Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالصّٰبِئُوْنَ : اور صابی وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کے دن وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک جو مسلمان ہیں اور جو یہودی ہیں اور فرقہ صابی اور نصاریٰ جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور روز قیامت پر اور عمل کرے نیک نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
چار قوموں کو ایمان اور عمل صالح کی ترغیب اور آخرت میں نجات کا وعدہ
دوسری آیت میں حق تعالیٰ شانہ نے چار قوموں کو مخاطب کرکے ایمان اور عمل صالح کی ترغیب اور اس پر فلاح آخرت کا وعدہ فرمایا۔ ان میں سے پہلے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا، یعنی مسلمان ہیں، دوسرے الَّذِيْنَ هَادُوْا، یعنی یہود، تیسرے صابئون، اور چوتھے نصاریٰ۔ ان میں تین قومیں مسلمان، یہود، نصاریٰ معروف و مشہور اور دنیا کے اکثر خطوں میں موجود ہیں۔ صابئون یا صابہ کے نام سے آج کل کوئی قوم معروف نہیں۔ اسی لئے اس کی تعیین میں علماء و ائمہ کے اقوال مختلف ہیں۔ امام تفسیر ابن کثیر نے بحوالہ قتادہ رحمة اللہ علیہ ایک یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ صابئون وہ لوگ ہیں جو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور قبلہ کے خلاف نماز پڑھتے ہیں اور آسمانی کتاب زبور کی تلاوت کرتے ہیں (جو حضرت داؤد ؑ پر نازل ہوئی تھی)۔
قرآن کریم کے اس سیاق سے بظاہر اسی کی تائید ہوتی ہے کہ چار آسمانی کتابیں جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے، تورات، زبور، انجیل اور قرآن، اس میں ان چار کتابوں کے ماننے والوں کا ذکر آگیا۔
اسی مضمون کی ایک آیت تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ سورة بقرہ کے ساتویں رکوع میں گزر چکی ہے(آیت) ان الذین امنوا والذین ھادوا تا ولا ھم یحزنون اس میں بتقاضائے مقام بعض الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے سوا کوئی فرق نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک امتیاز کا مدار عمل صالح پر ہے
خلاصہ مضمون ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی نسبی، وطنی اور قومی خصوصیت کچھ نہیں جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور عمل صالح اختیار کرے گا، خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو، ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بعد نزول قرآن کے پوری اطاعت مسلمان ہونے میں منحصر ہے۔ کیونکہ کتب سابقہ تورات و انجیل میں بھی اس کی ہدایات موجود ہیں، اور قرآن کریم تو سراسر اسی کے لئے نازل ہوا۔ اسی لئے نزول قرآن اور بعثت خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد قرآن اور رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے بغیر نہ تورات و انجیل کا اتباع صحیح ہوسکتا ہے نہ زبور کا۔ تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ان تمام اقوام میں سے جو مسلمان ہوجائے گا آخرت میں نجات وثواب کا مستحق ہوگا۔ اس میں اس خیال کا جواب ہوگیا کہ یہ کفر و معصیت اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شرارتیں جو اب تک کرتے رہے ہیں۔ مسلمان ہوجانے کے بعد ان کا کیا انجام ہوگا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے سب گناہ اور خطائیں معاف کردی جائیں گی اور آخرت میں نہ ان لوگوں کو اندیشہ رہے گا نہ کوئی غم و رنج پیش آئے گا۔
