Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 29
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی کہہ دے اپنی عورتوں کو اگر تم چاہتی ہو دنیا کی زندگانی اور یہاں کی رونق تو آؤ کچھ فائدہ پہنچا دوں تم کو اور رخصت کر دوں بھلی طرح سے رخصت کرنا
خلاصہ تفسیر
اے نبی ﷺ آپ اپنی بیبیوں سے فرما دیجئے (تم سے دو ٹوک بات کہی جاتی ہے تاکہ ہمیشہ کے لئے قصہ ایک طرف ہو وہ بات یہ ہے کہ) تم اگر دنیوی زندگی (کی عیش) اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ (یعنی لینے کے لئے متوجہ ہو) میں تم کو کچھ (مال و) متاع (دنیوی) دے دوں (یا تو مراد اس سے وہ جوڑا ہے جو مطلقہ مدخولہ کو بوقت طلاق دینا مستحب ہے یا مراد نان نفقہ عدت کا ہے، یا دونوں کو شامل ہے) اور (متاع دے کر) تم کو خوبی کے ساتھ رخصت کروں (یعنی موافق سنت کے طلاق دے دوں تاکہ جہاں چاہو جا کر دنیا حاصل کرو) اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو اور (مطلب اللہ کو چاہنے کا اس جگہ یہ ہے کہ) اس کے رسول کو (چاہتی ہو، یعنی فقر و افلاس کی موجودہ حالت کے ساتھ رسول کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو) اور عالم آخرت (کے درجات عالیہ) کو (چاہتی ہو جو کہ زوجیت رسول پر مرتب ہونے والے ہیں) تو (یہ تمہاری نیک کرداری ہے اور) تم میں نیک کرداروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے (آخرت میں) اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے (یعنی وہ ثواب جو مخصوص ہی زوجات نبی کے لئے کہ اور نیک بیبیوں کے اجر سے وہ عظیم ہے۔ اور جس سے زوجیت نبی کو اختیار نہ کرنے کی صورت میں محرومی ہوگی، گو عموم دلائل سے مطلق ایمان و اعمال صالحہ کے ثمرات اس صورت میں بھی حاصل ہوں گے۔ یہاں تک تو مضمون تخییر کا ہے جس میں حضور ﷺ کی طرف سے ازواج کو اختیار دیا گیا کہ موجودہ حالت پر قناعت کر کے آپ کی زوجیت میں رہنا پسند کریں، یا پھر آپ سے طلاق حاصل کرلیں، آگے حق تعالیٰ ان کو خود خطاب کر کے وہ احکام فرماتے ہیں جو بصورت اختیار زوجیت واجب الاہتمام ہوں گے۔ ارشاد ہے کہ) اے نبی کی بیبیو ! جو تم میں کھلی ہوئی بےہودگی کرے گی (مراد اس سے وہ معاملہ ہے جس سے رسول اللہ ﷺ تنگ و پریشان ہوں تو) اس کو (اس پر آخرت میں) دوہری سزا دی جائے گی (یعنی دوسرے شخص کو اس عمل پر جتنی سزا ملتی اس سے دوہری سزا ہوگی) اور یہ بات اللہ کو (بالکل) آسان ہے (یہ نہیں کہ دنیوی حکام کی طرح احیاناً سزا بڑھانے سے کسی کی عظمت اس کو مانع ہوجاوے، اور اس سزا کے بڑھنے کی وجہ ابھی تضعیف اجر کی تقریر میں آتی ہے) اور جو کوئی تم میں اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی (یعنی جن امور کو اللہ تعالیٰ نے واجب فرمایا ہے ان کو ادا کرے گی اور خود رسول اللہ ﷺ کے زوج ہونے کے جو حقوق اطاعت وغیرہ واجب ہیں وہ ادا کرے گی کیونکہ حیثیت رسالت کے حقوق اللہ کی اطاعت میں داخل ہوگئے) اور (امور غیر واجبہ میں سے جو) نیک کام (ہیں ان کو) کرے گی تو ہم اس کو اس کا ثواب (بھی) دوہرا دیں گے اور ہم نے اس کے لئے (علاوہ دوہرے اجر موعود کے) ایک (خاص) عمدہ روزی (جو جنت میں ازواج نبی ﷺ کے لئے مخصوص ہے اور جو صلہ عمل سے زائد ہے) تیار کر رکھی ہے (اطاعت کی صورت میں دوہرے اجر اور ترک اطاعت پر دوہرے عذاب کی وجہ شرف زوجیت نبی ہے جس پر ینساء النبی دال ہے۔ کیونکہ اہل خصوصیت کی کوتاہی بھی اوروں کی کوتاہی سے اشد ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی اطاعت بھی اوروں کی اطاعت سے زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ پس وعدہ وعید دونوں ہیں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ اور خصوصاً مقام کلام میں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرات امہات المومنین سے خدمت اور اطاعت کا صدور حضور ﷺ کے قلب کو راحت افزا زیادہ ہوگا پس آپ کی راحت رسانی موجب زیادتی اجر ہوگئی، علیٰ ھذا اس کی ضد میں سمجھنا چاہئے، یہاں تک ازواج سے آپ کے حقوق کے متعلق خطاب تھا آگے عام احکام کے متعلق زیادہ اہتمام کے لئے خطاب ہے کہ) اے نبی کی بیبیو (محض اس بات پر مت بھول جانا کہ ہم نبی کی بیبیاں ہیں اور اس لئے عام عورتوں سے ممتاز ہیں، یہ نسبت اور شرف ہمارے لئے بس ہے، سو یہ وسوسہ مت کرنا یہ بات صحیح ہے کہ) تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو (بیشک ان سے ممتاز ہو مگر مطلقاً نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک شرط بھی ہے وہ یہ کہ) اگر تم تقویٰ اختیار کرو (تب تو واقعی اس نسبت کے سبب تم کو اوروں سے فضیلت حاصل ہے، حتیٰ کہ ثواب مضاعف ملے گا اور اگر یہ شرط مستحق نہیں تو یہی نسبت بالعکس دوہرے عذاب کا سبب بن جائے گی، جب یہ بات ہے کہ نسبت بلا تقویٰ ہیچ ہے) تو (تم کو احکام شرعیہ کی پوری پابندی کرنا چاہئے عموماً اور ان احکام مذکورہ آیت آئندہ کی خصوصاً ، اور وہ احکام یہ ہیں کہ) تم (نامحرم مرد سے) بولنے میں (جب کہ بضرورت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (اس کا مطلب یہ نہیں کہ قصداً نزاکت مت کرو کیونکہ اس کا برا ہونا تو بدیہی ہے دوسری مخاطب یعنی ازواج مطہرات میں اس کا احتمال نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے عورتوں کے کلام کا فطری انداز ہوتا ہے کہ کلام میں نرمی اور نزاکت طبعی ہوتی ہے، اس انداز کو مت برتو) کہ (اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً) خیال (فاسد پیدا) ہونے لگتا ہے، جس کے قلب میں خرابی (اور بدی) ہے (بلکہ ایسے موقع پر تکلف اور اہتمام سے اس فطری انداز کو بدل کر گفتگو کرو) اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کو (یعنی ایسے انداز سے جس میں خشکی اور روکھا پن ہو کہ یہ حافظ عفت ہے، اور یہ بد اخلاقی نہیں ہے۔ بد اخلاقی وہ ہے جس سے کسی کے قلب کو ایذاء پہنچے اور طمع فاسد کے روکنے سے ایذاء لازم نہیں آتی۔ اس میں تو بولنے کے متعلق حکم فرمایا) اور (آگے پردہ کے متعلق ارشاد ہے اور امر مشترک دونوں میں فقط عفت ہے یعنی) تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو (مراد اس سے یہ ہے کہ محض کپڑا اوڑھ لپیٹ کر پردہ کرلینے پر کفایت مت کرو بلکہ پردہ اس طریقہ سے کرو کہ بدن مع لباس نظر نہ آئے، جیسا کہ آج کل شرفاء میں پردہ کا طریقہ متعارف ہے کہ عورتیں گھروں ہی سے نہیں نکلتیں، البتہ مواقع ضرورت دوسری دلیل سے مستثنیٰ ہیں) اور (آگے اسی حکم کی تاکید کے لئے ارشاد ہے کہ) قدیم زمانہ جہالت کے دستور کے موافق مت پھرو (جس میں بےپردگی رائج تھی گو بلافحش ہی کیوں نہ ہو، اور قدیم جاہلیت سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی، اور اس کے مقابلہ میں ایک مابعد کی جاہلیت ہے کہ بعد تعلیم و تبلیغ احکام اسلام کے ان پر عمل نہ کیا جائے۔ پس جو تبرج بعد اسلام ہوگا وہ جاہلیت اخرٰی ہے، اس لئے تشبیہ میں تخصیص جاہلیت اولیٰ ہی ظاہر ہے، کیونکہ مشبہ و مشتبہ بہ کا تغائر ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ جاہلیت اخریٰ جاری کر کے جاہلیت اولیٰ کا اقتداء نہ کرو جس کے مٹانے کو اسلام آیا ہے۔ یہاں تک احکام متعلقہ عفت کے تھے) اور (آگے دوسرے شرائع کا ارشاد ہے کہ) تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة (اگر نصاب کی مالک ہو) دیا کرو (کہ دونوں اعظم شعائر سے ہیں، اس لئے ان کی تخصیص کی گئی) اور (بھی جتنے احکام ہیں اور تم کو معلوم ہیں سب میں) اللہ کا اور اس کے رسول ﷺ کا کہنا مانو (اور ہم نے جو تم کو ان احکام کے اس التزام اور اہتمام کا مکلف فرمایا ہے تو تمہارا ہی نفع ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (ان احکام کے بتانے سے تشریعاً) یہ منظور