Al-Qurtubi - Al-Maaida : 114
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ١ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
قَالَ : کہا عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اللّٰهُمَّ : اے اللہ رَبَّنَآ : ہمارے رب اَنْزِلْ : اتار عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان تَكُوْنُ : ہو لَنَا : ہمارے لیے عِيْدًا : عید لِّاَوَّلِنَا : ہمارے پہلوں کے لیے وَاٰخِرِنَا : اور ہمارے پچھلے وَاٰيَةً : اور نشان مِّنْكَ : تجھ سے وَارْزُقْنَا : اور ہمیں روزی دے وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الرّٰزِقِيْنَ : روزی دینے والا
تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کیلئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے۔
آیت نمبر 114 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) قال عیسیٰ ابن مریم اللھم ربناسیبویہ کے نزدیک اللھم کی اصل یا اللہ ہے دومیم آخر میں یا کا بدل ہیں اور ربنادوسرا منادی ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 261 ) ۔ سیبویہ اس کے علاوہ کوئی صورت جائز قرار نہیں دیتے۔ نعت ہونا جائز نہیں، کیونکہ اصوات مشابہ ہوتی ہیں اس کی وجہ سے جو اس کو لاحق ہوتی ہے۔ (آیت) انزل علینا مائدۃ، مائدہ اس دسترخوان کو کہتے ہیں جس پر کھاناچنا ہواہو۔ اور جس پرکھانانہ ہو اسے خوان کہا جاتا ہے۔ یہ ماد عبدہ سے فاعلۃ کا وزن ہے جب غلام کھانا کھلائے۔ المائدہ جو دیا گیا ہو۔ اسی سے رؤبۃ کا قول ہے، اخفش نے اس کو پڑھا : نھدی رؤس المترفین لانداد الی امیر المومنین الممتاد (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 260) یعنی جس کا سوال کیا گیا ہو۔ پس المائدہ جو کھانے والوں کو کھانا کھلایا گیا ہو کھانے کو مجازا مائدہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ مائدہ پر کھایا جاتا ہے جیسے عرب بارش کو آسمان کہتے ہیں، اہل کوفہ نے کہا : مائدہ کو مائدہ اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ جو اس پر ہوتا ہے حرکت کرتا ہے یہ عربوں کے اس قول سے مشتق ہوگا مادالشی جب کوئی چیز حرکت کرے۔ شاعر نے کہا : لعلک باک ان تغنت حمامۃ یمید بھا غصن من الایک مائل اس شعر میں یمید کا معنی حرکت کرنا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : وأقلقنی قتل الکنانی بعدہ فکادت بی الارض الفضاء تمید اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) والقی فی الارض رواسی ان تمیدبکم (النحل : 15) اور اللہ تعالیٰ نے گاڑدیئے ہیں زمین میں اونچے اونچے پہاڑ تاکہ زمین لرزتی نہ رہے تمہارے ساتھ۔ ابوعبیدہ نے کہا : مائدۃ فاعلۃ بمعنی مفعولۃ ہے جیسے عیشۃ الراضیۃ بمعنی عیشۃ مرضیۃ ہے۔ ماء دافق بمعنی مدفوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) تکون لناعیدا، تکون، مائدۃ کی صفت ہے ہے جواب نہیں ہے۔ اعمش نے تکن جواب کی بنا پر مجزوم پڑھا ہے اس کا معنی ہے اس کے نزول کا دن ہمارے پہلے اور پچھلے لوگوں کے لیے عید کا دن ہوگا۔ بعض علماء نے فرمایا : مائدہ (دسترخوان) ان پر اتوار کے دن صبح شام نازل ہوتا تھا، اسی وجہ سے انہوں نے اتوارکوعید کا دن بنایا۔ العید، مفرد ہے اور اس کی جمع الاعیاد ہے اس کی جمع یا کے ساتھ بنائی گئی ہے، حالانکہ اس کی اصل وائو ہے، کیونکہ یا واحد میں لازم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کے اور اعوادالخشب کے درمیان فرق کرنے کے لیے یا سے جمع بنائی گئی ہے۔ قد عید واکامعنی ہے وہ عید میں حاضر ہوئے یہ جوہری کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی اصل عاد یعود ہے یعنی لوٹناعید اصل میں عود تھا وائو کو ماقبل کسرہ کی وجہ سے یا سے بدل دیا جیسے میزان، میقات اور میعاد میں یہ اصل میں موازن، موقات اور موعاد تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : عیدالفطر اور عیدالاضحی کو عید اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ خلیل نے کہا : عید ہر وہ دن ہے جس میں لوگ جمع ہوتے ہیں گویا وہ اس کی طرف لوٹ کر آئے ہیں ابن الانباری نے کہا : عید کو عید کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ خوشی اور فرحت میں لوٹ کر آتی ہے کہ یہ تمام مخلوق کے لیے خوشی کا دن ہے کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ قیدی بھی اس دن طلب نہیں کیے جاتے اور سزا نہیں دیے جاتے، وحشی اور پرندے شکار نہیں کیے جاتے اور بچے مدارس میں نہیں جاتے۔ بعض علماء نے فرمایا : عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ ہر انسان اپنی قدرو منزلت کی طرف لوٹتا ہے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ لوگوں کے لباس، ہیئات اور کھانے مختلف ہوتے ہیں بعض مہمان ہوتے ہیں بعض میزبان ہوتے ہیں، بعض رحم کرتے ہیں بعض پر رحم کیا جاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا : عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ عزت اور عظمت والا دن ہے اس کو عید کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ ایک عربوں کے نزدیک بہترین نر تھا اور اس کی لوگ نسبت کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے : اہل عیدیۃ۔ شاعر نے کہا : عیدیۃ اردھنت فیھا الدنانیر یہ پہلے گزرچکا ہے۔ حضرت زید بن ثابت نے لاولانا واخراناجمع پڑھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے لوگوں کے آخری شخص نے اسی طرح کھایا جس طرح پہلے شخص نے کھایا۔ (آیت) وایۃ منک یعنی یہ تمہاری طرف سے حجت و دلالت ہوگا۔ (آیت) وارزقنا یعنی ہمیں عطا فرما، (آیت) وانت خیر الرازقین یعنی جس نے بھی عطا کیا تو اس سے بہتر ہے، کیونکہ تو غنی اور خوبیوں سرراہا ہے۔
Top