Maarif-ul-Quran - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو ! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبرلے کر تو تحقیق کرلو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو ! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے (جس میں کسی کی شکایت ہو) تو (بدون تحقیق کے اس پر عمل نہ کیا کرو بلکہ اگر عمل کرنا مقصود ہو تو) خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔

معارف و مسائل
شان نزول
اس آیت کے نزول کا واقعہ ابن کثیر نے بحوالہ مسند احمد یہ نقل کیا ہے کہ قبیلہ بنی المصطلق کے رئیس حارث بن ضرار بن ابی ضرار جن کی صاحبزادی حضرت جویریہ بنت حارث امہات المومنین میں سے ہیں یہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا، میں نے اسلام کو قبول کیا اور زکوٰة ادا کرنے کا اقرار کیا اور عرض کیا کہ اب میں اپنی قوم میں جا کر ان کو بھی اسلام اور ادائے زکوٰة کی طرف دعوت دوں گا۔ جو لوگ میری بات مان لیں گے اور زکوٰة ادا کریں گے میں ان کی زکوٰة جمع کرلوں گا اور آپ فلاں مہینہ کی فلاں تاریخ تک اپنا کوئی قاصد میرے پاس بھیج دیں تاکہ جو رقم زکوٰة کی میرے پاس جمع ہوجائے اس کو سپرد کر دوں، پھر جب حارث نے حسب وعدہ ایمان لانے والوں کی زکوٰة جمع کرلی اور وہ مہینہ اور تاریخ جو قاصد بھیجنے کے لئے طے ہوئی تھی گزر گئی اور آپ کا کوئی قاصد نہ پہنچا تو حارث کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ شاید رسول اللہ ﷺ ہم سے کسی بات پر ناراض ہیں ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ وعدے کے مطابق اپنا آدمی نہ بھیجتے۔ حارث نے اس خطرہ کا ذکر اسلام قبول کرنے والوں کے سرداروں سے کیا اور ارادہ کیا کہ یہ سب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاویں۔ ادھر واقعہ یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے مقررہ تاریخ پر ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر زکوٰة وصول کرنے کے لئے بھیج دیا تھا مگر ولید بن عقبہ کو راستہ میں یہ خیال آیا کہ اس قبیلہ کے لوگوں سے میری پرانی دشمنی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مجھے قتل کر ڈالیں اس خوف کے سبب وہ راستہ ہی سے واپس ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ سے جا کر یہ کہا کہ ان لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا اور میرے قتل کا ارادہ کیا اس پر رسول اللہ ﷺ کو غصہ آیا اور حضرت خالد بن ولید کی سر کردگی میں ایک دستہ مجاہدین کا روانہ کیا، ادھر یہ دستہ مجاہدین کا روانہ ہوا ادھر سے حارث مع اپنے ساتھیوں کے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضری کے لئے نکلے، مدینہ کے قریب دونوں کی ملاقات ہوئی۔ حارث نے ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ کن لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ حارث نے سبب پوچھا تو ان کو واقعہ ولید بن عقبہ کے بھیجنے کا اور ان کی واپسی کا بتلایا گیا اور یہ کہ ولید بن عقبہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ بیان دیا ہے کہ بنی المصطلق نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا اور میرے قتل کا منصوبہ بنایا۔ حارث نے یہ سن کر کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے میں نے ولید بن عقبہ کو دیکھا تک نہیں اور نہ وہ میرے پاس آئے۔ اس کے بعد حارث جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے زکوٰة دینے سے انکار کیا اور میرے قاصد کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حارث نے کہا کہ ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو پیغام حق دے کر بھیجا ہے نہ وہ میرے پاس آئے نہ میں نے ان کو دیکھا۔ پھر جب مقررہ وقت پر آپ کا قاصد نہ پہنچا تو مجھے خطرہ ہوا کہ شاید مجھ سے کوئی قصور ہوا جس پر حضور ناراض ہوئے اس لئے میں حاضر خدمت ہوا۔ حارث فرماتے ہیں کہ اس پر سورة حجرات کی آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)
