Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
تو کہہ اے اہل کتاب مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں ناحق کا اور مت چلو خیالات پر ان لوگوں کے جو گمراہ ہوچکے پہلے اور گمراہ کر گئے بہتوں کو اور بہک گئے سیدھی راہ سے
خلاصہ تفسیر
آپ ﷺ (ان نصاریٰ سے) فرمائیے کہ اے اہل کتاب تم اپنے دین (کے معاملہ) میں ناحق کا غلو (اور افراط) مت کرو اور اس (افراط کے باب) میں ان لوگوں کے خیالات (یعنی بےسند باتوں) پر مت چلو جو (اس وقت سے) پہلے خود بھی غلطی میں پڑچکے ہیں اور (اپنے ساتھ) اور بہتوں کو (لے کر ڈوبے ہیں اور) غلطی میں ڈال چکے ہیں اور (وہ ان کی غلطی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ حق مفقود ہوگیا ہو اس کا پتہ نہ لگتا ہو بلکہ) وہ لوگ راہ راست (کے ہوتے ہوئے قصداً اس) سے دور (اور علیحدہ) ہوگئے تھے (یعنی جب ان کی غلطی دلائل سے ثابت ہوگئی پھر ان کا اتباع کیوں نہیں چھوڑتے) بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے ان پر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت) لعنت کی گئی تھی (زبور اور انجیل میں جس کا ظہور حضرت) داود ؑ اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم ؑ کی زبان سے (ہوا یعنی زبور اور انجیل میں کافروں پر لعنت لکھی تھی، جیسے قرآن مجید میں بھی ہے (آیت) فلعنة اللہ علیہ الکفرین، چونکہ یہ کتابیں حضرت داود اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل ہوئیں، اس لئے یہ مضمون ان کی زبان سے ظاہر ہوا اور) یہ لعنت اس سبب سے ہوئی کہ انہوں نے حکم کی (اعتقادی) مخالفت کی (جو کہ کفر ہے) اور (اس مخالفت میں) حد سے (بہت دور) نکل گئے (یعنی کفر بھی شدید تھا، پھر شدید کے ساتھ مدید بھی تھا۔ یعنی اس پر استمرار رکھا، چنانچہ) جو برا کام (یعنی کفر) انہوں نے (اختیار) کر رکھا تھا اس سے (آئندہ کو) باز نہ آتے تھے (بلکہ اس پر مصر تھے، پس ان کے کفر شدید اور مدید کے سبب ان پر شدید لعنت ہوئی) واقعی ان کا (یہ) فعل (مذکور یعنی کفر پھر وہ بھی شدید اور مدید) بیشک برا تھا (کہ اس پر یہ سزا مرتب ہوئی) آپ ﷺ ان (یہود) میں بہت سے آدمی دیکھیں گے کہ (مشرک) کافروں سے دوستی کرتے ہیں (چنانچہ یہود مدینہ اور مشرکین مکہ میں مسلمانوں کی عداوت کے علاقہ سے جس کا منشاء اتحاد فی الکفر تھا باہم خوب سازگاری تھی) جو کام انہوں نے آگے (بھگتنے) کے لئے کیا ہے (یعنی کفر جو سبب تھا دوستی کفار اور عداوت مؤمنین کا) وہ بیشک برا ہے کہ (اس کے سبب) اللہ تعالیٰ ان پر (ہمیشہ کے لئے) ناخوش ہوا اور (اس ناخوشی دائمی کا ثمرہ یہ ہوگا کہ) یہ لوگ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے، اور اگر یہ (یہودی) لوگ اللہ پر ایمان رکھتے اور پیغمبر (یعنی موسیٰ علیہ السلام) پر (ایمان رکھتے جس کا ان کو دعویٰ ہے) اور اس کتاب پر (ایمان رکھتے) جو ان (پیغمبر) کے پاس بھیجی گئی تھی (یعنی تورات) تو ان (مشرکین) کو دوست نہ بناتے، لیکن ان میں زیادہ لوگ (دائرہ) ایمان سے خارج ہی ہیں (اس لئے کافروں کے ساتھ ان کا اتحاد اور دوستی ہوگئی)۔

معارف و مسائل
بنی اسرائیل کی کجروی کا ایک دوسرا پہلو
(قولہ تعالیٰ) قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ پچھلی آیات میں بنی اسرائیل کی سرکشی اور ان کے ظلم کو بیان کیا گیا تھا، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول جو ان کے لئے حیات جاودانی کا پیغام اور ان کی دنیا و آخرت سنوارنے کا دستور العمل لے کر آئے تھے ان کی قدر ومنزلت پہچاننے اور تعظیم و تکریم کرنے کے بجائے انہوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا کہ، (آیت) فریقا کذبوا وفریقا یقتلون، یعنی بعض انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کر ڈالا۔
مذکورہ آیات سے انھیں بنی اسرائیل کی کجروی کا دوسرا رخ بتلایا گیا ہے کہ یہ جاہل یا تو سرکشی اور نافرمانی کے اس کنارے پر تھے کہ اللہ کے رسولوں کو جھوٹا کہا، اور بعض کو قتل کر ڈالا، اور یا گمراہی اور کجروی کے اس کنارے پر پہنچ گئے کہ رسولوں کی تعظیم میں غلو کرکے ان کو خدا ہی بنادیا، (آیت) لقد کفر الذین قالو ان اللہ ھو المسیح ابن مریم۔ یعنی وہ بنی اسرائیل کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ اللہ تو عیسیٰ ابن مریم ہی کا نام ہے۔
