Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ
: اور اگر
امْرَاَةٌ
: کوئی عورت
خَافَتْ
: ڈرے
مِنْۢ بَعْلِھَا
: اپنے خاوند سے
نُشُوْزًا
: زیادتی
اَوْ
: یا
اِعْرَاضًا
: بےرغبتی
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْهِمَآ
: ان دونوں پر
اَنْ يُّصْلِحَا
: کہ وہ صلح کرلیں
بَيْنَهُمَا
: آپس میں
صُلْحًا
: صلح
وَالصُّلْحُ
: اور صلح
خَيْرٌ
: بہتر
وَاُحْضِرَتِ
: اور حاضر کیا گیا (موجود ہے)
الْاَنْفُسُ
: طبیعتیں
الشُّحَّ
: بخل
وَاِنْ
: اور اگر
تُحْسِنُوْا
: تم نیکی کرو
وَتَتَّقُوْا
: اور پرہیزگاری کرو
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
بِمَا تَعْمَلُوْنَ
: جو تم کرتے ہو
خَبِيْرًا
: باخبر
اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بےرغبتی کا اندیشہ ہو تم میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح کرلیں۔ اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اگر تم نیکوکاری اور پرہیزگاری کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
وان امراۃ خافت من بعلہا نشوزا . اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بد دماغی کا غالب احتمال ہو یعنی علامات و قرائن سے معلوم ہو کہ شوہر اس کو طلاق دے دے گا۔ او اعراضا . یا رخ پھیر لینے کا اندیشہ ہو کہ شوہر اس کے ساتھ نشست برخاست اور گفتگو میں کمی کر دے اور اس کے حقوق ادا نہ کرے اور عورت طلاق نہ چاہتی ہو۔ فلا جناح علیہما ان یصلحا بینہما . تو کوئی جرم نہیں کہ وہ آپس میں (کسی جائز شرط پر) صلح کرلیں۔ مثلاً عورت اپنے کل مہر یا جزء مہر یا لازمی نفقہ یا مقررہ باری سے دست بردار ہوجائے یا شوہر کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے کچھ ہبہ کر دے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اگر شوہر اپنی بی بی سے کہے تیری عمر زیادہ ہوگئی میں کسی جوان خوبصورت عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور باری کی تقسیم میں میں اس کو تجھ پر ترجیح دوں گا اگر تو اس پر رضامند ہے تو میرے پاس رہتی رہ اگر تجھے ناگوار ہو تو میں تجھے طلاق دے دوں گا ایسی حالت میں اگر عورت (اپنی باری کا حق سوخت ہوجانے پر) رضامند ہوجائے تو یہ اس کا احسان ہوگا اس معاملہ میں اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا اور رضامند نہ ہو تو مرد پر لازم ہے کہ یا تو اس کے مصارف اور باری کا حق پورا ادا کرے ورنہ حسن سلوک کے ساتھ آزاد کر دے اگر اس کو نکاح میں رہنے دے گا اور اس کا حق ادا کرتا رہے گا (خواہ) بکراہت خاطر ہی ہو تو اس کو محسن (حسن سلوک کرنے والا) کہا جائے گا (گویا اوّل صورت میں عورت اپنے حق سے دست بردار ہونے کی وجہ سے محسن قرار پائی اور دوسری صورت میں مرد نے اپنے حق طلاق کا استعمال نہیں کیا تو محسن قرار پایا) مقاتل بن حبان نے کہا کہ اگر کوئی بوڑھی عورت کسی مرد کے نکاح میں ہو پھر کسی جوان عورت سے مرد نکاح کرلے اور بوڑھی عورت سے کہے میں تجھے اتنا مال دوں گا بشرطیکہ تو اپنے حق کی باری میں کمی کر دے اور دوسری عورت کو اپنی باری دے دے اور بوڑھی عورت رضامند ہوجائے تو بہتر اور اگر راضی نہ ہو تو مرد پر دونوں میں مساوات رکھنی لازم ہے۔ حضرت علی ؓ نے اسی آیت کے ذیل میں فرمایا اگر کوئی عورت کسی کے نکاح میں ہو لیکن بدصورتی یا زیادتی عمر کے سبب مرد کی نظر میں نہ جچے اور عورت اس مرد سے جدا ہونا بھی پسند نہ کرے اور (نکاح میں قائم رہنے کے لئے) مرد کو کچھ مال دے دے تو یہ مال اس شخص کے لئے حلال ہے اور اگر اپنی باریوں میں سے کوئی باری دے دے تب بھی درست ہے۔ آیت میں لفظ بَیْنَہُمَاسے اس طرف اشارہ ہے کہ بغیر کسی تیسرے کے دخل دیئے میاں بی بی کو خود ہی باہم صلح کر لینی مناسب ہے تاکہ ان کے آپس کی کوئی بری بات تیسرے آدمی کو معلوم نہ ہو۔ صلحا . یہ مفعول مطلق ہے اور بَیْنَہُمَامفعول بہ ہے یا مفعول بہ محذوف ہے۔ ایک شبہ : صلحاً کو اگر اِصْلاَحًایا مُصَالَحۃً کے معنی میں لیا جائے تو مفعول مطلق ہو سکے گا ورنہ نہیں ہوگا (اور یہاں ثلاثی مجرد ‘ ثلاثی مزید کے معنی میں نہیں ہے) ازالہ : صلح بھی ایک طرح کی اصلاح ہے اس لئے اس کا مفعول مطلق ہونا صحیح ہے اس کے علاوہ یہ کہ مفعول مطلق ہونے کے لئے مادہ کا اتحاد کافی ہے۔ مصدر میں اختلاف ہو تو کوئی ہرج نہیں جیسے اَنْبَتَہُ اللّٰہُ نَباتًا (فعل باب افعال سے ہے اور نباتاً ثلاثی مجرد ہے) آیت سے بطور دلالت النص یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر مرد کو عورت کی سرکشی کا اندیشہ ہو پھر دونوں مل کر صلح کرلیں تو کوئی ہرج نہیں (صلح ہی بہتر ہے) یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مسئلہ آئندہ آیت کے تحت سمجھ لیا جائے۔ والصلح خیر . اور صلح بہتر ہے جدا ہوجانے سے یا جھگڑا کرنے سے یا سوء معاشرت سے یا (خیرکا صلہ محذوف نہیں ہے اور) یہ معنی ہے کہ صلح ایک طرح کی بھلائی ہے جیسے باہم جھگڑا ایک طرح کی برائی ہے چونکہ لا جناحکا معنی ہے گناہ نہ ہونا اور اس سے خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ مکروہ ہے اس خیال کو دور کرنے کے لئے والصلح خیرجملۂ معترضہ کے طور پر فرمایا اس کے علاوہ عورت کا اپنے حق میں کچھ دینا رشوت کی مشابہت رکھتا ہے اس وہم کو دفع کرنے کے لئے بھی والصلح خیر فرمایا۔ یہ آیت اگرچہ میاں بیوی کے درمیان مصالحت کرنے کے سلسلہ میں خصوصیت سے نازل ہوئی تھی لیکن چونکہ الفاظ عام ہیں لہٰذا صحیح دعوے کے بعد جو بھی مصالحت ہو اس کو حکم آیت شامل ہے۔ اقسام صلح صلح تین قسم کی ہوتی ہے (1) اقرار کے ساتھ صلح (2) سکوت کے ساتھ صلح (3) انکار حق کے ساتھ صلح۔ چونکہ آیت مطلق ہے اس لئے امام شافعی کے علاوہ باقی اماموں کے نزدیک ہر طرح کی صلح جائز ہے امام شافعی مؤخر الذکر دونوں صورتوں کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کی صلح جائز ہے مگر وہ صلح ناجائز ہے جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دے اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں مگر اس شرط کے پابند نہیں جو حلال کو حرام کر دے۔ رواہ الحاکم ‘ توضیح دلیل یہ ہے کہ بدل کی رقم دینے والے (یعنی مدعی علیہ) کے لئے حلال تھی (کیونکہ دعویٰ جھوٹا تھا) لینے والے کے لئے حرام تھی (کیونکہ اس کا حق نہ تھا) لیکن صلح کے بعد معاملہ الٹ گیا (مدعی کے لئے حلال ہوگئی اور مدعی علیہ کو دینا پڑگئی) دوسری وجہ یہ ہے کہ مدعی علیہ جھگڑا کاٹنے کے لئے (دعوے کی) رقم دیتا ہے تو یہ دینا رشوت کے مشابہ ہوتا ہے اور (رشوت ناجائز ہے لہٰذا وہ صلح بھی جس سے رشوت کی مشابہت پیدا ہوجائے ناجائز ہے) تینوں اماموں نے فرمایا یہ حدیث تو ہمارے خلاف نہیں جاتی بلکہ ہمارے مسلک کو ثابت کر رہی ہے کیونکہ حضور ﷺ نے بغیر کسی شرط کے فرمایا کہ ہر صلح جائز ہے رہا استثناء تو اس کا معنی یہ ہے کہ جو صلح کسی قطعی حرام (مثلاً شراب وغیرہ) کو حلال یا کسی قطعی حلال کو حرام بنا دے وہ جائز نہیں ہے مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے اس شرط پر صلح کرلے کہ اس کی سوکن سے صحبت نہیں کرے گا (سوکن سے صحبت قطعی طور پر حلال ہے اگر بیوی سے صلح اس کی سوکن سے ترک صحبت کی شرط پر کرے گا تو یہ صلح باطل ہوگی) دیکھو اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے اور بیوی شوہر سے اس شرط پر صلح کرلے کہ میں اپنی باری سوکن کو دیتی ہوں مجھے طلاق نہ دو تو یہ مصالحت باجماع علماء صحیح ہے باوجودیکہ مصالحت سے پہلے بعض عورتوں کو باری کی تقسیم میں ترجیح دینا حرام تھا مگر مصالحت کی وجہ سے حلال ہوگیا۔ سکوت اور انکار کے بعد (کچھ لینے دینے پر) صلح کرنا جائز ہے کیونکہ مدعی تو اپنے گمان کے مطابق اپنا حق وصول کرے گا اور مدعی علیہ اپنی طرف سے جھگڑا کاٹنے کے لئے دینے پر رضامند ہوجائے گا اور یہ جائز ہے جان بچانے کے لئے مال دینا درست ہے۔ ظلم کو دور کرنے کے لئے رشوت دینا مباح ہے ہاں اگر مدعی اپنا حق ثابت کرنے سے عاجز ہو اور مدعی علیہ واقف ہو کہ مدعی کا دعویٰ صحیح ہے اور اس کے باوجود وہ اقرار نہ کرے بلکہ دعوے کا کچھ حصہ لینے دینے پر مصالحت ہوجائے تو دعوے کا بقیہ حصہ عند اللہ مدعی علیہ کے لئے حلال نہ ہوگا کیونکہ کسی کے حق کو دانستہ ہضم کر جانا جائز نہیں۔ ہاں اگر دعوے کی صحت سے واقف نہ ہو اور (کچھ دینے لینے پر) مصالحت کرلے تو تینوں اماموں کے نزدیک جائز اور امام شافعی (رح) کے نزدیک ناجائز ہے۔ مسئلہ : اقرار دعویٰ کے بعد اگر مصالحت ہوجائے تو اگر مالی دعویٰ ہو اور اس کے عوض کچھ مال دینے کی شرط پر مصالحت ہوجائے تو اس کو بیع سمجھا جائے گا (جس مال کا دعویٰ ہے اور مدعی علیہ اس کا مقیر ہے وہ ثمن اور جو مال دعویٰ والے مال کے عوض دینا قرار پایا ہو وہ مبیع قرار پائے گا) لہٰذا اس میں شفعہ کا قانون جاری ہوگا۔ خیار عیب خیار شرط اور خیار رویت بھی ہوگا۔ مال بدل اگر مجہول ہو تو عقد صلح فاسد ہوجائے گا لیکن اگر وہ مال مجہول ہو جس کا دعویٰ تھا تو عقد صلح فاسد نہ ہوگا کیونکہ اس کو ساقط ہونا ہی ہے وصول ہونا نہیں ہے (اور ساقط ہونے والے حق کی جہالت مضر نہیں نہ باعث نزاع بن سکتی ہے) یہ ضروری ہے کہ مدعی علیہ کو مال بدل ادا کرنے پر قدرت ہو۔ اگر مال کا دعویٰ ہو اور اس کے عوض (مدعی کا) کچھ کام کرنا طے ہوجائے تو اس کا قیاس عقد اجارہ پر ہوگا (یعنی اس کو اجارہ مانا جائے اور جس طرح اجارہ میں کام کے وقت کی تعیین ضروری ہے اسی طرح) اس میں وقت کی تعیین ضروری ہے اور اگر مدت مصالحت کے اندر مدعی مدعیٰ علیہ میں سے کوئی مرجائے تو عقد مصالحت باطل ہوجاتی ہے۔ مسئلہ : سکوت و انکار کی صورت میں مصالحت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مدعی علیہ قسم کھانے سے بچ جائے گا۔ (مصالحت نہ ہوتی تو مدعا علیہ پر قسم عائد ہوتی کیونکہ منکر پر قسم عائد ہوتی ہے) اور مدعی کو اپنے حق کا معاوضہ مل جائے گا لہٰذا مدعی نے اگر کسی گھر کے متعلق دعویٰ کیا اور کچھ دے کر مدعی علیہ نے مصالحت کرلی تو اس مکان میں شفعہ واجب نہیں لیکن اگر دعوی کے عوض مدعی علیہ نے مکان دے دیا تو اس مکان میں شفعہ واجب ہے۔ مسئلہ : اگر کسی نے مکان کا دعویٰ کیا اور مکان کا ایک ٹکڑا مدعی علیہ نے دے کر صلح کرلی تو یہ صلح صحیح نہ ہوگی کیونکہ جتنا حصہ مدعی نے حاصل کرلیا وہ اس کے دعوے کا ایک جز ہے اس لئے باقی حصہ میں اس کا دعویٰ قائم رہے گا ہاں اگر مدعی علیہ نے بدل صلح میں ایک درہم بڑھا دیا یا یہ صراحت ہوگئی کہ مدعی باقی دعوے سے دست بردار ہوجائے تو صلح صحیح ہے اور باقی حصہ میں مدعی کا دعویٰ قائم نہیں رہے گا۔ مسئلہ : قتل عمد و خطا میں (مالی) مصالحت جائز ہے کیونکہ یہ بھی انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ اَخْیِہِ شَئٌ فَاتّتاعٌ بالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْہِ باحْسَانٍ ۔ مرد اگر کسی عورت پر نکاح کا دعویٰ کرے اور کچھ مال لے کر دست بردار ہوجائے تو جائز ہے گویا یہ خلع ہوجائے گا۔ اگر کسی پر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ تو میرا غلام ہے اور وہ کچھ مال دے کر مصالحت کرلے تو جائز ہے گویا یہ مال کے عوض آزادی ہوجائے گی۔ مسئلہ : اگر کسی پر قرض کا دعویٰ ہو اور مدعی علیہ کچھ دے کر مصالحت کرلے تو صحیح ہے گویا یہ صورت اس طرح ہوجائے گی کہ مدعی نے اپنا کچھ قرض وصول کرلیا اور باقی معاف کردیا پس اگر کھرے ہزار روپیہ کا دعویٰ ہو اور کھوٹے پانچ سو روپے پر صلح کرلی جائے تو یہ صلح درست ہوگی اور یوں سمجھا جائے گا کہ مدعی نے اپنے کھرے روپیہ کے حق کو معاف کردیا اور تعداد میں بھی کمی کردی اور نقد کی جگہ ادائیگی کے لئے مہلت دے دی۔ لیکن اگر کھوٹے ہزار روپیہ کا دعویٰ ہو تو پانچ سو کھرے روپیہ کی ادائیگی پر صلح کرنا جائز نہیں (خواہ ادائیگی نقد ہو یا تاخیر کے ساتھ) کیونکہ حق تو کھوٹے روپے کا تھا اور مصالحت کھرے روپے کی شرط پر ہوئی تو کھوٹے ہزار روپے کا معاوضہ کھرے پانچ سو سے ہوگیا یہ سود ہے۔ لیکن اگر دراہم (نقرئی) کا دعویٰ ہو اور (سونے کے) کچھ دینار پر مصالحت ہوجائے تو چونکہ یہ بیع ‘ صَرف ہوگئی اس لئے اشرفیوں پر فوراً مجلس مصالحت کو چھوڑنے سے پہلے مدعی کا قبضہ ضروری ہے۔ سعید بن منصور نے سعید بن مسیب کا بیان نقل کیا ہے کہ محمد ﷺ بن مسلمہ کی بیٹی رافع ؓ بن خدیج کے عقد میں تھی۔ رافع ؓ کو بیوی کی کوئی بات پسند نہ آئی معلوم نہیں وجہ ناپسندیدگی بیوی کی پیرانہ سالی تھی یا کچھ اور۔ بہرحال رافع ؓ نے بیوی کو طلاق دینی چاہی ‘ بیوی نے کہا مجھے طلاق نہ دو اور میری باری کا تم کو اختیار ہے جو اور جتنی چاہو میرے لئے مقرر کر دو اس پر اللہ نے آیت وان امراۃ خافت الخ نازل فرمائی۔ حاکم نے سعید بن مسیب کی ہی روایت سے حسب بیان حضرت رافع ؓ بن خدیج مذکورہ بیان کے کچھ تائیدی شواہد بھی نقل کئے ہیں جو متصل ہیں (موقوف نہیں ہیں) بغوی نے لکھا ہے کہ عمرہ کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ خویلہ بنت محمد بن مسلمہ اور ان کے شوہر اسعد ؓ بن ربیع کے حق میں اس کا نزول ہوا۔ یا حضرت رافع ؓ بن خدیج کے حق میں ہوا ‘ جنہوں نے بنت محمد ؓ سے نکاح کیا تھا اس وقت خویلہ جوان تھیں لیکن جب پیری آگئی تو رافع نے کسی دوسری بیوی کو ان پر ترجیح دی اور ان سے الگ ہوگئے بنت محمد بن مسلمہ نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اس بات کی شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حاکم نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ آیت والصلح خیر اس شخص کے متعلق نازل ہوئی جس کے نکاح میں ایک عورت تھی اور اس سے اس کے بچے بھی تھے لیکن اس شخص نے اس کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہا۔ عورت نے اس کی رضامندی کے لئے کہا تم مجھے اپنے پاس رہنے دو اور مجھے اپنی باری کی ضرورت نہیں۔ بغوی نے سعید بن جبیر ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ ایک شخص تھا جس کی بیوی بوڑھی ہوگئی تھی۔ اس شخص کی اس بیوی سے بچے بھی تھے۔ مرد نے اس کو طلاق دے کر کسی دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہا عورت نے کہا مجھے طلاق نہ دو ۔ اپنے بچوں پر مجھے رہنے دو اور اگر چاہو تو دو ماہ میں میرے لئے ایک باری مقرر کر دو نہ چاہو تو یہ بھی نہ کرو۔ مرد نے جواب دیا اگر تو اس پر رضامند ہے تو مجھے بھی یہ صورت پسند ہے۔ پھر وہ شخص رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ عرض کیا اس پر آیت وَاِنِ اَمَرأَۃٌ خَافَتْنازل ہوئی۔ ابن جریر ؓ نے سعید بن جبیر ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ جب آیت فَاِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًانازل ہوئی تو اس عورت نے کہا میں چاہتی ہوں کہ میرے حصّہ کے مصارف تم ضرور مقرر کر دو حالانکہ یہ عورت پہلے اپنے مصارف چھوڑنے پر راضی ہوگئی تھی اور اس نے یہ کہہ دیا تھا کہ تم مجھے طلاق نہ دو (چاہے) میرے پاس بھی نہ آؤ۔ اس وقت آیت ذیل نازل ہوئی۔ واحضرت الانفس الشح . اور انسانی طبائع سے حرص غائب نہیں ہوتی۔ یعنی کنجوسی نفس انسانی کے سامنے ہر وقت رہتی ہے کبھی غائب نہیں ہوتی آدمی کی طبیعت کے خمیر میں ہی کنجوسی داخل ہے۔ شحکا معنی ہے حرص آمیز کنجوسی۔ صحاح و قاموس۔ یعنی اکثر حالات میں کسی سے کنجوسی دور نہیں ہوتی نہ عورت کو گوارا ہوتا ہے کہ مرد اس کی طرف سے منہ پھیر لے اور اس کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کرے نہ مرد کو گوارا ہوتا ہے کہ عورت کو (ہر حالت میں) اپنے پاس رکھے اور اس کے حقوق ادا کرتا رہے۔ یہ جملہ بھی معترضہ ہے پہلا جملہ صلح کی ترغیب کے لئے تھا اور یہ جملہ اپنے حق پر اڑے رہنے کی توجیہ کی تمہید کو ظاہر کر رہا ہے۔ وان تحسنوا . اور اگر تم آپس کی معاشرت اچھی رکھو گے یعنی مرد عورت کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے گا اور خواہ دل نہ چاہے مگر بیوی کے ساتھ انصاف قائم رکھے گا اور بیوی شوہر کے حقوق ادا کرتی رہے گی خواہ اس کو ناگوار ہو۔ وتتقوا . اور بچتے رہو گے یعنی نشوز اور اعراض اور حق تلفی سے بچتے رہو گے۔ فان اللہ کان بما تعملون خبیرا . تو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بخوبی باخبر ہے خواہ دوسرے کے ساتھ بھلائی کرو یا برائی وہ اس کا بدلہ تم کو دے گا۔ اللہ کا علم جزاء اعمال کا سبب ہے بجائے جزا و سزا کے علم کا ذکر تو کردیا جیسے سبب کو مسبب کے قائم مقام ذکر کردیا جاتا ہے۔
Top