Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا١ؕ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا سَوْفَ : عنقریب نُصْلِيْهِمْ : ہم انہیں ڈالیں گے نَارًا : آگ كُلَّمَا : جس وقت نَضِجَتْ : پک جائیں گی جُلُوْدُھُمْ : ان کی کھالیں بَدَّلْنٰھُمْ : ہم بدل دیں گے جُلُوْدًا : کھالیں غَيْرَھَا : اس کے علاوہ لِيَذُوْقُوا : تاکہ وہ چکھیں الْعَذَابَ : عذاب اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بیشک جو منکر ہوئے ہماری آیتوں سے ان کو ہم ڈالیں گے آگ میں جس وقت جل جائے گی کھال ان کی تو ہم بدل دیویں گے ان کو اور کھال تاکہ چکھتے رہیں عذاب بیشک اللہ ہے زبردست حکمت والا
خلاصہ تفسیر
بلاشک جو لوگ ہماری آیات (و احکام) کے منکر ہوئے (ہم ان کو) عنقریب ایک سخت آگ میں داخل کریں گے (اور وہاں ان کی برابر یہ حالت رہے گی کہ) جب ایک دفعہ ان کی کھال (آگ سے) جل چکے گی تو ہم اس پہلی کھال کی جگہ فوراً دوسری (تازہ) کھال پیدا کر دینگے تاکہ (ہمیشہ) عذاب ہی بھگتتے رہیں (کیونکہ پہلی کھال میں جلنے کے بعد شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید اس میں ادراک و احساس نہ رہے اس لئے شبہ قطع کرنے کے یہ سنا دیا) بلاشک اللہ تعالیٰ زبردست ہیں (کہ وہ ایسی سزا دے سکتے ہیں اور) حکمت والے ہیں (اس لئے باوجود قدرت کے جلی ہوئی کھال کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں، پھر بھی کسی حکمت سے بدل دیا جیسے کہ ایک حکمت کا بیان ابھی ہوا ہے) اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ہم ان کو عنقریب ایسے باغوں میں داخل کرینگے کہ ان کے (محلات) کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے واسطے ان (باغوں) میں پاک صاف بیبیاں ہوں گی اور ہم ان کو نہایت گنجان سایہ (کی جگہ) میں داخل کریں گے۔
معارف و مسائل
حضرت معاذ کلما نضجت جلودھم بدلنھم کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ان کی کھال جل چکے گی تو اس کو تبدیل کیا جائے گا اور یہ کام اتنی سرعت سے ہوگا کہ ایک ساعت میں سو مرتبہ کھال تبدیل کی جائے گی۔
”آگ ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ ان کو کھائے گی، جب ان کو کھاچکے گی تو ان لوگوں کو کہا جائے گا کہ تم پھر پہلی حالت پر لوٹ جاؤ، پس وہ لوٹ جائیں گے۔“
”نبی ؑ نے فرمایا کہ اہل جہنم میں سب سے کم عذاب کے اعتبار سے وہ آدمی ہوگا جس کے تلووں میں آگ کی دو چنگاریاں ہوں گی جن کی وجہ سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھولتا ہوگا۔“
(رواہ البخاری و مسلم، بحوالہ الترغیب و الترھیب ج 4 ص 932)
ازواج مطھرة کی تفسیر۔
حاکم نے ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کی عورتیں پاک ہوں گی، یعنی وہ حیض، بول وبراز اور ناک سے بہنے والی کدورت سے پاک ہوں گی۔
حضرت مجاہد نے مذکوروہ چیزوں پر اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بچے پیدا کرنے اور ناپاک نطفہ سے بھی پاک ہوں گی۔ (مظہری)
ظلا ظلیلاً ظل کے بعد ظلیل کا لفظ ذکر کر کے اشارہ کردیا کہ وہ سایہ ہمیشہ رہنے والا ہوگا اور گھنا سایہ ہوگا جیسا کہ کہا جاتا ہے شمس شامس اور لیل لئیل اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جنت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہوں گی۔
”حضرت ابوہریرہ حضور ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ تحقیق جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سایہ کو ایک سوار سو سال میں بھی طے نہ کرسکے گا اگر آپ چاہیں تو یہاں آیت وظل ممدو پڑھیں۔“
ربیع بن انس نے ظلا ظلیلاً کی تفسیر میں فرمایا ھو ظل العرش الذی لایزول ”یعنی وہ سایہ عرش کا سایہ ہے جو کبھی زائل نہیں ہوگا۔
Top