Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ
: اور (یاد کرو) جب
تَقُوْلُ
: آپ فرماتے تھے
لِلَّذِيْٓ
: اس شخص کو
اَنْعَمَ اللّٰهُ
: اللہ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَنْعَمْتَ
: اور آپ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
اَمْسِكْ
: روکے رکھ
عَلَيْكَ
: اپنے پاس
زَوْجَكَ
: اپنی بیوی
وَاتَّقِ اللّٰهَ
: اور ڈر اللہ سے
وَتُخْفِيْ
: اور آپ چھپاتے تھے
فِيْ نَفْسِكَ
: اپنے دل میں
مَا اللّٰهُ
: جو اللہ
مُبْدِيْهِ
: اس کو ظاہر کرنے والا
وَتَخْشَى
: اور آپ ڈرتے تھے
النَّاسَ ۚ
: لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
اَنْ
: کہ
تَخْشٰىهُ ۭ
: تم اس سے ڈرو
فَلَمَّا
: پھر جب
قَضٰى
: پوری کرلی
زَيْدٌ
: زید
مِّنْهَا
: اس سے
وَطَرًا
: اپنی حاجت
زَوَّجْنٰكَهَا
: ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا
لِكَيْ
: تاکہ
لَا يَكُوْنَ
: نہ رہے
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
حَرَجٌ
: کوئی تنگی
فِيْٓ اَزْوَاجِ
: بیویوں میں
اَدْعِيَآئِهِمْ
: اپنے لے پالک
اِذَا
: جب وہ
قَضَوْا
: پوری کرچکیں
مِنْهُنَّ
: ان سے
وَطَرًا ۭ
: اپنی حاجت
وَكَانَ
: اور ہے
اَمْرُ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
مَفْعُوْلًا
: ہوکر رہنے والا
اور جب تو کہنے لگا اس شخص کو جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو کو اور ڈر اللہ سے اور تو چھپاتا تھا اپنے دل میں ایک چیز جس کو اللہ کھولنا چاہتا ہے اور ڈرتا تھا لوگوں سے اور اللہ سے زیادہ چاہئے ڈرنا تجھ کو پھر جب زید تمام کرچکا اس عورت سے اپنی غرض ہم نے اس کو تیرے نکاح میں دیدیا تاکہ نہ رہے مسلمانوں پر گناہ نکاح کرلینا جورویں اپنے لے پا لکوں کی جب وہ تمام کرلیں ان سے اپنی غرض اور ہے اللہ کا حکم بجالا نا
دوسرا واقعہ
حضرت زینب بنت جحش کا نکاح بامر نبی کریم ﷺ حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ ہوگیا، مگر دونوں کی طبیعتوں میں موافقت نہ ہوئی۔ حضرت زید ان کی تیز زبانی اور نسبی شرافت کی بنا پر اپنے کو اونچا سمجھنے اور اطاعت میں کوتاہی کرنے کی شکایت کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ بتلا دیا گیا تھا کہ زید ان کو طلاق دیں گے، اس کے بعد زینب آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ ایک روز حضرت زید نے انہی شکایات کو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کر کے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ ان کو طلاق دے دیں۔ رسول اللہ ﷺ کو اگرچہ منجانب اللہ یہ علم ہوگیا تھا کہ واقعہ یوں ہی پیش آنے والا ہے، کہ زید ان کو طلاق دے دیں گے، پھر یہ نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں گی، لیکن دو وجہ سے آپ نے حضرت زید کو طلاق دینے سے روکا۔ اول یہ کہ طلاق دینا اگرچہ شریعت اسلام میں جائز ہے مگر پسندیدہ نہیں بلکہ بعض المباحات یعنی جائز چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض و مکروہ ہے، اور تکوینی طور پر کسی کام کا وقوع تشریعی حکم کو متاثر نہیں کرتا۔ دوسرے قلب مبارک میں یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے طلاق دے دی اور پھر زینب کا نکاح آپ سے ہوا تو عرب اپنے دستور جاہلیت کے مطابق یہ طعنے دیں گے کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اگرچہ قرآن نے اس دستور جاہلیت کو سورة احزاب کی ہی سابقہ آیات میں ختم کردیا ہے۔ اس کے بعد کسی مومن کے لئے تو اس کے وسوسہ کا بھی خطرہ نہ تھا مگر کفار جو قرآن ہی کو نہیں مانتے وہ اپنی جاہلانہ رسم یعنی منہ بولے بیٹے کو تمام احکام میں حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے پر زبان طعن دراز کریں گے۔ یہ اندیشہ بھی حضرت زید کو طلاق دینے سے منع کرنے کا سبب بنا۔ اس پر حق تعالیٰ کی طرف سے محبوبانہ عتاب قرآن کی ان آیات میں نازل ہوا(آیت) واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ، یعنی آپ اس وقت کو یاد کریں جب کہ آپ کہہ رہے تھے اس شخص کو جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ نے بھی انعام کیا، مراد اس شخص سے حضرت زید ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے پہلا انعام تو یہ فرمایا کہ ان کو مشرف با اسلام کردیا دوسرے آپ کی صحبت کا شرف عطا فرمایا۔ اور آپ نے ان پر ایک انعام تو یہ کیا کہ ان کو غلامی سے آزاد کردیا، دوسرا یہ کہ ان کی تربیت فرما کر ایسا بنادیا کہ بڑے بڑے صحابہ بھی ان کی تعظیم کرتے تھے۔ آگے وہ قول نقل کیا جو آپ نے زید سے فرمایا (آیت) امسک علیک زوجک واتق اللہ، یعنی اپنی بی بی کو آپ اپنے نکاح میں روکیں، طلاق نہ دیں اور خدا سے ڈریں۔ خدا سے ڈرنے کا حکم اس جگہ اس معنی میں بھی ہوسکتا ہے کہ طلاق ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے اس سے اجتناب کریں اور اس معنی سے بھی ہوسکتا ہے کہ نکاح میں روکنے کے بعد طبعی منافرت کی وجہ سے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ آپ کا یہ فرمانا اپنی جگہ صحیح و درست تھا، مگر منجانب اللہ ہونے والے واقعہ کا علم ہوجانے اور دل میں حضرت زینب سے نکاح کا ارادہ پیدا ہوجانے کے بعد زید کو طلاق نہ دینے کی نصیحت ایک طرح کی رسمی اظہار خیر خواہی کے درجہ میں تھی، جو شان رسالت کے مناسب نہ تھی، خصوصاً اس لئے کہ اس کے ساتھ لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ بھی شامل تھا اس لئے آیت مذکورہ میں عتاب ان الفاظ میں نازل ہوا کہ آپ دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔ جب منجانب اللہ حضرت زنیب کے ساتھ آپ کے نکاح کی خبر مل چکی، اور آپ کے دل میں ارادہ نکاح پیدا ہوچکا تو اس ارادہ کو چھپا کر ایسی رسمی گفتگو جو آپ کی شان کے مناسب نہیں تھی کی۔ اور لوگوں کے طعنوں کے اندیشہ پر فرمایا کہ آپ لوگوں سے ڈرنے لگے، حالانکہ ڈرنا تو آپ کو اللہ ہی سے سزا وار ہے۔ یعنی جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والا ہے، اس کی ناراضی کا اس میں کوئی خوف وخطر نہیں تو پھر محض لوگوں کے طعنوں سے گھبرا کر آپ کے لئے یہ گفتگو مناسب نہیں تھی۔
اس واقعہ کی جو تفصیل اوپر لکھی گئی ہے، یہ سب تفسیر ابن کثیر اور قرطبی اور روح المعانی سے لی گئی ہے، اور (آیت) تحفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ کی یہ تفسیر کہ وہ چیز جس کو آپ نے دل میں چھپایا تھا وہ یہ ارادہ تھا کہ زید نے طلاق دے دیتو حکم الٰہی کے مطابق آپ ان سے نکاح کرلیں گے، یہ تفسیر حکیم ترمذی اور ابن ابی حاتم وغیرہ محدثین نے حضرت علی بن حسین زین العابدین کی روایت سے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں
”یعنی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی یہ اطلاع دے دی تھی کہ حضرت زنیب کو زید طلاق دینے والے ہیں اور اس کے بعد وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی“
اور ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوال سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں
”یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ حضرت زینب بھی ازواج مطہرات میں داخل ہوجائیں گی، پھر جب حضرت زید ان کی شکایت لے کر آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تو آپ کو بتلا دیا تھا کہ میں ان سے آپ کا نکاح کرا دوں گا اور آپ اپنے دل میں اس چیز کو چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔
جمہور مفسرین زہری، بکر بن العلاء، قشیری، قاضی ابوبکر بن العربی نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ جس چیز کے دل میں چھپانے کا ذکر کیا گیا وہ بوحی الہٰی ارادہ نکاح تھا، اس کے خلاف جن روایات میں ما فی نفسک کی تفسیر محب زنیب سے منقول ہے، اس کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا کہ ہم نے ان روایات کا ذکر کرنا اس لئے پسند نہیں کیا کہ ان میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔
اور خود الفاظ قرآن سے تائید اسی تفسیر کی ہوتی ہے جو حضرت زین العابدین کی روایت سے اوپر بیان ہوئی ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود بتلا دیا کہ دل میں چھپائی ہوئی چیز وہ تھی جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اگلی آیت میں ظاہر فرمایا وہ نکاح ہے حضرت زنیب کے ساتھ جیسا کہ فرمایا زوجنکھا (روح)
محمود ہی جب تک کسی مقصود شرعی پر اثر انداز نہ ہو
