Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ : اور (یاد کرو) جب تَقُوْلُ : آپ فرماتے تھے لِلَّذِيْٓ : اس شخص کو اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا عَلَيْهِ : اس پر وَاَنْعَمْتَ : اور آپ نے انعام کیا عَلَيْهِ : اس پر اَمْسِكْ : روکے رکھ عَلَيْكَ : اپنے پاس زَوْجَكَ : اپنی بیوی وَاتَّقِ اللّٰهَ : اور ڈر اللہ سے وَتُخْفِيْ : اور آپ چھپاتے تھے فِيْ نَفْسِكَ : اپنے دل میں مَا اللّٰهُ : جو اللہ مُبْدِيْهِ : اس کو ظاہر کرنے والا وَتَخْشَى : اور آپ ڈرتے تھے النَّاسَ ۚ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ : کہ تَخْشٰىهُ ۭ : تم اس سے ڈرو فَلَمَّا : پھر جب قَضٰى : پوری کرلی زَيْدٌ : زید مِّنْهَا : اس سے وَطَرًا : اپنی حاجت زَوَّجْنٰكَهَا : ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا لِكَيْ : تاکہ لَا يَكُوْنَ : نہ رہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں حَرَجٌ : کوئی تنگی فِيْٓ اَزْوَاجِ : بیویوں میں اَدْعِيَآئِهِمْ : اپنے لے پالک اِذَا : جب وہ قَضَوْا : پوری کرچکیں مِنْهُنَّ : ان سے وَطَرًا ۭ : اپنی حاجت وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم مَفْعُوْلًا : ہوکر رہنے والا
اور جب تو کہنے لگا اس شخص کو جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو کو اور ڈر اللہ سے اور تو چھپاتا تھا اپنے دل میں ایک چیز جس کو اللہ کھولنا چاہتا ہے اور ڈرتا تھا لوگوں سے اور اللہ سے زیادہ چاہئے ڈرنا تجھ کو پھر جب زید تمام کرچکا اس عورت سے اپنی غرض ہم نے اس کو تیرے نکاح میں دیدیا تاکہ نہ رہے مسلمانوں پر گناہ نکاح کرلینا جورویں اپنے لے پا لکوں کی جب وہ تمام کرلیں ان سے اپنی غرض اور ہے اللہ کا حکم بجالا نا
دوسرا واقعہ
حضرت زینب بنت جحش کا نکاح بامر نبی کریم ﷺ حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ ہوگیا، مگر دونوں کی طبیعتوں میں موافقت نہ ہوئی۔ حضرت زید ان کی تیز زبانی اور نسبی شرافت کی بنا پر اپنے کو اونچا سمجھنے اور اطاعت میں کوتاہی کرنے کی شکایت کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ بتلا دیا گیا تھا کہ زید ان کو طلاق دیں گے، اس کے بعد زینب آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ ایک روز حضرت زید نے انہی شکایات کو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کر کے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ ان کو طلاق دے دیں۔ رسول اللہ ﷺ کو اگرچہ منجانب اللہ یہ علم ہوگیا تھا کہ واقعہ یوں ہی پیش آنے والا ہے، کہ زید ان کو طلاق دے دیں گے، پھر یہ نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں گی، لیکن دو وجہ سے آپ نے حضرت زید کو طلاق دینے سے روکا۔ اول یہ کہ طلاق دینا اگرچہ شریعت اسلام میں جائز ہے مگر پسندیدہ نہیں بلکہ بعض المباحات یعنی جائز چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض و مکروہ ہے، اور تکوینی طور پر کسی کام کا وقوع تشریعی حکم کو متاثر نہیں کرتا۔ دوسرے قلب مبارک میں یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے طلاق دے دی اور پھر زینب کا نکاح آپ سے ہوا تو عرب اپنے دستور جاہلیت کے مطابق یہ طعنے دیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اگرچہ قرآن نے اس دستور جاہلیت کو سورة احزاب کی ہی سابقہ آیات میں ختم کردیا ہے۔ اس کے بعد کسی مومن کے لئے تو اس کے وسوسہ کا بھی خطرہ نہ تھا مگر کفار جو قرآن ہی کو نہیں مانتے وہ اپنی جاہلانہ رسم یعنی منہ بولے بیٹے کو تمام احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے پر زبان طعن دراز کریں گے۔ یہ اندیشہ بھی حضرت زید کو طلاق دینے سے منع کرنے کا سبب بنا۔ اس پر حق تعالیٰ کی طرف سے محبوبانہ عتاب قرآن کی ان آیات میں نازل ہوا(آیت) واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ، یعنی آپ اس وقت کو یاد کریں جب کہ آپ کہہ رہے تھے اس شخص کو جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ نے بھی انعام کیا، مراد اس شخص سے حضرت زید ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے پہلا انعام تو یہ فرمایا کہ ان کو مشرف با اسلام کردیا دوسرے آپ کی صحبت کا شرف عطا فرمایا۔ اور آپ نے ان پر ایک انعام تو یہ کیا کہ ان کو غلامی سے آزاد کردیا، دوسرا یہ کہ ان کی تربیت فرما کر ایسا بنادیا کہ بڑے بڑے صحابہ بھی ان کی تعظیم کرتے تھے۔ آگے وہ قول نقل کیا جو آپ نے زید سے فرمایا (آیت) امسک علیک زوجک واتق اللہ، یعنی اپنی بی بی کو آپ اپنے نکاح میں روکیں، طلاق نہ دیں اور خدا سے ڈریں۔ خدا سے ڈرنے کا حکم اس جگہ اس معنی میں بھی ہوسکتا ہے کہ طلاق ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے اس سے اجتناب کریں اور اس معنی سے بھی ہوسکتا ہے کہ نکاح میں روکنے کے بعد طبعی منافرت کی وجہ سے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ آپ کا یہ فرمانا اپنی جگہ صحیح و درست تھا، مگر منجانب اللہ ہونے والے واقعہ کا علم ہوجانے اور دل میں حضرت زینب سے نکاح کا ارادہ پیدا ہوجانے کے بعد زید کو طلاق نہ دینے کی نصیحت ایک طرح کی رسمی اظہار خیر خواہی کے درجہ میں تھی، جو شان رسالت کے مناسب نہ تھی، خصوصاً اس لئے کہ اس کے ساتھ لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ بھی شامل تھا اس لئے آیت مذکورہ میں عتاب ان الفاظ میں نازل ہوا کہ آپ دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔ جب منجانب اللہ حضرت زنیب کے ساتھ آپ کے نکاح کی خبر مل چکی، اور آپ کے دل میں ارادہ نکاح پیدا ہوچکا تو اس ارادہ کو چھپا کر ایسی رسمی گفتگو جو آپ کی شان کے مناسب نہیں تھی کی۔ اور لوگوں کے طعنوں کے اندیشہ پر فرمایا کہ آپ لوگوں سے ڈرنے لگے، حالانکہ ڈرنا تو آپ کو اللہ ہی سے سزا وار ہے۔ یعنی جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والا ہے، اس کی ناراضی کا اس میں کوئی خوف وخطر نہیں تو پھر محض لوگوں کے طعنوں سے گھبرا کر آپ کے لئے یہ گفتگو مناسب نہیں تھی۔
اس واقعہ کی جو تفصیل اوپر لکھی گئی ہے، یہ سب تفسیر ابن کثیر اور قرطبی اور روح المعانی سے لی گئی ہے، اور (آیت) تحفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ کی یہ تفسیر کہ وہ چیز جس کو آپ نے دل میں چھپایا تھا وہ یہ ارادہ تھا کہ زید نے طلاق دے دیتو حکم الٰہی کے مطابق آپ ان سے نکاح کرلیں گے، یہ تفسیر حکیم ترمذی اور ابن ابی حاتم وغیرہ محدثین نے حضرت علی بن حسین زین العابدین کی روایت سے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں
”یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ اطلاع دے دی تھی کہ حضرت زنیب کو زید طلاق دینے والے ہیں اور اس کے بعد وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی“
اور ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوال سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں
”یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ حضرت زینب بھی ازواج مطہرات میں داخل ہوجائیں گی، پھر جب حضرت زید ان کی شکایت لے کر آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تو آپ کو بتلا دیا تھا کہ میں ان سے آپ کا نکاح کرا دوں گا اور آپ اپنے دل میں اس چیز کو چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔
جمہور مفسرین زہری، بکر بن العلاء، قشیری، قاضی ابوبکر بن العربی نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ جس چیز کے دل میں چھپانے کا ذکر کیا گیا وہ بوحی الہٰی ارادہ نکاح تھا، اس کے خلاف جن روایات میں ما فی نفسک کی تفسیر محب زنیب سے منقول ہے، اس کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا کہ ہم نے ان روایات کا ذکر کرنا اس لئے پسند نہیں کیا کہ ان میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔
اور خود الفاظ قرآن سے تائید اسی تفسیر کی ہوتی ہے جو حضرت زین العابدین کی روایت سے اوپر بیان ہوئی ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود بتلا دیا کہ دل میں چھپائی ہوئی چیز وہ تھی جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اگلی آیت میں ظاہر فرمایا وہ نکاح ہے حضرت زنیب کے ساتھ جیسا کہ فرمایا زوجنکھا (روح)
محمود ہی جب تک کسی مقصود شرعی پر اثر انداز نہ ہو