اور بعض روایات میں ہے کہ ولید بن عقبہ حسب الحکم بنی المصطلق میں پہنچے، اس قبیلہ کے لوگوں کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ اس تاریخ پر حضور کا قاصد آوے گا یہ تعظیماً بستی سے باہر نکلے کہ ان کا استقبال کریں۔ ولید بن عقبہ کو شبہ ہوگیا کہ یہ شاید پرانی دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرنے آئے ہیں یہیں سے واپس ہوگئے اور جا کر حضور ﷺ سے اپنے گمان کے مطابق یہ عرض کردیا کہ وہ لوگ زکوٰة دینے کے لئے تیار نہیں، بلکہ میرے قتل کے در پے ہوئے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو بھیجا اور یہ ہدایت فرمائی کہ خوب تحقیق کرلیں اس کے بعد کوئی اقدام کریں۔ خالد بن ولید نے بستی سے باہر رات کو پہنچ کر قیام کیا اور تحقیق حال کے لئے چند آدمی بطور جاسوس کے خفیہ بھیج دیئے۔ ان لوگوں نے آ کر خبر دی کہ یہ سب لوگ اسلام و ایمان پر قائم، نماز و زکوٰة کے پابند ہیں اور کوئی بات خلاف اسلام نہیں پائی گئی، خالد بن ولید نے واپس آ کر آنحضرت ﷺ کو یہ سارا واقعہ بتلایا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (یہ ابن کثیر کی متعدد روایات کا خلاصہ ہے)
اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کوئی شریر فاسق آدمی اگر کسی شخص یا قوم کی شکایت کرے ان پر کوئی الزام لگائے تو اس کی خبر یا شہادت پر بغیر مکمل تحقیق کے عمل کرنا جائز نہیں
آیت سے متعلقہ احکام و مسائل
امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک دوسرے ذرائع سے تحقیق کر کے اس کا صدق ثابت نہ ہوجائے، کیونکہ اس آیت میں ایک قرات تو فتثبتوا کی ہے جس کے معنی ہیں کہ اس پر عمل کرنے اور اقدام میں جلدی نہ کرو بلکہ ثابت قدم رہو جب تک دوسرے ذرائع سے اس کا صدق ثابت نہ ہوجائے اور جب فاسق کی خبر کو قبول کرنا جائز نہ ہوا تو شہادت کو قبول کرنا بدرجہ اولیٰ ناجائز ہوگا کیونکہ ہر شہادت ایک خبر ہوتی ہے جو حلف و قسم کے ساتھ موکد کی جاتی ہے، اسی لئے جمہور علماء کے نزدیک فاسق کی خبر یا شہادت شرعاً مقبول نہیں، البتہ بعض معاملات اور حالات میں فاسق کی خبر اور شہادت کو بھی قبول کرلیا جاتا ہے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آیت قرآن میں اس حکم کی ایک خاص علت منصوص ہے یعنی اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ ، تو جن معاملات میں یہ علت موجود نہیں وہ آیت کے حکم میں داخل نہیں یا مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً یہ کہ کوئی فاسق بلکہ کافر بھی کوئی چیز لائے اور یہ کہے کہ فلاں شخص نے یہ آپ کو ہدیہ بھیجا ہے تو اس کی خبر پر عمل جائز ہے اس کی مزید تفصیل کتب فقہ معین الحکام وغیرہ میں ہے اور احقر نے احکام القرآن عربی ضرب سادس میں اس کی تفصیل لکھ دی ہے اہل علم اس میں دیکھ سکتے ہیں۔
ایک اہم سوال و جواب متعلقہ عدالت صحابہ
اس آیت کا ولید بن عقبہ کے متعلق نازل ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے اور آیت میں ان کو فاسق کہا گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں کوئی فاسق بھی ہوسکتا ہے اور یہ اس مسلمہ اور متفق علیہ ضابطہ کے خلاف ہے کہ الصحابة کلہم عدول، یعنی صحابہ کرام سب کے سب ثقہ ہیں ان کی کسی خبر و شہادت پر کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا کہ اس معاملے میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ان سے گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی اور اگر کذب ثابت ہوا تو ان کی خبر و شہادت رد کردی جائے گی لیکن عقیدہ اہل سنت والجماعت کا نصوص قرآن و سنت کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کر کے پاک نہ ہوگیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے ؓ و رضواعنہ الآیتہ، اور رضائے الٰہی گناہ ہونے کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلی نے فرمایا کہ رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لئے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات موجبات رضا پر ہوگی (کذا فی الصارم المسلول الابن تیمیہ)
