Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ : اور اگر امْرَاَةٌ : کوئی عورت خَافَتْ : ڈرے مِنْۢ بَعْلِھَا : اپنے خاوند سے نُشُوْزًا : زیادتی اَوْ : یا اِعْرَاضًا : بےرغبتی فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْهِمَآ : ان دونوں پر اَنْ يُّصْلِحَا : کہ وہ صلح کرلیں بَيْنَهُمَا : آپس میں صُلْحًا : صلح وَالصُّلْحُ : اور صلح خَيْرٌ : بہتر وَاُحْضِرَتِ : اور حاضر کیا گیا (موجود ہے) الْاَنْفُسُ : طبیعتیں الشُّحَّ : بخل وَاِنْ : اور اگر تُحْسِنُوْا : تم نیکی کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
اور اگر کوئی عورت ڈرے اپنے خاوند کے لڑنے سے یا جی بھر جانے سے تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر کہ کرلیں آپس میں کسی طرح صلح اور صلح خوب چیز ہے اور دلوں کے سامنے موجود ہے حرص اور اگر تم نیکی کرو اور پرہیزگاری کرو تو اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے،
معارف و مسائل
ازدواجی زندگی سے متعلق چند قرآنی ہدایات
وان امراة خافت من بعلھا (انی قولہ) واسعاً حکیماً ان تینوں آیتوں میں حق تعالیٰ شانہ نے ازدواجی زندگی کے اس تلخ اور کٹھن پہلو کے متعلق ہدایات دی ہیں جو اس طویل زندگی کے مختلف ادوار میں ہر جوڑے کو کبھی نہ کبھی پیش آ ہی جاتا ہے، وہ ہے باہمی رنجش اور کشیدگی اور یہ ایسی چیز ہے کہ اس پر صحیح اصول کے ماتحت قابو پانے کی کشش نہ کی جائے تو نہ صرف زوجین کے لئے دنیا جہنم بن جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات یہ گھریلو رنجش خاندانوں اور قبیلوں کی باہمی جنگ اور قتل و قتال تک نوبت پہنچا دیتی ہے قرآن عزیز مرد عورت دونوں کے تمام جذبات اور احساسات کو سامنے رکھ کر ہر فریق کو ایک ایسا نظام زندگی بتلانے کے لئے آیا ہے جس پر عمل کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا گھر دنیا ہی میں جنت بن جائے گا گھریلو تلخیاں محبت و راحت میں تبدیلی ہوجائیں گی، اور اگر ناگزیر حالات میں علیحدگی کی نوبت بھی آجائے تو وہ بھی خوشگوار طبقہ خوش اسلوبی کے ساتھ ہو، قطع تعلق بھی ایسا ہو کہ عداوت دشمنی اور ایذاء رسانی کے جذبات پیچھے نہ چھوڑے۔
آیت نمبر 821 ایسے حالات سے متعلق ہے جس میں غیر اختیاری طور پر میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ ہوجائیں، ہر فریق اپنی جگہ معذور سمجھا جائے اور باہمی تلخی کی وجہ سے اس کا اندیشہ ہوجائے کہ باہمی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے گی، جیسے ایک بیوی سے اس کے شوہر کا دل نہیں ملتا اور نہ ملنے کے اسباب رفع کرنا عورت کے اختیار میں نہیں، مثلاً عورت بدصورت یا سن رسیدہ بوڑھیا ہے، شوہر خوش رو ہے، تو ظاہر ہے کہ اس میں نہ عورت کا کوئی قصور ہے اور نہ مرد ہی کچھ مجرم کہا جاسکتا ہے۔
چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں اسی طرح کے چند واقعات مظہری وغیرہ میں منقول ہیں، ایسے حالات میں مرد کے لئے تو ایک عام قانون قرآن کریم نے یہ بتلایا ہے کہ فامساک بمعروف اوتسریح بااحسان کہ اس عورت کو رکھنا ہو تو دستور کے مطابق اس کے پورے حقوق ادا کر کے رکھو اور اگر اس پر قدرت نہیں تو اس کو خوش اسلوبی سے آزاد کردو، اب اگر عورت بھی آزاد ہونے کے لئے تیار ہے تو معاملہ صاف ہے کہ قطع تعلق بھی خوشگور انداز میں ہوجائے گا، لیکن اگر ایسے حالات میں عورت کسی وجہ سے آزادی نہیں چاہتی خواہ اپنی اولاد کے مفاد کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ اس کا کوئی دوسرا سہارا نہیں تو یہاں ایک ہی راستہ ہے کہ شوہر کو کسی چیز پر راضی کیا جائے، مثلاً عورت اپنے تمام یا بعض حقوق کا مطالبہ چھوڑ دے اور شوہر یہ خیال کرے کہ بہت سے حقوق کے بارے سے تو سبکدوشی ہوتی ہے، بیوی مفت میں ملتی ہے اس پر صلح ہوجائے۔