ہے کہ اے (پیغمبر کے) گھر والو تم سے (معصیت و نافرمانی کی) آلودگی کو دور رکھے، اور تم کو (ظاہراً و باطناً وعملاً وخلقاً بالکل) پاک صاف رکھے (کیونکہ علم بالا حکام کے سبب مخالفت سے جو کہ موجب آلودگی اور مانع تطہیر ہے بچنا ممکن ہے) اور (چونکہ ان احکام پر عمل واجب ہے اور عمل موقوف ہی احکام کے جاننے اور ان کے یاد رکھنے پر اس لئے) تم ان آیات آلہیہ (یعنی قرآن) کو اور اس علم (احکام) کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہے (اور یہ بھی پیش نظر رکھو کہ) بیشک اللہ تعالیٰ راز داں ہے (کہ اعمال قلوب کو بھی جانتا ہے اور) پورا خبردار ہے (کہ پوشیدہ اعمال کو بھی جانتا ہے، اس لئے ظاہراً و باطناً سراً و علانیةً امتثال اور امر اور اجتناب نواہی کا اہتمام واجب ہے)

معارف و مسائل
اس سورة کے مقاصد میں سے اہم مقصد رسول اللہ ﷺ کی ایذاء سے اور ہر ایسی چیز سے بچنے کی تاکید ہے جس سے آپ کو تکلیف پہنچے، نیز آپ کی اطاعت اور رضا جوئی کے موکد احکام ہیں۔ غزوہ احزاب کا تفصیلی واقعہ جو اوپر گزرا ہے اس میں کفار و منافقین کی طرف سے جو رسول اللہ ﷺ کو ایذائیں پہنچیں ان کا ذکر اور اس کے ساتھ انجام کار موذی کفار و منافقین کا ذلیل و خوار ہونا اور رسول اللہ ﷺ کا ہر موقع پر فتح مند اور کامیاب ہونا ذکر کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی مومنین مخلصین جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم و اشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کردیا، ان کی مدح وثناء اور درجات آخرت کا بیان تھا۔
مذکورہ الصدر آیات میں خاص ازواج مطہرات کو تعلیم ہے کہ وہ خصوصاً اس کا اہتمام کریں کہ آپ کو ان کے کسی قول و فعل سے ایذا نہ پہنچے، اور یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت میں لگ جائیں۔ اس سلسلے کے چند احکام ازواج مطہرات کو خطاب کر کے بتلائے گئے ہیں۔
شروع آیات میں جو ازواج مطہرات کو طلاق لینے کا اختیار دینا مذکور ہے، اس کا ایک یا چند واقعات ہیں جو ازواج مطہرات کی طرف سے پیش آئے، جو رسول اللہ ﷺ کے منشاء کے خلاف تھے، جن سے بلا قصد و اختیار رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچی۔
ان واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت جابر کی روایت سے مفصل آیا ہے، اس میں مذکور ہے کہ ازواج مطہرات نے جمع ہو کر رسول اللہ ﷺ سے اس کا مطالبہ کیا کہ ان کا نان نفقہ بڑھایا جائے۔ تفسیر بحر محیط میں ابوحیان نے اس کی تشریح یہ بیان کی ہے کہ غزوہ احزاب کے بعد بنو نضیر پھر بنو قریظہ کی فتوحات اور اموال غنیمت کی تقسیم نے عام مسلمانوں میں ایک گونہ خوشحالی پیدا کردی تھی۔ ازواج مطہرات کو اس وقت یہ خیال ہوا کہ ان اموال غنیمت میں سے آنحضرت ﷺ نے ابھی اپنا حصہ رکھا ہوگا، اس لئے انہوں نے جمع ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ، یہ کسریٰ و قیصر کی بیبیاں طرح طرح کے زیورات اور قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیں، اور ان کی خدمت کے لئے کنیزیں ہیں، اور ہمارا حال فقر وفاقہ کا آپ دیکھتے ہیں، اس لئے اب کچھ توسیع سے کام لیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے یہ مطالبہ سنا کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو بادشاہوں اور دنیا داروں میں ہوتا ہے تو آپ کو اس سے بہت رنج ہوا کہ انہوں نے بیت نبوت کی قدر نہ پہچانی۔ ازواج مطہرات کو خیال نہ تھا کہ اس سے آپ کو ایذا پہنچے گی، عام مسلمانوں میں مالی وسعت دیکھ کر اپنے لئے بھی وسعت کا خیال دل میں آ گیا تھا۔ ابوحیان نے فرمایا کہ اس واقعہ کو غزوہ احزاب کے واقعہ کے بعد بیان کرنے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ازواج کا یہ مطالبہ ہی تخییر طلاق کا سبب بنا۔ بعض روایات حدیث میں حضرت زینب کے گھر میں شہد پینے کا واقعہ جو آگے سورة تحریم میں مفصل آئے گا اس میں ازواج کی باہمی غیرت کے سبب جو صورت پیش آئی وہ تخییر طلاق کی سبب بنی۔ اگر یہ دونوں چیزیں قریبی زمانے میں پیش آئی ہوں تو یہ بعید نہیں کہ دونوں ہی سبب ہوں، لیکن آیت تخییر کے الفاظ سے زیادہ تائید اسی کی ہوتی ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے کوئی مالی مطالبہ اس کا سبب بنا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں فرمایا ہے۔ (آیت) ان کنتن تردن الحیوٰة الدنیا وزینتہا الاٰیة۔
