Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠   ۧ
وَاذْكُرْنَ : اور تم یاد رکھو مَا يُتْلٰى : جو پڑھا جاتا ہے فِيْ : میں بُيُوْتِكُنَّ : تمہارے گھر (جمع) مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں وَالْحِكْمَةِ ۭ : اور حکمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے لَطِيْفًا : باریک بین خَبِيْرًا : باخبر
اور یاد کرو جو پڑھی جاتی ہیں تمہارے گھروں میں اللہ کی باتیں اور عقلمندی کی مقرر اللہ ہے بھید جاننے والا خبردار۔
آیت میں اہل بیت سے کیا مراد ہے ؟
اوپر کی آیات میں نساء النبی ﷺ کو خطاب تھا، اس لئے بصیغہ تانیث خطاب کیا گیا۔ یہاں اہل البیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ان کی اولاد وآباء بھی داخل ہیں، اس لئے بصیغہ مذکر فرمایا عنکم، ویطہرکم اور بعض آئمہ تفسیر نے اہل بیت سے مراد صرف ازواج مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی، (آیت) واذاکرن مایتلی فی بیوتکن (رواہ ابن ابی حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساء النبی کے الفاظ سے خطاب بھی اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں، کیونکہ یہ آیت انہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔
لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابن کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاید ہیں کہ اہل بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن و حسین بھی شامل ہیں۔ جیسے صحیح مسلم کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آگئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آگئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ آگئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً ، اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا اللہم ھولاء اھل بیتی (رواہ ابن جریر)
ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیث معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہل بیت میں شامل ہوں۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ لفظ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، کیونکہ شان نزول اس آیت کا وہی ہیں، اور شان نزول کا مصداق آیت میں داخل ہونا کسی شبہ کا متحمل نہیں۔ اور حضرت فاطمہ و علی و حسن و حسین ؓ بھی ارشاد نبوی ؑ کے مطابق اہل بیت میں شامل ہیں۔ اور اس آیت سے پہلے اور بعد میں دونوں جگہ نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے لئے صیغے مونث کے استعمال فرمائے گئے ہیں۔ سابقہ آیات میں (آیت) فلا تخصضعن بالقول سے آخر تک سب صیغے مونث کے استعمال ہوئے ہیں اور آگے پھر واذکرن مایتلیٰ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے۔ اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغہ مذکر عنکم اور یطہرکم فرمانا بھی اس پر شاہد قوی ہے کہ اس میں صرف ازواج ہی داخل نہیں کچھ رجال بھی ہیں۔
آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے کہ (آیت) لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطہیراً ، ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان ہدایات کے ذریعہ اغواء شیطانی اور معاصی اور قبائح سے حق تعالیٰ اہل بیت کو محفوظ رکھے گا، اور پاک کر دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ تطہیر تشریعی مراد ہے، تکوینی تطہیر جو خاصہ انبیاء ہے وہ مراد نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ سب معصوم ہوں اور ان سے انبیاء (علیہم السلام) کی طرح کوئی گناہ سرزد ہونا ممکن نہ ہو، جو تکوینی تطہیر کا خاصہ ہے۔ اہل تشیع نے اس آیت میں جمہور امت سے اختلاف کر کے اول تو لفظ اہل بیت کا صرف اولاد و عصبات رسول کے ساتھ مخصوص ہونے اور ازواج مطہرات کے ان سے خارج ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسری آیت مذکورہ میں تطہیر سے مرادان کی عصمت قرار دے کر اہل بیت کو انبیاء کی طرح معصوم کیا۔ اس کا جواب اور مسئلہ کی مفصل بحث احقر نے احکام القرآن سورة احزاب میں لکھی ہے، اس میں عصمت کی تعریف اور اس کا انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ مخصوص ہونا اور ان کے علاوہ کسی کا معصوم نہ ہونا دلائل شرعیہ سے واضح کردیا ہے، اہل علم اس کو دیکھ سکتے ہیں، عوام کو اس کی ضرورت نہیں۔
(آیت) واذ کرن مایتلیٰ فی بیوتکن من آیت اللہ والحکمة، آیات اللہ سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور سنت رسول ہے، جیسا کہ عامہ مفسرین نے حکمت کی تفسیر اس جگہ سنت کی ہے۔ اور لفظ اذکرن کے دو مفہوم ہو سکتے ہیںایک یہ کہ ان چیزوں کو خود یاد رکھنا جس کا نتیجہ ان پر عمل کرنا ہے، دوسرے یہ کہ جو کچھ قرآن ان کے گھروں میں ان کے سامنے نازل ہوا یا جو تعلیمات رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیں اس کا ذکر امت کے دوسرے لوگوں سے کریں اور ان کو پہنچائیں۔
فائدہ
ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ سے کوئی آیت قرآن یا حدیث سنے اس پر لازم ہے کہ وہ امت کو پہنچائے، یہاں تک کہ ازواج مطہرات پر بھی لازم کیا گیا کہ جو آیات قرآن ان کے گھروں میں نازل ہوں یا جو تعلیمات رسول اللہ ﷺ سے ان کو حاصل ہوں اس کا ذکر امت کے دوسرے افراد سے کریں اور یہ اللہ کی امانت ان کو پہنچائیں۔
قرآن کی طرح حدیث کی حفاظت
اس آیت میں جس طرح آیات قرآن کی تبلیغ وتعلیم امت پر لازم کی گئی ہے اسی طرح لفظ حکمت فرما کر احادیث رسول ﷺ کی تبلیغ وتعلیم کو بھی لازم کیا گیا ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حکم کی تعمیل ہر حال میں کی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت معاذ کا یہ واقعہ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی، لیکن اس کو عام لوگوں کے سامنے اس لئے بیان نہیں کیا کہ خطرہ تھا کہ لوگ اس کو اس کے درجہ میں نہ رکھیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں، لیکن جب ان کی وفات کا وقت آیا تو لوگوں کو جمع کر کے وہ حدیث سنا دی اور فرمایا کہ میں نے اس وقت تک دینی مصلحت سے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا، مگر اب موت کا وقت قریب ہے اس لئے امت کی یہ امانت ان کو پہچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ صحیح بخاری میں ان کے الفاظ یہ ہیں فاخبربہ معاذ عند مرتہ تائماً ”یعنی حضرت معاذ نے یہ حدیث لوگوں کو وفات کے وقت اس لئے سنا دی کہ وہ گناہگار نہ ہوں کہ حدیث رسول امت کو نہیں پہنچائی“
یہ واقعہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ اس حکم قرآنی کی تعمیل سب صحابہ کرام واجب و ضروری سمجھتے تھے اور صحابہ کرام نے حدیث کو احتیاط کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا تھا تو حدیث کی حفاظت بھی ایک درجہ میں قرآن کی حفاظت کے قریب قریب ہوگئی، اس معاملہ میں شبہات کا نکالنا درحقیقت قرآن میں شبہات کا نکالنا ہے۔ واللہ اعلم
Top