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس معاملہ کا اخفاء کیوں فرمایا جو سبب عتاب بنا۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ میں اصل مغالطہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہے یہ ہے کہ جس کام کے کرنے سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے اور ان کے طعن وتشنیع میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو تو لوگوں کے دین کی حفاظت اور ان کو طعن وتشنیع کے گناہ سے بچنے کے نیت سے چھوڑ دینا اس صورت میں تو جائز ہے جب کہ یہ فعل خود مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو، اور کوئی دینی حکم حلال و حرام کا اس سے متعلق نہ ہو، اگرچہ فعل فی نفسہ محمود ہو۔ اس کی نظیر حدیث و سنت رسول اللہ ﷺ میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب بیت اللہ کی تعمیر کی گئی تو اس میں کئی چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف کردی گئی ہیں اول تو یہ کہ بیت اللہ کا کچھ حصہ تعمیر سے باہر چھوڑ دیا، دوسرے بناء ابراہیمی میں لوگوں کے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے دو دروازے تھے، ایک مشرقی جانب میں دوسرا مغربی جانب میں، جس کی وجہ سے بیت اللہ میں داخل ہونے اور نکلنے میں زحمت نہ ہوتی تھی، اہل جاہلیت نے اس میں دو تصرف کئے کہ مغربی دروازہ تو بالکل بند کردیا اور مشرقی دروازہ جو سطح زمین سے متصل تھا اس کو اتنا اونچا کردیا کہ بغیر سیڑھی کے اس میں داخلہ نہ ہو سکے، جس سے یہ مقصد تھا کہ وہ جس کو اجازت دیں صرف وہ اندر جاسکے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر نو مسلم لوگوں کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو پھر بناء ابراہیمی کے مطابق بنا دیتا۔ یہ حدیث سب کتب معتبرہ میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے اپنا یہ ارادہ جو شرعاً محمود تھا اس کو ترک کردیا، اور منجانب اللہ اس پر کوئی عتاب نہیں ہوا، جس سے اس عمل کا عند اللہ مقبول ہونا بھی معلوم ہوگیا۔ مگر یہ معاملہ بیت اللہ کو بناء ابراہیمی کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنے کا ایسا نہیں جس پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہو یا جس سے احکام حلال و حرام متعلق ہوں۔
بخلاف واقعہ نکاح زینب کے کہ اس سے ایک مقصد شرعی متعلق تھا کہ جاہلیت کی رسم بد اور اس خیال باطل کی عملی تردید ہوجائے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حرام ہے۔ کیونکہ قوموں میں چلی ہوئی غلط رسموں کو توڑنا عملاً جب ہی ممکن ہوتا ہے جب اس کا عملی مظاہرہ ہو۔ حکم ربانی اسی کی تکمیل کے لئے حضرت زینب کے نکاح سے متعلق ہوا تھا۔ اس تقریر سے بناء بیت اللہ کے ترک اور نکاح زینب پر بارشاد خداوندی عمل کے ظاہری تعارض کا جواب ہوگیا۔
اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حکم کی قولی تبلیغ جو سورة احزاب کی پہلی آیات میں آ چکی ہے اس کو کافی سمجھا اور اس کے عملی مظاہرہ کی حکمت کی طرف نظر نہیں گئی، اس لئے باوجود علم و ارادہ کے اس کو چھپایا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات مذکورہ میں اس کی اصلاح فرمائی، اور اس کا اظہار فرمایا (آیت) لکی لایکون علیٰ المومنین حرج فی ازواج ادعیاہیم اذا قضوا منہن وطراً ، یعنی ہم نے زنیب سے آپ کا نکاح اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں پر اس معاملے میں کوئی عملی تنگی پیش نہ آئے، کہ منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے نکاح کرسکیں۔
اور زوجنکہا کے لفظی معنی یہ ہیں کہ ہم نے ان کا نکاح آپ سے کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو یہ امتیاز بخشا کہ خود ہی نکاح کردیا جو عام شرائط نکاح سے مستثنیٰ رہا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں ہم نے اس نکاح کا حکم دے دیا اب آپ شرعی قواعد و شرائط کے مطابق ان سے نکاح کرلیں۔ حضرات مفسرین میں بعض نے پہلے احتمال کو ترجیح دی، بعض نے دوسرے احتمال کو۔
اور حضرت زینب کا دوسری عورتوں کے سامنے یہ فرمانا کہ تمہارا نکاح تو تمہارے والدین نے کیا میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کیا، جیسا کہ روایات میں آیا ہے، یہ دونوں صورتوں میں صادق ہے۔ پہلی صورت میں زیادہ واضح ہے اور دوسری صورت بھی اس کے منافی نہیں۔
Top