Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالصّٰبِئُوْنَ : اور صابی وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کے دن وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی فرقے والے اور نصرانی جو شخص ان میں سے ایمان لایا اللہ پر اور قایمت کے دن پر اور اس نے اچھا عمل کیا پس نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے
ربط آیات گزشتہ درس میں پیغمبر (علیہ السلام) کو تاکید اً فرمایا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچائیں اور لوگوں کی طرف سے خوف نہ کھائیں ، اللہ خود آپ کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا۔ پھر اہل کتاب کے متعلق فرمایا کہ ان سے کہ دین کہ تمہارا دین اور مذہب کچھ نہیں۔ جب تک تم کتب سماویہ کو قائم نہ کرو مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن پاک کا جو حصہ نازل ہوتا ہے وہ ان اہل کتاب کے لئے مزید سرکشی اور کفر کا باعث بنتا ہے۔ نیز فرمایا کہ آپ ان کی حالت پر افسوس نہ کریں ، بلکہ اپنا فریضہ تبلیغ دین ادا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ خود ان لوگوں کو سزا دے گا۔ اب آج کے دس میں اہل کتاب اور دیگر فرقوں کے لئے ترغیب ہے کہ ان کی فلاح صرف ایمان اور نیک اعمال پر ہے ، کامیابی کا مدار کوئی فرقہ یا پارٹی نہیں ، تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایمان اختیار کرنے کے بعد اعمال صالحہ پر کار بند ہوجائیں ، اسی میں سب کی نجات ہے اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے کہ جب بھی ان کے پاس اللہ کے رسول آئے انہوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی ، ان کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کردیا۔ اہل ایمان ارشاد ہوتا ہے ان الذین امنوا بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے یعنی حضور لعیہ السلام والسلام کی بعثت کے بعد جو اللہ تعالیٰ اور آپ کی رسالت پر ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کو مانے ، اس کی صفات کمال پر یقین اور اس کے اسمائے مبارکہ کی تصدیق کرے۔ یہاں پر ایمان کا اجمالاً ذکر کیا گیا ہے جب کوئی شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے ، تو اسے اس کے رسولوں پر بھی ایمان لانا ہوگا کیونکہ رسولوں کو بھیجنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل ہے اور جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے گا وہ اس کی صفات کو بھی مانے گا ، لہٰذا اللہ پر ایمان لانے میں رسولوں پر ایمان لانا بھی شامل ہے۔ سورة بقرہ کی آخری سے پہلی آیت میں موجود ہے کل امن باللہ وملٓئکتہ و کتبہ و رسلہ گویا ایمان باللہ میں اس کے ملائکہ ، کتب اور رسولوں پر ایمان لانا بھی شامل ہے۔ رسولوں کی بعثت کے متعلق خاص طور پر فرمایا رسلاً مبشرین و منذرین (النسائ) ہم نے رسولوں کو بھیجا جو کہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں۔ بعض لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔ مگر یہ بھی اللہ کی صفات میں شامل ہے۔ جیسے فرمایا ” خلق کل شیء فقدرہ تقدیراً “ (فرقان) اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ ٹھہرایا۔ جو شخص تقدیر کا انکار کرے گا۔ وہ بھی ایمان سے خالی سمجھا جائے گا۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ جو شخص جزائے عمل کا انکار کرے۔ وہ بھی کافر ہے اور اگر کسی کا اعتقاد یہ ہو کہ اللہ نے پیدا تو کیا ہے مگر اس نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ کتاب نازل کی ہے اور نہ وہ انسانوں پر گرفت کرتا ہے تو پھر بھی کافر ہوگا ، کیونکہ قرآن پاک میں صریحاً موجود ہے ” ومن یکفر باللہ وملٓئکتہ وکتبہ و رسلہ والیوم الاخر فقد ضل ضلاً بعیداً (النسائ) یعنی جو اللہ تعالیٰ ، اس کے ملائکہ ، کتابوں ، رسولوں اور یوم جزاء کا انکار کرتا ہے۔ وہ گمراہی میں دور جا پڑا۔ ملائکہ اللہ کے سفیر ہیں۔ وہ خلاق اور مخلوق کے درمیان پیغام رسانی کا ذریعہ ہی۔ لہٰذا ان پر ایمان لانا بھی لازم ہے۔ یہ سب چیزیں اجزائے ایمان ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے کہیں بدن کا اجمالاً ذکر کیا ہے اور کہیں تفصیلاً ایمان کی جزیات میں سے کسی ایک جزو کا انکار بھی مکمل انکار کے مترادف ہے تو یہاں پر فرمایا کہ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔ اور اس سے مراد خالی دعویٰ ایمان نہیں ب ل کہ جو صحیح طور پر تمام اجزاء پر ایمان لائے گا اور پھر آگے اعمال صالحہ کا ذکر ہے۔ یہودی فرقہ۔ فرمایا جو لوگ ایمان لائے والذین ھادوا ۔ اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے یعنی جو لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں ان کی شریعت پر ایمان لائے۔ آپ کی قوم کا نام یہودی دو وجوہات کی بناء پر ہے پہلی اور زیادہ صحیح وجہ یہ ہے ک ہجب امت کے لوگوں سے غلطی ہوگئی۔ انہوں نے کوہ طور پر اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ستر آدمیوں کو ہلاک کردیا ، پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور عرض کیا ” انا ھدنا الیک “ (اعراف) اے اللہ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں ت و ہماری توبہ قبول فرما لے۔ چناچہ لفظ ھدنا سے ان کا لقب یہودی مشہور ہوگیا بعض دور سے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہودی چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہوداہ کی اولاد سے ہیں اس لئے انہیں یہودی کہ جاتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ خواہ وہ اہل ایمان ہوں یا یہود ہوں۔ صابی فرقہ۔ والصبون اور جو صابی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس فرقے کا نام قرآن پاک میں متعدد بار آیا ہے ۔ مگر اس گروہ کے ٹھیک ٹھیک تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ستاروں میں کرشمہ ماننے والے اور ان کی پرستش کرنے والے صابی ہیں اور بعض کی تحقیق یہ ہے کہ یہ فرقہ ہندوستان کے برہمو سماج فرقہ سے ملتا جلتا فرقہ ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب سے اچھی اچھی چیزوں کا انتخاب کر کے ایک نیا مذہب ایجاد کرلیا ہے۔ اس مذہب کی اپنی بنیاد کچھ نہیں۔ بنگال کا نوبل انعام یافتہ فلسفی ٹیگور اس فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہندوئوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ جیسے جین ، سناتن دھرمی ، آریہ سماجی وغیرہ مگر یہ سب کے سب مشرک ہیں۔ آریہ سماجیوں نے شرک سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر پھر بھی وہ تین معبودوں پر آ کر ٹھہر گئے۔ عیسائیوں کی طرح وہ بھی تثلیث کے چکر میں پھنس گئے ہیں۔ ان کے تین خدائوں میں سے مادہ اور روح قدیم ہیں اور تیسرے خدا بر ہماجی مہاراج ہیں۔ بہرحال صابی فرقہ بھی ان سے ملتا جلتا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی نے بھی لفظ صافی کی تحقیق کی ہے وہ اپنی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرہ “ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت شیث (علیہ السلام) کی اولاد میں سے چوتھے پانچویں درجے پر ان کا پڑپوتا برد نامی تھا۔ اس کے ہاں اخنوخ پیدا ہوئے۔ جنہیں ہر مس بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک نے ان کا نام ادریس (علیہ السلام) بتایا ہے۔ آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اور ان پر کئی صحیفے بھی نازل ہوئے۔ آگے ان کی اولاد میں صابی نامی ایک شخص ہوا جس کے نام پر صابی مذہب جاری ہوا۔ ابتداً یہ مذہب صحیح تھا مگر دیگر مذاہب کی طرح بعد میں اس میں بھی بگاڑ پیدا ہوگیا۔ اس وقت کے صابی مذہب کے چار بنیادی اصول تھے یعنی توحید ، طہارت ، نماز اور روزہ ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور تک بگڑتے پگڑتے اس مذہب کے لوگ ستارہ پرستی میں ڈوب چکے تھے اصل توحید غائب ہوچکی تھی اور شرک کا دور دورہ تھا۔ پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ آیا تو صابی دور ختم ہو کر دور حقیقت کا آغاز ہوا۔ ” قل بل ملۃ ابراہیم حنیفاً ط و ما کان من المشرکین “ (بقرہ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ صابی زبور کی تلاوت کرتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ ان کا تلبس ستارہ پرستی کے ساتھ تھا ، اسی لئے بعض لوگ صابی کا ترجمہ ستارہ پرست کردیتے ہیں بہرحال یہ بھی ایک باقاعدہ فرقہ تھا جس کا ذکر یہاں پر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ یہاں پر امام جلال الدین سیوطی کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ آپ نویں اور دسویں صدی ہجری کے حافظ الحدیث میں آپ کو ایک لاکھ حدیثیں سند اور متن کے ساتھ زبانی یاد تھیں آپ سے پہلے ہر دور میں ہزاروں حافظ الحدیث ہوئے ہیں مگر آپ کے بعد کوئی حافظ الحدیث دنیا میں نہیں ملا ، جسے ایک لاکھ حیدثیں ازبر ہوں۔ البتہ شاہ اسماعیل شہید کو تیس ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ ہمارے دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر مدرس مولانا انور شاہ کشمیری کو مکمل بخاری شریف نوک زبان تھی مگر حافظ الحدیث وہ بھی نہ تھے۔ آپ (امام جلال الدین سیوطی) کی عمر تو ساٹھ پینسٹھ سال سے زیادہ نہیں مگر آپ نے پانچ سو سے زیادہ ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔ اللہ نے بےپناہ صلاحیت سے نواز تھا حضرت مولانا شاہ اشراف علی تھانوی بھی ہمارے اسی دور میں ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمر بھی اسی یا چوراسی سال عطا کی۔ آپ کی چھوٹی موٹی تمام تصانیف پندرہ سو کے قریب ہیں جن میں تفسیر ، حدیث ، قرأت ، تجوید ، تصوف ، سلوک وغیرہ کے مضامین شامل ہیں آپ نے کئی شر میں بھی لکھی ہیں یہ اللہ کی خاص توفیق ہے جسے عطا کر دے۔ آپ ہر روز دس پاروں کی تلاوت بھی فرماتے تھے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن کا بھی یہی معمول تھا۔ یہی دستور امام محمد کا بھی تھا۔ آپ بھی ہر روز دس پارے تلاوت کرتے تھے۔ عیسائی فرقہ : - اہل ایمان ، یہودی اور صابی فرقہ کے بعد فرمایا و النصری اور نصرانی فرقہ والے بھی۔ نصاریٰ ، نصرانی کی جمع ہے اور اس کی بھی دو وجوہات تسمیہ بیان کی جاتی ہیں۔ نصرانی نصرت سے ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف پہنچاتے تو آپ لوگوں کو مخاطب فرما کر کہتے ” من انصاری الی اللہ “ (سورۃ صف) اللہ کے راستے میں کون میری مدد کرے گا ” قال الحواریون نحن انصار اللہ تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے راستے میں مدد کے لئے تیار ہیں۔ چناچہ اسی لفظ سے ان کو نصاریٰ کا نام دیا گیا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مدد کرنے والے۔ مفسرین اس نام کی دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جس بستی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) رہتے تھے اس بستی کا نام ناصرہ تھا۔ چناچہ اس بستی کی نسبت سے اس گروہ کو نصرانی کا لقب دیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح شام کے رہنے والے کو شامی یا مدینے کے رہنے والے کو مدنی کہا جاتا ہے۔ مذاہب کا بگاڑ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان یہودی اصابی اور نصرانی فرقے کا ذکر کیا ہے ، البتہ سورة حج میں اللہ تعالیٰ نے بعض دیگر فرقوں کا تذکرہ بھی کیا ہے اور مجوسیوں اور مشرکوں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے۔ اہل ایمان کے علاوہ باقی فرقے اپنے اپنے ابتدائی دور میں صحیح دین پر تھے مگر بعد میں ان میں بگاڑ پیدا ہوتا چلا گیا اور یہ اپنے اصل دین سے ہٹ کر کفر ، شرک اور گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات پر ایمان لانے والے اولین لوگ بالکل صحیح تھے مگر بعد میں آنے والوں نے تورات میں تحریف کر کے اصل چیزیں نکال دیں اور گمراہی کی باتیں داخل کردیں اسی طرح انجیل بھی اللہ کی نازل کردہ کتاب تھی مگر حضرت عیسیٰ السلام کے بعد یہ کتاب بھی تحریف کا شکار ہوگئی اور اس کے ماننے والے کفر اور شرک میں مبتلا ہوگئے اس کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔ ان بگڑے ہوئے ادیان کو ماننے والے یہودی اور نصرانی کہلاتے ہیں۔ صابی فرقہ کے متعلق بھی عرض کردیا ہے کہ اس کے اصل چار اصول دین حق پر مبنی تھے مگر بعد کے آنے والوں نے اس میں طرح طرح کی خرابیاں داخل کردیں اور اس میں ستارہ پرستی آگئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی بجائے دین حنیف نازل فرمایا۔ نزول قرآن کے زمانہ میں شرک شرک تو پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔ عرب اور ہندوستان شرک میں یکساں طور پر ملوث تھے۔ مجوسی یعنی آتش پرست بھی ہزاروں سال سے چل آ رہے تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ آگ میں کرشمہ مانتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ا ن کو پارسی بھی کہا جاتا ہے۔ بمبئی اور کراچی میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کے اصل مذاہب کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ کیا تھا اور پھر بگڑ کہ کس طرح موجودہ مجوسی فرقہ بن گیا۔ ہندوستان سے پیدا ہونے والے بدھ مذہب کی بھی اصل تاریخ نامعلوم ہے تین ہزار سال پرانا یہ مذہب شرق الہند ، چین ، ویت نام ، تبت وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کرشن بھی مہاراج کے اصل مذہب کے متعلق بھی کچھ علم نہیں کیونکہ ہندوستان کی تاریخ تو بالکل نایاب ہے ، حالانکہ یہودیوں ، ایرانیوں اور پارسیوں کی تاریخ کا کچھ حصہ ملتا ہے جس سے ان کے اصل مذہب کا کچھ نہ کچھ پتہ چلتا ہے۔ مگر ہندو مذاہب اس معاملہ میں بالکل تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کرشن جی مہاراج اور رام چندر پانچ ہزار سال پہلے ہوئے ہیں مگر ان کی اصل تعلیمات کے متعلق کوئی سند نہیں ملتی۔ ان کی طرف منسوب کئے جانے والا ہندو مذہب تو بالکل شرک ہے مگر یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کرشن اور رام چندر کا بھی یہی مذہب تھا یا کچھ اور تھا۔ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان الغرض ! اللہ نے ان تما م فرقوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا من امن باللہ والیوم الاخر ان میں سے جو بھی اللہ تعالیٰ اور یوم جزاء پر ایمان لایا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات ، اس کی صفات ، اس کے اسماء پر ایمان لایا جائے۔ پھر اس کے رسولوں اور کتابوں کو برحق تسلیم کیا جائے اور سا کے فرشتوں پر ایمان لایا جائے جو پیغام رسانی کے لئے سفیر ہیں۔ گویا ایمان کے تمام اجزاء پر مکمل یقین کیا جائے اور پھر سب سے آخر میں جزائے عمل یعنی قیامت کے دن پر مکمل ایمان ہو کر ایک وقت آنے والا ہے جب اللہ کی بارگاہ میں ہر عمل کا محاسبہ ہوگا۔ گویا ایمان اور جزائے عمل لازم و ملزوم ہیں اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ حدیث جبرائیل میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ ایمان ، اسلام اور احسان کے متعلق سوال کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) کا اگلا سوال ہی تھا۔ متی الساعتہ حضرت ! یہ بتائیے قیامت کب آئے گی ، یعنی جزائے عمل کب واقع ہوگی۔ حضور ﷺ نے یہی جواب دیا تھا کہ قیامت کے آنے کے وقت کے متعلق جس طرح تجھے معلوم نہیں اسی طرح مجھے بھی معلوم نہیں۔ اللہ ہی کو اس کا علم ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ مگر آئے گی یقینا حضور ﷺ نے اس کی بعض نشانیاں بیان فرما دیں۔ محمد ثین کرام فرماتے ہیں کہ پورے دین کا خلاصہ ایمان ، اسلام اور احسان میں ہے اور ان سب کا نتیجہ جزائے عمل ہے لہٰذا قیامت کے دن پر ایمان لانا بھی جز و ایمان ہے۔ جزائے عمل فرمایا ان تمام جزیات پر محض زبانی ایمان لے آناہی کافی نہیں بلکہ و عمل صالحاً اس کے ساتھ نیک عمل کرنے کی شرط بھی موجود ہے ۔ ایمان لانے کے بعد جو شخص اچھا عمل کرے گا ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، جہاد ، صدقہ خیرات وغیرہ اعمال حسنہ بھی انجام دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اعمال قبیحہ یعنی کفر ، شرک ، نفاق ، بدعت ، ریا کاری ، ظلم تعدی ، زنا ، چوری وغیرہ سے اجتناب کرے گا ، اس کے لئے جزا کا ذکر آگے کیا گیا ہے۔ غرضیکہ ہر وہ عمل ، عمل صالح ہے جس کو عقل سلیم بھی اچھا سمجھتی ہے اور ہر وہ عمل عمل قبیح ہے جو عقل سلیم کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ غرضیکہ ! فرمایا اہل ایمان ہوں یا یہودی۔ صابی ہوں یا نصاریٰ ان میں سے ، جو بھی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لا کر صحیح راستے پر گامزن رہا فلا خوف علیھم ان پر کوئی خوف علیھم ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا ولا ھم یحزنون اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جس شخص کی فکر پاک ہے اور وہ اعمال صالحہ انجام دے رہا ہے اس کو آنے والے واقعات سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور نہ وہ گزشتہ واقعات پر غمگین ہوگا۔ غمگین تو وہ ہوگا جو ایمان سے (1 ؎ بخاری صفحہ 12 , 13 (فیاض) خالی ہوگا اور جس نے برے اعمال انجام دیئے ہوں گے۔ وہ اس وقت کف فسوس ملے گا کہ اللہ تعالیٰ نیزندگی میں موقع دیا ، صحت و تندرسی جیسی عظیم نعمت دی عقل و شعور بخشا ، ہدایت کے تمام سامان مہیا کئے مگر وہ ان ذرائع سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکا ، ایسے لوگ فی الواقغ غمگین ہوں گے۔ معیار نجات : - اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی بھی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے۔ جس کا ایمان درست ہے اور وہ اعمال صالحہ بھی انجام دیتا ہے ، نجات اسی کا حق ہے۔ محض کسی فرقے کے ساتھ نسبت ہونا نجات کا معیار نہیں ہے یہودی اور نصرانی کہتے تھے۔ ” لن یدخل الجنۃ الا من کان ھوداً او نصری (بقرۃ) یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ مگر اللہ نے فرمایا ” بلی من اسلم وجھہ للہ وھو محسن (بقرہ) نجات اس کو نصیب ہوگی جس نے اللہ تعالیٰ کی مکمل فرمانبرداری اختیار کی اور وہ نیک اعمال انجام دینے والا ہو۔ خود ساختہ اور باطل معیار نجات اب اس آخری امت میں بھی رائج ہوچکا ہے۔ آج بھی لوگوں کا ایمان ہے کہ امام حسنی کا نام لے لو اور تعزبہ نکال لو ، تو جنت تمہارے مقدر میں ہے دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ محض محفل میلاد منعقد کرنے سے ہی بیڑا پار ہوجائے گا ، کوئی کہتا ہے فلاں بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دو یا فلاں بزرگ کا دامن پکڑ لو تو سیدھے جنت میں چلے جائو گے۔ کوئی عرس کرانے اور قوالی کرانے کو ہی نجات کا معیار سمجھتا ہے۔ مگر اللہ نے فرمایا یہ کامیابی کے نہیں بلکہ ناکامی کے اسباب ہیں۔ جب تک صحیح ایمان اور عمل صالح نہیں ہوگا ، نجات کی امید محض سراب ہوگا۔ خواہشات نفسانی اصول نجات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کردار کو بطور مثال پیش کیا ہے کہ دیکھو ! لقد اخذنا میثاق بنی اسرآئیل ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا و ارسلنا الیھم رسلاً اور ان کی طرف رسول بھیجے۔ کلما جآء ھم رسول بما لا تھوی انفسھم جب بھی ان کے پاس کوئی رسول ایسی چیز لے کر آیا جن کو ان کے نفس پسند نہیں کرتے تھے فریقہ اکذبوا و فریقاً یقتلون تو انہوں نے انبیاء کے ایک گروہ کو جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کردیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور زکریا (علیہ السلام) انہی بنی اسرائیلوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اس سے پہلے وہ سینکڑوں نبیوں کو قتل کرچکے تھے مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ اصل بیماری خواہشات نفسایز ہے اگر یہ پوری ہوگئی تو مان لیا ورنہ انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ خواہش نفسانی بد ترین معبود ہے جس کی جگہ جگہ پوجا ہو رہی ۔ تمام اقوام عالم اور خود مسلمان اس بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کا نبی تو پاکیز ہ چیز لے کر آیا ہے لہٰذا اپنی خواہشات کو ترک کر کے اس کے دامن سے وابستہ ہو جائو۔ اس کے لائے ہوئے دین کی اتباع کرو گے تو نجات حاصل ہوگی ، ورنہ نہیں۔ فرمایا حسبوا الا تکون فتنۃ یہ بدعقیدہ اور بد کردار لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں ، کوئی فتنہ نہیں ہوگا ، اور پھر اسی زعم میں فعموا و صموا و ہاندھے اور بہرے ہوگئے۔ نہ ان کی آنکھیں حق بات دیکھنے کے لئے تیار ہوئیں اور نہ ان کے کان حق کا پیغام سننے کے لئے وا ہوئے۔ پھر اس کے بعد پے در پے اللہ کے نبی آتے رہے اور انہیں حق کا راستہ دکھانے کی کوشش کرتے رہے حتی کہ مسیح (علیہ السلام) کا دور آ گیا لم تاب اللہ علیھم اللہ تعالیٰ انہیں بار بار توبہ کا موقع دیتا رہا لم عموا وصموا کثیر منھم پھر بھی ان میں سے اکثر اندھے اور بہرے ہی رہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة حج میں یوں بیان فرمایا ہے ” فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور “ فرمایا اکثر و بیشتر ان کی ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے دل کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ درصال ان کی بصیرت ہی خراب ہوجاتی ہے۔ انسان حق کو قبول ہی نہیں کرتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان پھر نہ معروف کو معروف سمجھتا ہے اور نہ منکر کو منکر سمجھتا ہے۔ اس کو وہی چیز اچھی معلوم ہوتی ہے جو اس کی خواہش کے مطابق ہو۔ اس کے نزدیک نیتی اور بدی کا معیار نفسانی خواہش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اندھا اور بہرہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔ فرمایا واللہ بصیر بما یعملون اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ وہ ہر فرقے اور پارٹی کا محاسبہ خود کریگا اور ان سے دریافت کریگا کہ حق بات کو چھوڑ کر تم نے خواہشات نفسانیہ کا اتباع کیوں کیا اور میری ارسال کردہ ہدایت کو کیوں تسلیم نہ کیا میں نے تو پہلے دن تمہیں آگاہ کردیا تھا کہ میری نبی آئیں گے اور وہ ہدایت کا پیغام تمہیں پہنچائیں گے اور پھر ” فمن تبع ھدی فلا خوف علیھم ولا ھم تحزنون “ (البقرہ) جو میری ہدایت پر عمل کریں گے وہی خوف و خطر سے مامون ہوں گے اور وہی فلاح پانے والے ہوں گے مگر تم نے دوسرا راستہ اختیار کیا تو تمہارے تمام اعمال اللہ کی نگاہ میں ہیں ، وہ خود وقت آنے پر محاسبہ کرلے گا۔
Top