قرآن کریم کی اس آیت میں ایک تو اس طرح کی مصالحت کے متوقع ہونے کی طرف رہنمائی اس طرح فرمائی وا حضرت الانفس الشح یعنی حرص تمام نفوس کے سامنے دھری رہتی ہے ایسی مصالحت میں عورت کو تو یہ حرص ہے کہ مجھے آزاد کردیا تو اولاد برباد ہوجائے گی یا میری زندگی دوسری جگہ تلخ ہوگی اور شوہر کو یہ لالچ ہے کہ جب عورت نے اپنا کل مہر یا بعض معاف کردیا اور دوسرے حقوق کا بھی مطالبہ چھوڑ دیا تو اب اس کو رکھنے میں میرے لئے کیا مشکل ہے، اس لئے مصالحت باہمی آسان ہوجائے گی، اس کے ساتھ ارشاد فرمایا
وان امراہ خافت من بعلھا نستوزا او اعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا، یعنی اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑائی جھگڑے یا بےرخی کا خطرہ محسوس کرے تو دونوں میں سے کسی کو گناہ نہیں ہوگا اگر آپس میں خاص شرائط پر صلح کرلیں اور گناہ نہ ہونے کے عنوان سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اس معاملہ کی صورت بظاہر رشوت کی سی ہے کہ شوہر کو مہر وغیرہ کی معافی کا لالچ دے کر ازدواجی زندگی کا تعلق باقی رکھا گیا ہے لیکن قرآن کے اس ارشاد نے واضح کردیا کہ یہ رشوت میں داخل نہیں بلکہ مصلحت میں داخل ہے جس میں فریقین اپنے کچھ کچھ کا مطالبہ چھوڑ کر کسی درمیانی صورت میں رضامند ہوجایا کرتے ہیں اور یہ جائز ہے۔
زوجین کے جھگڑے میں دوسروں کا دخل بلا ضرورت مناسب نہیں۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے ان یصلحا بینھما صلحاً فرمایا یعنی ”میاں بیوی دونوں آپس میں کسی صورت پر مصالحت کرلیں۔“ اس میں لفظ بینھما سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ میاں بیوی کے معاملات میں بہت بہتریہ ہے کہ کوئی تیسرا دخیل نہ ہو، یہ دونوں خود ہی آپس میں کوئی بات طے کرلیں، کیونکہ تیسرے کے دخل سے بعض اوقات تو مصالحت ہی ناممکن ہوجاتی ہے اور ہو بھی جائے تو طرفین کے عیوب تیسرے آدمی کے سامنے بلا وجہ آتے ہیں جس سے بچنا دونوں کے لئے مصلحت ہے۔
مذکورہ آیت کے آخر میں فرمایاوان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعلمون خبیراً یعنی ایسے حالات میں جبکہ بیوی سے تمہارا دل نہیں ملتا اور اس وجہ سے تم اس کے حقوق ادا کرنا مشکل سمجھ کر آزاد کرنا چاہتے ہو تو گو ضابطہ میں تمہیں آزاد کردینے کا اختیار بھی حاصل ہے اور آیت کے ابتدائی جملہ کی رو سے عورت کے کچھ مطالبات چھوڑنے پر صلح کرلینا بھی جائز ہے، لیکن اگر حق تعالیٰ کے خوف کو سامنے رکھ کر احسان سے کام لو اور دل نہ ملنے کے باجود اس کے تعلق کو بھی نبھاؤ اور اس کے سب حقوق بھی پورے کرو، تو تمہارا یہ حسن عمل اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے، جس کا یہ نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس تحمل اور حسن عمل کا بدلہ ایسی نعمتوں اور حقوق سے دے گا جس کا تم کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے اور شاید اسی وجہ سے یہاں صرف یہ بتلا کر چھوڑ دیا کہ تمہارا یہ حسن عمل ہمارے سامنے ہے، اس کا ذکر نہیں کیا کہ اس کا بدلہ کیا دیں گے ؟ اشارہ اس طرف ہے کہ وہ بدلہ تمہارے وہم و خیال سے بھی زائد ہوگا۔