مضمون پر نظر کرنے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو ایمان و اطاعت کے اس مقام پر ہیں جو اس آیت میں مطلوب ہے۔ یہاں ذکر صرف ان لوگوں کا کرنا چاہئے جن کو اس مقام کی طرف بلانا ہے۔ مگر اس طرز خاص میں کہ مسلمانوں کا ذکر بھی ان کے ساتھ ملا دیا گیا ایک خاص بلاغت پیدا ہوگئی۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے، خواہ کوئی موافق ہو یا مخالف جو شخص اطاعت کرے گا وہ مورد عنایت و انعام ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ موافق کو بھی ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ہم کو جو موافقین کے ساتھ عنایت ہے وہ کسی نسبی یا قومی خصوصیت کی بناء پر نہیں بلکہ ان کی صفت اطاعت پر تمام عنایت و انعام کا مدار ہے۔ اگر مخالف بھی اطاعت اختیار کرے گا وہ بھی اسی لطف و عنایت کا مستحق ہوگا۔
متذکرہ چار قوموں کو خطاب کرکے جس امر کی ہدایت دی گئی اس کے تین جز ہیں، ایمان باللہ، ایمان بالیوم الآخر اور عمل صالح۔
ایمان بالرسالة کے بغیر نجات نہیں
ظاہر ہے کہ اس آیت میں تمام ایمانیات اور عقائد اسلام کی تفصیلات بیان کرنا منظور نہیں، نہ اس کا کوئی موقع ہے۔ اسلام کے چند بنیادی عقائد ذکر کر کے تمام اسلامی عقائد کی طرف اشارہ کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا مقصود ہے اور نہ یہ کوئی ضروری بات ہے کہ ہر آیت میں جہاں ایمان کا ذکر آئے اس کی ساری تفصیلات وہیں ذکر کی جائیں اس لئے اس جگہ ایمان بالرسول ﷺ یا ایمان بالنبوة کا ذکر صراحۃ نہ ہونے سے کسی ادنی فہم و عقل اور انصاف و دانش رکھنے والے کو کسی شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ خصوصاً جبکہ پورا قرآن اور اس کی سینکڑوں آیتیں ایمان بالرسالت کی تصریحات سے لبریز ہیں جن میں یہ تصریحات موجود ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ارشادات رسول ﷺ پر مکمل ایمان لائے بغیر نجات نہیں، اور کوئی ایمان و عمل بغیر اس کے مقبول و معتبر نہیں۔ لیکن ملحدین کا ایک گروہ جو کسی نہ کسی طرح قرآن میں اپنے مکروہ نظریات کو ٹھونسنا چاہتا ہے، اور انہوں نے اس آیت میں صراحةً ذکر رسالت نہ ہونے سے ایک نیا نظریہ قائم کرلیا جو قرآن و سنت کی بیشمار تصریحات کے قطعاً خلاف ہے۔ وہ یہ کہ ہر شخص اپنی اپنے مذہب یہودی، نصرانی یہاں تک کہ ہندو بت پرست رہتے ہوئے بھی اگر صرف اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اور نیک کام کرے تو نجات آخرت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ نجات اخروی کے لئے اسلام میں داخل ہونا ضروری نہیں (نعوذ باللہ منہ)
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن کی توفیق اور اس پر صحیح ایمان عطا فرمایا ہے۔ ان کے لئے قرآنی تصریحات سے اس مغالطہ کا دور کردینا کسی بڑے علم و نظر کا محتاج نہیں، قرآن کریم کا اردو ترجمہ جاننے والے حضرات بھی اس تخیل کی غلطی کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ چند آیات بطور مثال کے یہ ہیں
(آیت) کل امن باللّٰہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ۔
”سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اس طرح کہ اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے
اس آیت میں واضح طور پر ایمان کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں ان میں یہ بھی واضح کردیا کہ کسی ایک یا چند رسولوں پر ایمان لے آنا قطعاً نجات کے لئے کافی نہیں بلکہ تمام رسولوں پر ایمان شرط ہے اگر کسی ایک رسول پر بھی ایمان نہ لایا تو اس کا ایمان اللہ کے نزدیک معتبر اور مقبول نہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ہے(آیت)
ان الذین یکفرون باللّٰہ تا اولئک ہم الکفرون حقا۔
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کردیں، (کہ اللہ پر تو ایمان لائیں مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ ہو) اور وہ کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں بعضوں کو اور نہیں مانتے بعضوں کو اور وہ چاہیں کہ کفر و اسلام کے بیچ بیچ کا ایک راستہ نکال لیں تو سمجھ لو کہ وہ ہی اصل میں کافر ہیں“۔
رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے
لوکان موسیٰ حیاً لما وسعہ الا اتباعی،
”یعنی اگر بالفرض آج حضرت موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تو ان کو میرے اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا“۔
تو اب کسی کا یہ کہنا کہ ہر مذہب والے اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں تو بغیر آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور بغیر مسلمان ہوئے وہ جنت اور فلاح آخرت پاسکتے ہیں قرآن کریم کی مذکورہ آیات کی کھلی مخالفت ہے۔
اس کے علاوہ اگر ہر مذہب و ملت ایسی چیز ہے کہ اس پر ہر زمانہ میں عمل کرلینا نجات اور فلاح کے لئے کافی ہے تو پھر خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت اور نزول قرآن ہی بےمعنی ہوجاتا ہے اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت بھیجنا فضول ہوجاتا ہے سب سے پہلا رسول ایک شریعت ایک کتاب لے آتا، وہ کافی تھی۔ دوسرے رسولوں، کتابوں شریعتوں کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کا وجود کافی ہوتا جو اس شریعت و کتاب کو باقی رکھنے اور اس پر عمل کرنے اور کرانے کا اہتمام کرتے جو عام طور پر ہر امت کے علماء کا فریضہ رہا ہے۔ اور اس صورت میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ (آیت) لکل جعلنا منکم شرعة ومنھاجا، یعنی ہم نے تم میں سے ہر امت کے لئے ایک خاص شریعت اور خاص راستہ بنایا ہے۔ یہ سب بےمعنی ہوجاتا ہے۔
اور پھر اس کا کیا جواز رہ جاتا ہے، کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے اوپر اور اپنی کتاب قرآن پر ایمان نہ رکھنے والے تمام یہود و نصاریٰ سے اور دوسری قوموں سے نہ صرف تبلیغی جہاد کیا۔ بلکہ قتل و قتال اور سیف وسنان کی جنگیں بھی لڑی۔ اور اگر انسان کے مومن اور مقبول عند اللہ ہونے کے لئے صرف اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لے آنا کافی ہو تو بیچارہ ابلیس کس جرم میں مردود ہوتا کیا اس کو اللہ پر ایمان نہ تھا، یا وہ روزآخرت اور قیامت کا منکر تھا۔ اس نے تو عین حالت غضب میں بھی (آیت) الی یوم یبعثون کہہ کر ایمان بالآخرت کا اقرار کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مغالطہ صرف اس نظریہ کی پیداوار ہے کہ مذہب کو برادری کے نوتہ کی طرح کسی کو تحفہ میں دیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعہ دوسری قوموں سے رشتے جوڑے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم نے کھول کھول کر واضح کردیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ہمدردی، احسان و سلوک اور مروت سب کچھ کرنا چاہئے، لیکن مذہب کی حدود کی پوری حفاظت اور اس کی سرحدوں کی پوری نگرانی کے ساتھ۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں اگر بالفرض ایمان بالرسول ﷺ کا ذکر بالکل نہ ہوتا تو دوسری آیات قرآن جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے جن میں اس کی اشد تاکید موجود ہے وہ کافی تھیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو خود اس آیت میں بھی ایمان بالرسول کی طرف واضح اشارہ ہے۔ کیونکہ اصطلاح قرآن میں ایمان باللہ وہی معتبر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ساری چیزوں پر ایمان ہو۔ قرآن میں کریم نے اپنی اس اصطلاح کو ان الفاظ میں واضح فرما دیا ‘ (آیت) فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا، یعنی جس طرح کا ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا صرف وہی ایمان باللہ کہلانے کا مستحق ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے ایمان کا بہت بڑا رکن ایمان بالرسول ﷺ تھا۔ اس لئے مَن آمَنَ باللّٰہ کے لفظوں میں خود ایمان بالرسول داخل ہے۔
Top