اس آیت نے سب ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی موجودہ حالت یعنی معاشی عسرت و تنگی کے ساتھ آپ کی زوجیت میں رہنا قبول کریں یا پھر آپ سے طلاق کے ساتھ آزاد ہوجائیں۔ پہلی صورت میں ان کو عام عورتوں کی نسبت سے بہت زیادہ اجر عظیم اور آخرت کے خاص درجات عالیہ عطا ہوں گے، اور دوسری صورت یعنی طلاق لینے میں بھی ان کو دنیا کے لوگوں کی طرح کسی تلخی و تکلیف کی نوبت نہیں آئے گی، بلکہ سنت کے مطابق کپڑوں کا جوڑا وغیرہ دے کر عزت کے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔
ترمذی نے ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت تخییر نازل ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے اظہار و اعلان کی ابتداء مجھ سے فرمائی اور آیت سنانے سے پہلے فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، مگر تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا، بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ صدیقہ فرماتی ہیں کہ یہ مجھ پر خاص عنایت تھی کہ مجھے والدین سے مشورہ کے بغیر اظہار رائے سے آپ نے منع فرمایا کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی یہ رائے نہ دیں گے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے مفارقت اختیار کرلوں۔ میں نے جب یہ آیت سنی تو فوراً عرض کیا کہ کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ لینے جاؤ ں ؟ میں تو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں۔ پھر میرے بعد سب ازواج مطہرات کو قرآن کا یہ حکم سنایا گیا سب نے وہی کہا جو میں نے اول کہا تھا (کسی نے بھی دنیا کی فراخی کو رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کے مقابلے میں قبول نہ کیا (قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح)
فائدہ
اختیار طلاق کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ طلاق کا اختیار عورت کے سپرد کردیا جائے، اگر وہ چاہے تو خود اپنے نفس کو طلاق دے کر آزاد ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ طلاق شوہر ہی کے ہاتھ میں رہے کہ اگر عورت چاہے تو وہ طلاق دے دے۔
آیت مذکورہ میں بعض مفسرین نے پہلی صورت کو اور بعض نے دوسری کو اختیار کیا ہے۔ سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کے الفاظ میں دونوں احتمال ہیں، جب تک صریح نص سے ایک کی تعیین نہ ہوجائے اپنی طرف سے کسی صورت کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب زوجین کی طبیعتوں میں مناسبت نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ بیوی کو اختیار دیا جائے کہ شوہر کی موجودہ حالت پر قناعت کر کے ساتھ رہنا چاہے تو رہے ورنہ سنت کے مطابق طلاق دے کر کپڑے کے جوڑے دے کر عزت کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔
آیت مذکورہ سے اس معاملہ کا استحباب ہی ثابت کیا جاسکتا ہے وجوب پر کوئی دلیل نہیں۔ بعض ائمہ فقہاء نے اس آیت سے وجوب پر استدلال کیا ہے، اور اسی بناء پر ایسے مفلس آدمی کی بیوی کو عدالت کی طرف سے طلاق دینے کا حق دیا ہے جو بیوی کو نفقہ دینے پر قادر نہیں۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل احکام القرآن حزب خامس میں اسی آیت کے تحت میں بزبان عربی مذکور ہے۔
Top