متعلقہ آیات کے مضمون کا خلاصہ یہ ہوگیا کہ شوہر جب یہ دیکھے کہ کسی وجہ سے اس کا دل اپنی بیوی سے نہیں ملتا اور اس کے حقوق پورے نہیں ہوتے تو جہاں تک بیوی کے اختیاری معاملات کا تعلق ہے ان کی تو اصلاح کی کوشش کرے، تنبیہ کے لئے عارضی طور پر بےرخی، زبانی تنبیہ اور مجبوری معمولی مار پیٹ بھی کرنا پڑے تو کرے، جیسا کہ سورة نساء کی شروع کی آیات میں گزر چکا ہے اور اگر ساری کوششوں کے باوجود اصلاح سے مایوس ہوجائے، یا معاملہ کوئی ایسا ہے جس کا درست کرنا عورت کے اختیار ہی میں نہیں، تو اب اس کو قانون شرع یہ حق دیتا ہے کہ خوش اسلوبی کے ساتھ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے طلاق دے کر آزاد کر دے، لیکن اگر وہ اس کے تعلق کو اسی حالت میں نبھائے، اپنے حقوق کو نظر انداز اور اس کے حقوق پورے پورے ادا کرے تو یہ اس کے لئے افضل و اعلی اور موجب ثواب عظیم ہے، اس کے بالمقابل اگر معاملہ برعکس ہو کہ مرد حقوق واجبہ نہیں ادا کرتا، اس لئے عورت آزادی چاہتی ہے تو اس صورت میں اگر شوہر بھی آزاد کرنے پر راضی ہے تو معاملہ صاف ہے، عورت کو بھی یہ حق ملتا ہے کہ جب شوہر اداء حقوق میں کوتاہی کی بناء پر اس کو آزاد کرنا چاہے تو عورت بھی اپنی آزادی اختیار کرلے اور اگر شوہر با اختیار خود آزاد کرے پر آمادہ نہیں تو عورت کو حق پہنچتا ہے کہ اسلامی عدالت سے اپنی آزادی کا مطالبہ کر کے آزاد ہوجائے لیکن اگر وہ شوہر کی بےرخی اور کج روی پر صبر کر کے اپنے حقوق کا مطالبہ چھوڑ کر اس کو نبھائے اور شوہر کے حقوق کو ادا کرے تو یہ اس کے لئے افضل و اعلی اور موجب ثواب عظیم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف اپنی تکلیف کو دور کرنے اور اپنا حق وصول کرنے کا فریقین کو قانونی حق قرآن کریم نے دے دیادوسری طرف دونوں کو بلند اخلاقی اور اپنے حقوق کے ترک کرنے پر صبر کی تلقین فرما کر یہ ہدایت فرما دی کہ جہاں تک ممکن ہو اس تعلق کو قطع کرنے سے بچنا چاہئے اور چاہئے کہ جانبین سے کچھ کچھ حقوق ترک کر کے کسی خاص صورت پر صلح کرلیں۔
اس آیت کے شروع میں تو میاں بیوی کے باہمی اختلاف کے وقت صلح کا صرف جائز ہونا بتلایا گیا ہے اور آخر آیت میں صلح نہ ہونے کی صورت میں بھی صبر و تحمل کے ساتھ تعلق نبھانے کی تلقین فرمائی گئی ہے، درمیان میں ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا ہے جس سے مصالحت کا پسندیدہ اور افضل و بہتر ہونا ثابت ہوتا ہے، ارشاد ہے والصلح خیر یعنی باہم مصالحت کرنا بہتر ہے“ اور یہ جملہ ایسے عام عنوان سے بیان فرمایا جس میں زیر بحث میاں بیوی کے جھگڑے بھی داخل ہیں اور دوسری قسم کے گھریلو اختلافات بھی اور تمام دنیا کے معاملات کے باہمی جھگڑے اور خصومات و مقدمات بھی کیونکہ الفاظ قرآن عام ہیں کہ صلح بہتر ہے۔
خلاصہ مضمون یہ کہ طرفین سے اپنے اپنے پورے مطالبہ پر اڑے رہنے کے بجائے یہ بہتر ہے کہ طرفین اپنے کچھ مطالبات دستبردار ہو کر کسی درمیاین صورت پر رضامندی کے ساتھ مصالحت کرلیں، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے
”یعنی مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کی مصالحت جائز ہے بجز اس صلح کے جس میں کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام ٹھہرایا گیا ہو اور مسلمانوں کو اپنی مانی ہوئی شرطوں پر قائم رہنا چاہئے، بجز ان شرائط کے جن کے ذریعہ کسی حلال کو حرام قرار دیا گیا ہو۔“
