Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالصّٰبِئُوْنَ : اور صابی وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کے دن وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک (عام قانون و ضابطہ یہی ہے کہ) مسلمانوں، یہودیوں، مشرکوں، اور نصرانیوں، میں سے جو بھی کوئی ایمان لائے گا سچے دل سے، اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، اور (اس کے مطابق) وہ کام بھی نیک کرے گا، تو ایسوں پر نہ کوئی خوف ہوگا، اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے،1
173 ہدایت سے سرفرازی کے لیے قانون عام کا ذکر وبیان : سو اس ارشاد نور حق و ہدایت سے سرفرازی کیلئے قانون عام کا ذکر وبیان فرما دیا گیا۔ یعنی مسلمان اور غیر مسلمان سب کیلئے قانون و قاعدہ اور دستور و ضابطہ ایک ہی ہے کہ جو بھی کوئی اخلاص نیت اور صدق دل سے ایمان لائے گا اور اس کے تقاضے پورے کرے گا اسی کے لئے ہے دارین کی سعادت و کامرانی۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ اور یہی تقاضا ہے عدل و انصاف اور عقل و فطرت کا۔ اس میں کسی خاندانی امتیاز یا شکل و صورت یا قوم قبیلہ یا رنگ و نسل وغیرہ کے کسی فرق وتمیز کا کوئی دخل نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز انسان کے اپنے بس میں نہیں۔ اور جو چیز کسی کے بس اور اختیار میں نہ ہو اس کا کسی کو مکلف نہیں بنایا جاسکتا۔ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کو محض اس کی کسی قبیلائی یا خاندانی نسبت وغیرہ کی بنا پر کوئی درجہ اور مرتبہ و مقام نہیں مل سکتا جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے بعض گروہوں کا کہنا اور ماننا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 174 صابئین سے کون مراد ہیں ؟ : " صابئین " کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک گروہ تھا جو کہ ستاروں کی پوجا کرتا تھا۔ اور بعض نے کہا کہ یہ فرشتوں کی پوجا کرنے والا ایک گروہ تھا۔ اور بعض نے ان کے بارے میں بعض دوسرے اقوال ذکر کئے ہیں۔ (جامع البیان وغیرہ) ۔ جو بھی ہو بہرکیف یہ مشرکوں ہی کا ایک گروہ تھا۔ اس لئے ہم نے اس لفظ کا ترجمہ مشرکوں سے کیا ہے کہ یہ لوگ عام مشرکوں میں سے کوئی خاص گروہ تھا۔ بہرکیف ان تمام گروہوں میں سے جو بھی کوئی صدق دل سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا وہ مراد کو پا جائے گا۔ اور اگر ایمان و عمل صالح کی یہ دولت حاصل نہ ہو تو اس کی خداوند قدوس کے یہاں کوئی بھی حقیقت اور حیثیت نہیں اگرچہ وہ مسلمانوں کے گروہ ہی سے وابستہ اور ان سے تعلق رکھتا ہو۔ اور اگر ایمان اور عمل صالح کی دولت کسی کو حاصل ہو تو وہ فائز المرام ہے اگرچہ اس کا تعلق صابئین کے غیر معروف مشرک گروہ ہی سے کیوں نہ ہو۔ سو اصل چیز ایمان و یقین اور اطاعت و فرمانبرداری ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَ یُرِیْدُ- 175 مدار نجات ایمان وعمل اور بس : سو نجات اور فوز و فلاح کا مدار شریعت محمدیہ کے اتباع پر ہے اور بس۔ اور ایمان صادق اور عمل صالح کی یہ دولت تب ہی مل سکے گی اور اس کے نتائج وثمرات سے متعلق یہ سب کچھ تب ہی متحقق ہو سکے گا جبکہ شریعت محمدیہ کو دل و جان سے اپنا لے۔ اس کے مطابق اس کا ایمان و عقیدہ بھی سچا ہو اور عمل و کردار بھی صحیح اور درست ہو۔ کیونکہ اس کامل اور ابدی صداقت کے ظہور کے بعد اس کے سوا فلاح و نجات کا اور کوئی طریقہ نہیں۔ اور قرآن و سنت کی نصوص کریمہ میں اس حقیقت کو طرح طرح سے اجاگر و آشکار فرمایا گیا ہے۔ مثلاً نبی کریم ﷺ نے مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ آج اگر موسیٰ بذات خود زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی و اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو یہ اصولی، جامع اور اہم تعلیم دی کہ تم لوگ اتباع کرو اور دین متین میں نئی بات نکالنے سے بچو۔ سو مدار نجات اور ذریعہ فوز و فلاح شریعت محمدیہ کی اتباع پر ہے۔ اور حق و ہدایت کی نعمت و دولت اس کے سوا اور کہیں سے نہیں مل سکتی۔ پس جو لوگ اس شریعت مقدسہ پر ایمان و یقین اور اس کی اتباع و پیروی سے محروم ہیں وہ نور حق و یقین اور دولت حق و ہدایت سے قطعی طور پر محروم ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ خواہ ایسے لوگ کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں کہ مدارو انحصار محض زبانی کلامی دعو وں پر نہیں ایمان و عمل پر ہے ۔ وباللہ التوفیق - 176 اتباع حق ذریعہ نجات و سرفرازی : سو دین کے سچے پیروکاروں کیلئے قیامت کے روز کوئی فکر نہ ہوگا۔ وہاں کے اہوال و مخاوف سے اور آئندہ کے بارے میں کہ سچے ایمان کی دولت ان کو وہاں حقیقی اور دائمی امن وامان سے سرفراز کردے گی۔ اور۔ { لا یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الاَکْبَرُ } ۔ کا مژدئہ جانفزا ان کو وہاں سنایا جاچکا ہوگا۔ اور اللہ کے نوری فرشتے بڑھ بڑھ کر ان کا وہاں استقبال کر رہے ہونگے ۔ { وَتَتَلَقّٰاہُمُ الْمَلٓئِکَۃُ } ۔ اور ان کو عظیم الشان بشارتوں سے نواز رہے ہوں گے ۔ { ھذا یومُکُمُ الّذیْ کُنْتُمْ تُوْعدُونَ } ۔ اللہ ہمیں انہی کے زمرے میں محشور فرمائے ۔ آمین۔ سو دین حنیف کی سچی پیروی انسان کو دارین کے مخاوف و مہالک سے بچانے والی اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و سرفراز کرنے والی ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق ۔ سو جن لوگوں کی فکر پاک و صاف ہوگی اور وہ ایمان و یقین اور عمل صالح کی پونجی سے سرفراز ہوں گے وہ اپنے خالق ومالک کے فضل و کرم اور اس کی توفیق و عنایت کی بنا پر سکون و اطمینان قلب کی ایسی دولت سے مالامال ہوں گے کہ وہ آئندہ کے حوادث و اَہوال کے غم سے آزاد اور مطمئن ہوں گے۔ اور اس دنیا میں بھی ان کو یہ سعادت نصیب ہوگی لیکن اس کا آخری اور کامل ظہور آخرت میں ہوگا ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَھُوَ الہادی اِلٰی سوائِ السَّبیل - 177 ایمان وسیلہ امن وامان : سو اہل ایمان پر وہاں کوئی غم نہیں ہوگا۔ یعنی دنیا اور اس کی زندگی پر کہ دنیا میں انہوں نے اپنی زندگی صحیح راہ پر صرف کی ہوگی جس کا ثمرہ انہیں وہاں نصیب ہوگا۔ اور دنیاوی مال و دولت کی آخرت کی ان نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہوگی۔ تو پھر دنیا پر افسوس کا ہے کا ؟۔ سو یہ پھل ہے سچے ایمان و عقیدہ کا کہ یہ انسان کو حقیقی امن و اطمینان کی اس عظیم الشان دولت سے نوازتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی جہاں کی کامیابی حقیقی کامیابی ہے ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِنِعْمَۃِ الاِیْمَانِ بِمَحْضِ مَنِّہٖ وَکَرَمِہٖ جَلَّ وَعَلَا ۔ سو اس سے ایمان و یقین کی دولت بےمثال کی عظمت شان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہی وہ دولت ہے جو انسان کو ماضی کے غم واندوہ اور مستقبل کے خوف و اندیشہ سے محفوظ رکھتی ہے۔ جس سے بندئہ مومن سکون و اطمینان کی ایسی بےمثال دولت نادیدہ سے سرشار ہوتا ہے جس کو سمجھنے سے دنیا عاجز و قاصر ہے۔ سو صدق ایمان سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ اَللّٰھُمَّ زِدْنَا مِنْہُ وَثبتنَا عَلَیْہ یَا مَنْ لَاحَدَّ لجُوْدِہٖ و اِحْسَانِہٖ-
Top