہے۔ اس کے ساتھ حق تعالیٰ کی صفات کمال کا بیان اور اسلام کی طرف دعوت بھی، اور ترفع وتکبر کی مذمت بھی۔ درحقیقت یہ خط بھی اعجاز قرآنی کا ایک نمونہ ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ خط نویسی میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سنت بھی وہی ہے کہ تحریر میں طول نہ ہو، مگر ضروری کوئی مضمون چھوٹے بھی نہیں۔ (روح المعانی)
Top