مثلاً کسی عورت سے اس بات پر صلح کرلینا جائز نہیں کہ اس کے ساتھ اس کی بہن کو بھی نکاح میں رکھا جائے، کیونکہ دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا شرعاً حرام ے، یا اس پر صلح کرے کہ دوسری بیوی کے حقوق ادا نہ کرے گا، کیونکہ اس میں ایک حلال کو حرام ٹھہرانا ہے۔
اور روایت میں چونکہ عموم کے ساتھ ہر صلح کو جائز قرار دیا ہے اس عموم سے امام اعظم ؒ نے یہ مسئلہ نکالا کہ صلح کی سب اقسام جائز ہیں خواہ اقرار کے ساتھ ہو جیسے مدعا علیہ یہ اقرار کرے کہ مدعی کے دعوے کے مطابق میرے ذمہ اس کے ایک ہزار روپیہ واجب الادا ہیں، پھر مصالحت اس پر ہوجائے کہ مدعی اس میں سے کچھ رقم چھوڑ دے، یا اس رقم کے معاوضہ میں اس سے کوئی چیز لے لے، یا مدعا علیہ دعوے کے بارے میں اقرار و انکار کچھ نہ کرے اور کہے کہ حقیقت میں جو کچھ بھی ہو میں چاہتا ہوں کہ تم اس صورت پر صلح کرلو، یا مدعا علیہ دعوے سے قطعی انکار کرلو، لیکن انکار کے باوجود جھگڑا قطع کرنے کے لئے کچھ دینے پر راضی ہوجائے اور اس پر صلح ہوجائے، یہ تینوں قسمیں صلح کی جائز ہیں، سکوت اور انکار کی صورت میں بعض ائمہ فقہاء کا اختلاف بھی ہے۔
آخر میں ایک مسئلہ قابل ذکر ہے جس کا تعلق زوجین کی باہمی مصالحت سے ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وہ یہ کہ اگر کسی عورت نے اپنے بعض حقوق کا مطالبہ ترک کردینے پر صلح کرلی تو یہ صلح عورت کے اس حق کو تو قطعی طور پر ختم کر دے گی جو بوقت صلح شوہر کے ذمہ عائد ہوچکا ہے، جیسے دین مہر کہ وہ شوہر پر اس صلح سے پہلے واجب الاداء ہوچکا ہے، لہذا جب وہ پورا مہر یا اس کا کوئی جز معاف کردینے پر صلح کرے تو یہ مہر یا اس کا حصہ ساقط ہوجائے گا اس کے بعد اس کو مطالبہ کا حق باقی نہ رہے گا، لیکن جو حقوق ایسے ہیں کہ بوقت صلح ان کی ادائیگی شوہر پر واجب ہی نہ تھی، مثلاً آئندہ زمانہ کا نان نفقہ یا حق شب باشی جس کا وجوب آنیوالے زمانہ میں ہوگا، بالفعل اس کے ذمہ واجب الادا نہیں ہے ان حقوق کو ترک پر اگر مصالحت کرلی گئی تو عورت کا حق مطالبہ ہمیشہ کے لئے ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ جب اس کا دل چاہے یہ کہہ سکتی ہے کہ آئندہ میں اپنا یہ حق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، اس صورت میں شوہر کو اختیار ہوگا کہ اس کو آزاد کر دے (تفسیر مظہری وغیرہ)
آخری آیت یعنی وان یتفر قایغن اللہ کلامن سعتہ میں فریقین کو تسلی دی گئی کہ اگر اصلاح و مصالحت کی سب کوششیں ناکام ہو کر الگ ہی ہونا پڑے تو اس سے بھی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دوسرے سے مستغنی فرما دیں گے، عورت کے لئے کوئی دوسرا ٹھکانا اور تکفل کا ذریعہ اور مرد کے لئے دوسری عورت مل جائے گی، اللہ تعالیٰ کی قدرت بڑی وسیع ہے، اس سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں، ان میں سے ہر ایک نکاح سے پہلی زندگی پر نظر ڈالے کہ ایک دوسرے کو پہچانتا بھی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے جوڑا ملا دیا، آج بھی پھر ایسی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
آخر آیت میں وکان اللہ واسعاً حکیماً فرما کر اس بات کو اور پختہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی وسعت ہے اور اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے ممکن ہے کہ اس علیحدگی ہی میں حکمت و مصلحت ہو، جدائی کے بعد دونوں کو ایسے جوڑے مل جائیں کہ دونوں کی زندگی سدھر جائے۔
Top