Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں ہے
لِمُؤْمِنٍ
: کسی مومن مرد کے لیے
وَّلَا مُؤْمِنَةٍ
: اور نہ کسی مومن عورت کے لیے
اِذَا
: جب
قَضَى
: فیصلہ کردیں
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗٓ
: اور اس کا رسول
اَمْرًا
: کسی کام کا
اَنْ يَّكُوْنَ
: کہ (باقی) ہو
لَهُمُ
: ان کے لیے
الْخِيَرَةُ
: کوئی اختیار
مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ
: ان کے کام میں
وَمَنْ
: اور جو
يَّعْصِ
: نافرمانی کرے گا
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
فَقَدْ ضَلَّ
: تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا
ضَلٰلًا
: گمراہی
مُّبِيْنًا
: صریح
اور کام نہیں کسی ایمان دار مرد کا اور نہ ایماندار عورت کا جبکہ مقرر کر دے اللہ اور اس کا رسول کوئی کام کہ ان کو رہے اختیار اپنے کام کا اور جس نے نافرمانی کی اللہ کی اور اس کے رسول کی سو وہ راہ بھولا صریح چوک کر
خلاصہ تفسیر
اور کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا (گو وہ دنیا ہی کی بات کیوں نہ ہو وجوباً) حکم دے دیں کہ (پھر) ان (مومنین) کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار (باقی) رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں بلکہ عمل ہی کرنا واجب ہوجاتا ہے) اور جو شخص (بعد حکم وجوبی کے) اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا اور (اس وقت کو یاد کیجئے) جب آپ (فہمائش و مشورہ کے طور سے) اس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا (کہ اسلام کی توفیق دی جو انعام دینی ہے اور غلامی سے چھڑایا کہ نعمت دنیویہ ہے) اور آپ نے بھی انعام کیا (تعلیم دین فرمائی اور آزاد کیا، اور پھوپھی زاد بہن سے نکاح کرایا مراد حضرت زید ہیں کہ آپ ان کو سمجھا رہے تھے) کہ اپنی بی بی (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دے (اور اس کی معمولی خطاؤں پر نظر نہ کر کہ گاہے اس سے ناموافقت ہوجاتی ہے) اور خدا سے ڈر (اور اس کے حقوق میں بھی کوتاہی نہ کر کہ کبھی اس سے ناموافقت پیدا ہوجاتی ہے) اور (جب شکایتیں حد سے متجاوز ہوگئیں اور قرائن سے اصلاح و توافق کی امید نہ رہی تو اس وقت فہمائش کے ساتھ) آپ اپنے دل میں وہ بات (بھی) چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ (آخر) میں ظاہر کرنیوالا تھا (مراد اس سے آپ کا نکاح ہے حضرت زینب سے جبکہ زید ان کو طلاق دے دیں جس کو حق تعالیٰ نے زوجنکہا میں قولاً اور خود نکاح کردینے سے فعلاً ظاہر فرمایا) اور (اس مشروط اور معلق ارادہ کے ساتھ ہی) آپ لوگوں (کے طعن) سے (بھی) اندیشہ کرتے تھے (کیونکہ اس وقت اس نکاح میں کسی اہم مصلحت دینیہ کا ہونا ذہن مبارک میں نہ آیا ہوگا، محض دنیوی مصلحت خاص حضرت زینب کی خیال میں ہوگی اور امور دنیویہ میں ایسا اندیشہ ہونا مضائقہ نہیں، بلکہ بعض حیثیتوں سے مطلوب ہے، جبکہ اعتراض سے دوسروں کی دین کی خرابی کا احتمال ہو اور ان کو اس سے بچانا مقصود ہو) اور ڈرنا تو آپ کو خدا ہی سے زیادہ سزاوار ہے (یعنی چونکہ واقع میں اس میں دینی مصلحت ہے، جیسا کہ آگے لکی لایکون الخ میں مذکور ہے، اس لئے خلق سے اندیشہ نہ کیجئے، چناچہ بعد اطلاع مصلحت دینیہ کے پھر اندیشہ آپ نے نہیں کیا اور ارادہ نکاح میں تو کیا اندیشہ ہوتا خود نکاح کے بعد بھی اندیشہ نہیں کیا۔ جس کا قصہ آگے ہے کہ) پھر جب زید کا اس (زینب) سے جی بھر گیا، (یعنی طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی تو) ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیبیوں کے (نکاح کے) بارے میں کچھ تنگی نہ رہے جب وہ (منہ بولے بیٹے) ان سے اپنا جی بھر چکیں (یعنی طلاق دے دیں، مطلب یہ کہ اس تشریح کا اظہار مقصود تھا) اور خدا کا یہ حکم تو ہونے والا تھا ہی (کیونکہ حکمت اس کو مقتضی تھی، آگے طعن کا جواب ہے کہ) ان پیغمبر کے لئے خدا تعالیٰ نے جو بات (تکویناً یا تشریعاً) مقرر کردی تھی اس میں نبی پر کوئی الزام (اور طعن کی بات) نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان (پیغمبروں) کے حق میں (بھی) یہی معمول کر رکھا ہے جو پہلے ہو گزرے ہیں (کہ ان کو جس امر کی اجازت ہوتی ہے بےتکلف وہ اس کو کرتے رہے ہیں اور محل طعن نہیں بنے، ایسے ہی یہ نبی بھی محل اعتراض نہیں) اور (ان پیغمبروں کے بھی اس قسم کے جتنے کام ہوتے ہیں ان سب کے بارے میں بھی) اللہ کا حکم تجویز کیا ہوا (پہلے سے) ہوتا ہے (اور اسی کے موافق پھر ان کو حکم ہوتا ہے اور وہ عمل کرتے ہیں۔ شاید آپ کے قصہ میں اس مضمون کو لانا اور پھر انبیاء کے تذکرہ میں اس کو مکرر لانا اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے امور مثل تمام امور تکوینیہ کے ایسے متضمن حکمت ہوتے ہیں کہ پہلے ہی سے علم الہٰی میں تجویز ہو چکتے ہیں، پھر نبی پر طعن کرنا اللہ پر طعن کرنا ہے۔ بخلاف ان امور کے جن پر خود حق تعالیٰ ملامت فرما دیں گو وہ مقدر ہونے کی وجہ سے متضمن حکمت ہوں مگر محل ملامت ہونا دلیل ہے، اس کے تضمن مفاسد کی۔ اس لئے ان مفاسد کے اعتبار سے ان پر نکیر جائز ہے۔ آگے ایک مدح خاص ہے ان پیغمبروں کی تاکہ آپ کو تسلی ہو یعنی) یہ سب (پیغمبران گزشتہ) ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے (اگر تبلیغ قولی کے مامور ہوئے تو قولاً اور اگر تبلیغ فعلی کے مامور ہوئے تو فعلاً) اور (اس باب میں) اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے (پس آپ کو بھی جب تک معلوم نہ تھا کہ یہ نکاح تبلیغ فعلی ہے اندیشہ ہونا مضائقہ نہیں، لیکن آپ کو جب یہ بات معلوم ہوگئی تو آپ بھی اندیشہ نہ کیجئے جیسا کہ مقتضا ہے شان رسالت کا۔ چناچہ اس کے انکشاف کے بعد پھر آپ نے اندیشہ نہیں کیا اور باوجودیکہ خود آپ کو تبلیغ رسالت میں کسی سے خوف نہیں ہوا، نہ اس کا احتمال تھا پھر بھی انبیاء ؑ کا قصہ سنانا زیادہ تقویت قلب کے لئے ہے) اور (آپ کی زیادہ تسلی کے لئے فرماتے ہیں کہ) اللہ (اعمال کا) حساب لینے کے لئے کافی ہے (پھر کسی سے کا ہے کا ڈر ہے نیز آپ پر طعن کرنے والوں کو بھی سزا دے گا آپ طعن سے مغموم نہ ہوجئے)
معارف و مسائل
یہ بات پہلے کئی مرتبہ معلوم ہوچکی ہے کہ سورة احزاب میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و محبت اور مکمل اطاعت سے یا آپ کو کسی قسم کی ایذاء و تکلیف پہنچانے کی ممانعت سے ہے۔ آیات مذکورہ الصدر بھی اسی سلسلے کے چند واقعات سے متعلق نازل ہوئی ہیں۔
ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت زید بن حارثہ کسی شخص کے غلام تھے۔ زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو بازار عکاظ سے خرید لیا تھا، ابھی عمر بھی کم تھی۔ آپ نے خریدنے کے بعد ان کو آزاد کر کے یہ شرف بخشا کہ عرب کے عام رواج کے مطابق ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور ان کی پرورش فرمائی۔ مکہ مکرمہ میں ان کو زید بن محمد ﷺ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اس کو جاہلیت کی رسم غلط قرار دے کر اس کی ممانعت کردی کہ منہ بولے بیٹے کو اس شخص کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے، اور حکم دیا کہ اس کو اس کے اصلی باپ کی طرف منسوب کیا جائے۔ اسی سلسلے میں وہ آیات نازل ہوئیں جو اسی سورة میں پہلے آ چکی ہیں (آیت) ادعوہم لاباہم الآیہ ان احکام کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے ان کو زید بن محمد ﷺ کہنا چھوڑ دیا اور ان کے والد حارثہ کی طرف منسوخ کرنے لگی۔
ایک لطیفہ
پورے قرآن میں انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی بڑے سے بڑے صحابی کا بھی نام ذکر نہیں کیا گیا بجز حضرت زید بن حارثہ کے۔ اس کی حکمت بعض حضرات نے یہی بیان کی ہے کہ ان کی نسبت ولدیت کو بحکم قرآنی رسول اللہ ﷺ سے قطع کیا گیا تو ان کے لئے ایک بہت بڑے اعزاز سے محرومی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے اس کا بدل اس طرح کردیا کہ قرآن میں ان کا نام لے کر ذکر فرما دیا۔ اور لفظ زید قرآن کا ایک لفظ ہونے کی حیثیت سے اس کے ہر لفظ پر حسب وعدہ حدیث دس نیکیاں نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ان کا نام جب قرآن میں پڑھا جائے تو صرف ان کا نام لینے پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ بھی ان کا اکرام فرماتے تھے۔ حضرت صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے جب کبھی کسی لشکر میں ان کو بھیجا ہے تو امیر لشکر انہی کو بنایا ہے۔ (ابن کثیر)
تنبیہ
یہ تھی اسلام میں غلامی کی حقیقت کہ ان کو تعلیم و تربیت دے کر جو صاحب صلاحیت ثابت ہوا اس کو مقتداؤں کا درجہ دیا۔
زید بن حارثہ جوان ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب بنت جحش کا انتخاب فرما کر پیغام نکاح دیا۔ حضرت زید پر چونکہ یہ عرفی عیب لگا ہوا تھا کہ آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت زینب اور ان کے بھائی عبداللہ بن جحش نے اس رشتہ سے انکار کردیا کہ ہم با اعتبار خاندان و نسب کے ان سے اشرف ہیں۔
اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ماکان لمومن ولامومنة الایة، جس میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی کو کسی کام کا حکم بطور وجوب دے دیں تو اس پر وہ کام کرنا واجب ہوجاتا ہے، اس کو نہ کرنے کا اختیار شرعاً نہیں رہتا اگرچہ فی نفسہ وہ کام شرعاً واجب و ضروری نہ ہو، مگر جس کو آپ نے حکم دے دیا اس کے ذمہ لازم و واجب ہوجاتا ہے اور جو ایسا نہ کرے آخر آیت میں اس کو کھلی گمراہی فرمایا ہے۔
اس آیت کو حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی نے سنا تو اپنے انکار سے باز آگئے، اور نکاح پر راضی ہوگئے۔ چناچہ یہ نکاح کردیا گیا۔ ان کا مہر رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے ادا کیا۔ جو دس دینار سرخ (جو پونے چار تولہ سونا ہوتا ہے) اور ساٹھ درہم (جس کی پونے سولہ تولہ چاندی ہوتی ہے) اور ایک بار برداری کا جانور اور پورا زنانہ جوڑا اور پچاس مد آٹا (یعنی تقریباً پینتالیس سیر) اور دس مد (ساڑھے آٹھ سیر تیس ماشہ) کھجور تھا (ابن کثیر) اس آیت کے نزول کا مشہور واقعہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہی حضرت زید اور حضرت زینب بنت جحش کے نکاح کا قصہ ہے (ابن کثیر، قرطبی، مظہری)
ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے اس طرح کے دو واقعے اور بھی نقل کئے ہیں۔ ان میں بھی یہ مذکور ہے کہ آیت مذکورہ ان واقعات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت جلیبیب کا ہے کہ ان کا رشتہ ایک انصاری صحابی کی لڑکی سے کرنا چاہا تو اس انصاری اور ان کے گھر والوں نے اس رشتہ اور نکاح سے انکار کردیا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب راضی ہوگئے اور نکاح کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے وسعت رزق کی دعا فرمائی۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ اللہ نے ان کے گھر میں ایسی برکت دی تھی کہ مدینہ طیبہ کے گھروں میں سب سے زیادہ اجلا اور بڑا خرچ اس گھر کا تھا، بعد میں حضرت جلیبیب ایک جہاد میں شہید ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تجہیز وتکفین اپنے دست مبارک سے فرمائی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ روایات حدیث میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کا منقول ہے (ابن کثیر، قرطبی) اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے متعدد واقعات ہی نزول آیت کا سبب بنے ہوں۔
نکاح میں نسبی کفو کی رعایت کا حکم اور درجہ
نکاح مذکور میں حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی عبداللہ نے جو زید بن حارثہ سے نکاح کو ابتدا میں نامنظور کیا تھا، اس کی وجہ ان دونوں میں خاندانی اور نسبی کفاءت و مماثلت کا نہ ہونا تھا۔ اور یہ وجہ شرعاً خود مطلوب ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے کفوء میں کرنا چاہئے (جس کی تحقیق آگے آئے گی) اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں حضرت زینب اور ان کے بھائی کا عذر کیوں مقبول نہ ہوا۔
جواب یہ ہے کہ دینی اعتبار سے کفاءت و مماثلت زوجین کی تو لازم وضروری ہے، کسی مسلمان لڑکی کا نکاح کسی کافر سے باجماع امت حلال نہیں، اگرچہ لڑکی اس پر راضی ہو۔ کیونکہ یہ صرف عورت کا حق نہیں جو اس کی رضامندی سے ساقط ہوجائے بلکہ حق اللہ اور فریضہ آلہیہ ہے بخلاف نسبی اور مالی کفاءت کے وہ لڑکی کا حق ہے، اور خاندانی کفایت کے حق میں لڑکی کے ساتھ اس کے اولیاء بھی شریک ہیں۔ اگر عاقلہ بالغہ لڑکی مالدار خاندان سے ہونے کے باوجود کسی غریب فقیر سے نکاح پر راضی ہو کر اپنا حق ساقط کر دے تو اس کو اختیار ہے اور خاندانی کفایت میں لڑکی اور اس کے اولیاء سب اس حق کو کسی دوسری اہم مصلحت کی خاطر چھوڑ کر کسی ایسے شخص سے نکاح پر راضی ہوجائیں جو نسب اور خاندان کے اعتبار سے ان سے کم درجہ ہے تو ان کو اس کا حق ہے۔ بلکہ مصالح دینیہ کے پیش نظر اس حق کو چھوڑ دینا محمود و مطلوب ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع میں اس حق کو نظرانداز کرنے اور مصالح دینیہ کی وجہ سے نکاح کردینے کا مشورہ دیا۔