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کی عظیم الشان جماعت میں سے گنے چنے چند آدمیوں سے کبھی کوئی گناہ سرزد بھی ہوا ہے تو ان کو فوراً توبہ نصیب ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم ﷺ کی صحبت کی برکت سے ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی۔ خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سرزد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا ان کے اعمال صالحہ، نبی کریم ﷺ اور اسلام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کے لئے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی۔ ان بیشمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لئے خود پیش کردینا، کہیں اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا وغیرہ روایات حدیث میں معروف مشہور ہیں اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔ تیسرے حسب ارشاد قرآن اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں (آیت) ان الحسنت یذھبن السیات خصوصاً جبکہ ان کے حسنات عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان کا حال وہ ہے جو ابوداؤ و ترمذی نے حضرت سعید بن زید سے نقل کیا ہے کہ (آیت) واللہ لمشھد رجل منھم مع النبی ﷺ یغبر فیہ وجھہ خیر من عمل احدکم و لو عمر عمر نوح، یعنی خدا کی قسم ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرہ پر غبار پڑگیا ہو تمہاری عمر بھر کی اطاعت و عبادت سے افضل ہے اگرچہ اس کو عمر نوح ؑ دے دیگئی ہو۔ اس لئے ان سے صدور گناہ کے وقت اگرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لئے مقرر تھا مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے، اس لئے اگر آنحضرت ﷺ کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سر زد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا تو اس سے یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اس فسق کو ان کے لئے مستمر سمجھ کر معاذ اللہ فاسق کہا جائے (کذافی الروح)
اور آیت مذکورہ میں تو قطعاً یہ ضروری نہیں کہہ ولید بن عقبہ کو فاسق کہا گیا ہو سبب نزول خواہ ان کا معاملہ ہی سہی مگر لفظ فاسق ان کے لئے استعمال کیا گیا یہ ضروری نہیں، وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو ولید بن عقبہ سے کوئی ایسا کام ہوا نہ تھا جس کے سبب ان کو فاسق کہا جائے اور اس واقعہ میں بھی جو انہوں نے بنی المصطلق کے لوگوں کی طرف ایک بات غلط منسوب کی وہ بھی اپنے خیال کے مطابق صحیح سمجھ کر کی اگرچہ واقع میں غلط تھی اس لئے آیت مذکورہ کا مطلب بےتکلف وہ بن سکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر گزرا ہے کہ اس آیت نے قاعدہ کلیہ فاسق کی خبر کے نامقبول ہونے کے متعلق بیان کیا ہے اور واقعہ مذکورہ پر اس آیت کے نزول سے اس کی مزید تاکید اس طرح ہوگئی کہ ولید بن عقبہ اگرچہ فاسق نہ تھے مگر ان کی خبر قرائن قویہ کے اعتبار سے ناقابل قبول نظر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے محض ان کی خبر پر کسی اقدام سے گریز کر کے خالد بن ولید کو تحقیقات پر مامور فرما دیا تو جب ایک ثقہ اور صالح آدمی کی خبر میں قرائن کی بنا پر شبہ ہوجانے کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر قبل از تحقیق عمل نہیں کیا گیا تو فاسق کی خبر کو قبول نہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا اور زیادہ واضح ہے۔ عدالت صحابہ کی مکمل بحث احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں بیان کردی جو شائع ہوچکی ہے اور اس کا کچھ حصہ اگلی آیت (آیت) وان طآئفتن من المومنین الآیة کے تحت میں بھی آجائے گا۔
Top