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اس معاملہ کا اخفاء کیوں فرمایا جو سبب عتاب بنا۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ میں اصل مغالطہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہے یہ ہے کہ جس کام کے کرنے سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے اور ان کے طعن وتشنیع میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو تو لوگوں کے دین کی حفاظت اور ان کو طعن وتشنیع کے گناہ سے بچنے کے نیت سے چھوڑ دینا اس صورت میں تو جائز ہے جب کہ یہ فعل خود مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو، اور کوئی دینی حکم حلال و حرام کا اس سے متعلق نہ ہو، اگرچہ فعل فی نفسہ محمود ہو۔ اس کی نظیر حدیث و سنت رسول اللہ ﷺ میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب بیت اللہ کی تعمیر کی گئی تو اس میں کئی چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف کردی گئی ہیں اول تو یہ کہ بیت اللہ کا کچھ حصہ تعمیر سے باہر چھوڑ دیا، دوسرے بناء ابراہیمی میں لوگوں کے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے دو دروازے تھے، ایک مشرقی جانب میں دوسرا مغربی جانب میں، جس کی وجہ سے بیت اللہ میں داخل ہونے اور نکلنے میں زحمت نہ ہوتی تھی، اہل جاہلیت نے اس میں دو تصرف کئے کہ مغربی دروازہ تو بالکل بند کردیا اور مشرقی دروازہ جو سطح زمین سے متصل تھا اس کو اتنا اونچا کردیا کہ بغیر سیڑھی کے اس میں داخلہ نہ ہو سکے، جس سے یہ مقصد تھا کہ وہ جس کو اجازت دیں صرف وہ اندر جاسکے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر نو مسلم لوگوں کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو پھر بناء ابراہیمی کے مطابق بنا دیتا۔ یہ حدیث سب کتب معتبرہ میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے اپنا یہ ارادہ جو شرعاً محمود تھا اس کو ترک کردیا، اور منجانب اللہ اس پر کوئی عتاب نہیں ہوا، جس سے اس عمل کا عند اللہ مقبول ہونا بھی معلوم ہوگیا۔ مگر یہ معاملہ بیت اللہ کو بناء ابراہیمی کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنے کا ایسا نہیں جس پر کوئی مقصد شرعی موقوف ہو یا جس سے احکام حلال و حرام متعلق ہوں۔
بخلاف واقعہ نکاح زینب کے کہ اس سے ایک مقصد شرعی متعلق تھا کہ جاہلیت کی رسم بد اور اس خیال باطل کی عملی تردید ہوجائے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح حرام ہے۔ کیونکہ قوموں میں چلی ہوئی غلط رسموں کو توڑنا عملاً جب ہی ممکن ہوتا ہے جب اس کا عملی مظاہرہ ہو۔ حکم ربانی اسی کی تکمیل کے لئے حضرت زینب کے نکاح سے متعلق ہوا تھا۔ اس تقریر سے بناء بیت اللہ کے ترک اور نکاح زینب پر بارشاد خداوندی عمل کے ظاہری تعارض کا جواب ہوگیا۔
اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حکم کی قولی تبلیغ جو سورة احزاب کی پہلی آیات میں آ چکی ہے اس کو کافی سمجھا اور اس کے عملی مظاہرہ کی حکمت کی طرف نظر نہیں گئی، اس لئے باوجود علم و ارادہ کے اس کو چھپایا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات مذکورہ میں اس کی اصلاح فرمائی، اور اس کا اظہار فرمایا (آیت) لکی لایکون علیٰ المومنین حرج فی ازواج ادعیاہیم اذا قضوا منہن وطراً ، یعنی ہم نے زنیب سے آپ کا نکاح اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں پر اس معاملے میں کوئی عملی تنگی پیش نہ آئے، کہ منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے نکاح کرسکیں۔
اور زوجنکہا کے لفظی معنی یہ ہیں کہ ہم نے ان کا نکاح آپ سے کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو یہ امتیاز بخشا کہ خود ہی نکاح کردیا جو عام شرائط نکاح سے مستثنیٰ رہا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں ہم نے اس نکاح کا حکم دے دیا اب آپ شرعی قواعد و شرائط کے مطابق ان سے نکاح کرلیں۔ حضرات مفسرین میں بعض نے پہلے احتمال کو ترجیح دی، بعض نے دوسرے احتمال کو۔
اور حضرت زینب کا دوسری عورتوں کے سامنے یہ فرمانا کہ تمہارا نکاح تو تمہارے والدین نے کیا میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے آسمان پر کیا، جیسا کہ روایات میں آیا ہے، یہ دونوں صورتوں میں صادق ہے۔ پہلی صورت میں زیادہ واضح ہے اور دوسری صورت بھی اس کے منافی نہیں۔
Top