اور قرآن کریم کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حق اپنی امت کے مرد و زن پر سب سے زیادہ ہے، بلکہ اپنے نفس سے بھی زیادہ ہے جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم، ”یعنی نبی کریم ﷺ کا حق مومنین پر ان کے اپنے نفوس سے بھی زیادہ ہے“ اس لئے حضرت زینب اور عبداللہ کے معاملہ میں جب رسول اللہ ﷺ نے نسبی کفایت کے حق کو نظر انداز کر کے زید بن حارثہ سے نکاح منظور کرلینے کا حکم دے دیا تو یہ ان کا فرض تھا کہ اس حکم کے سامنے اپنی رائے اور اپنے نفس کے حقوق کو ترک کردیتے، اس لئے ان کے انکار پر قرآن کریم کا یہ حکم نازل ہوا۔
رہا یہ معاملہ کہ جب نسبی کفایت خود رسول اللہ ﷺ کے نزدیک قابل رعایت ہے تو خود آپ نے اس کی رعایت کیوں نہ فرمائی ؟ تو اس کا جواب بھی مذکورہ تقریر سے واضح ہوگیا کہ یہ رعایت دوسری دینی مصالح کے بالمقابل قابل ترک ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں متعدد نکاح اسی طرح غیر کفوء میں اسی قسم کی دینی مصالح کی بناء پر کئے گئے، اس سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
مسئلہ کفاءت
نکاح ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اگر زوجین کی طبائع میں موافقت نہ ہو تو مقاصد نکاح میں خلل آتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں خلل آتا ہے، باہمی جھگڑے نزاع پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے شریعت میں کفاءت یعنی باہمی مماثلت کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اعلیٰ خاندان کا آدمی اپنے سے کم خاندان والے آدمی کو رذیل یا ذلیل سمجھے۔ ذلت وعزت کا اصل مدار اسلام میں تقویٰ اور دینداری ہے جس میں یہ چیز نہیں اس کو خاندانی شرافت کتنی بھی حاصل ہو اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں، صرف انتظامی معاملات کو استوار رکھنے کے لئے نکاح میں کفاءت کی رعایت کا حکم دیا گیا ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے اولیاء ہی کے ذریعہ ہونا چاہئے (یعنی بالغ لڑکی کو بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کرے، حیا کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کام اس کے والدین اور اولیاء کریں) اور فرمایا کہ لڑکیوں کا نکاح ان کے کفوء ہی میں کرنا چاہئے۔ اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے، مگر صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے اس کی تائید ہو کر حدیث قابل استدلال ہوجاتی ہے۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں حضرت فاروق اعظم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”میں یہ حکم جاری کروں گا کہ کسی بڑے اونچے معروف خاندان کی لڑکی کا نکاح دوسرے کم درجہ والے سے نہ کیا جائے“ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت انس نے بھی اس کی تاکید فرمائی کہ نکاح میں کفاءت کی رعایت کی جائے، جو متعدد اسانید سے منقول ہے۔ امام ابن ہمام نے بھی فتح القدیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ نکاح میں کفاءت و مماثلت کی رعایت کرنا دین میں مطلوب ہے تاکہ زوجین میں موافقت رہے، لیکن کوئی دوسری اہم مصلحت اس کفاءت سے بڑھ کر سامنے آجائے تو عورت اور اس کے اولیاء کو اپنا یہ حق چھوڑ کر غیر کفوء میں نکاح کرلینا بھی جائز ہے۔ خصوصاً جب کہ کوئی دینی مصلحت پیش نظر ہو تو ایسا کرنا افضل و بہتر ہے جیسا کہ صحابہ کرام کے متعدد واقعات سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان واقعات سے اصل مسئلہ کفاءت کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔
Top