یہاں تو یہ قول صرف نصاریٰ کا مذکور ہے۔ دوسری جگہ یہی غلو اور گمراہی یہود کی بھی بیان فرمائی گئی ہے(آیت) وقالت الیھود عزیر ابن اللہ وقالت النصریٰ المسیح ابن اللہ، یعنی یہود نے تو یہ کہہ دیا کہ حضرت عزیر ؑ اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے یہ کہہ دیا کہ عیسیٰ ابن مریم ؑ اللہ کے بیٹے ہیں۔
غلو کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں۔ دین میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ اعتقاد و عمل میں دین نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھ جائیں مثلاً انبیاء کی تعظیم کی حد یہ ہے کہ ان کو خلق خدا میں سب سے افضل جانے۔ اس حد سے آگے بڑھ کر انہی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دینا اعتقادی غلو ہے۔
بنی اسرائیل کی افراط و تفریط
انبیاء اور رسل کے معاملہ میں بنی اسرائیل کے یہ دو متضاد عمل کہ یا تو ان کو جھوٹا کہیں اور قتل تک سے دریغ نہ کریں، اور یا یہ زیادتی کہ ان کو خود ہی خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیدیں، یہ وہی افراط وتفریط ہے جو جہالت کے لوازم سے ہے، عرب کا مشہور مقولہ الجاہل اما مفرط اومفرط یعنی جاہل آدمی کبھی اعتدال اور میانہ روی پر نہیں رہتا، بلکہ یا افراط میں مبتلا ہوتا ہے یا تفریط میں۔ افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنے کے ہیں اور تفریط کے معنی ہیں فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور کمی کرنے کے اور یہ افراط وتفریط یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی دو مختلف جماعتوں کی طرف سے عمل میں آئی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی جماعت کے یہ دو مختلف عمل مختلف انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہوئے ہوں کہ بعض کی تکذیب و قتل تک نوبت پہنچ جائے اور بعض کو خدا کے برابر بنادیا جائے۔
ان آیات میں اہل کتاب کو مخاطب کر کے جو ہدایت ان کو اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو دی گئی ہیں وہ دین و مذہب اور اس کی پیروی میں ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہیں کہ اس سے ذرا ادھر ادھر ہونا انسان کو گمراہیوں کے غار میں دھکیل دیتا ہے اس لئے اس کی تشریح سمجھ لیجئے۔
اللہ جل شانہ تک رسائی کا طریقہ
حقیقت یہ ہے کہ سارے جہان اور اس کی موجودات کا خالق ومالک صرف ایک اللہ جل شانہ ہے۔ اسی کا ملک ہے اور اسی کا حکم ہے، اسی کی اطاعت ہر انسان پر لازم ہے۔ لیکن بیچارہ خاکی نژاد انسان اپنی مادی ظلمتوں اور پستیوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس کی ساری رسائی اس ذات قدوس تک یا اس کے احکام و ہدایات معلوم کرنے تک کس طرح ہو، اللہ جل شانہ نے اپنے فضل سے اس کے لئے دو واسطے مقرر کردیئے جن کے ذریعے انسان کو حق تعالیٰ کی پسند و ناپسند اور مامورات و منہیات کا علم ہو سکے، ایک اپنی کتابیں جو انسان کے لئے قانون اور ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی ہیں، دوسرے اپنے ایسے مخصوص و مقبول بندے جن کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے چن لیا ہے اور ان کو اپنی پسند و ناپسند کا عمل نمونہ اور اپنی کتاب کی عملی شرح بنا کر بھیجا ہے، جن کو دینی اصطلاح میں رسول یا نبی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ کوئی کتاب خواہ کتنی ہی جامع اور مفصل کیوں نہ ہو کسی انسان کی اصلاح و تربیت کے لئے کافی نہیں ہوتی، بلکہ فطری طور پر انسان کا مربی و مصلح صرف انسان ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے انسان کی اصلاح و تربیت کے لئے دو سلسلے رکھے، ایک کتاب اللہ اور دوسرے رجال اللہ، جن میں انبیاء (علیہم السلام) اور پھر ان کے نائبین علماء و مشائخ سب داخل ہیں۔ رجال اللہ کے اس سلسلہ کے متعلق زمانہ قدیم سے دنیا افراط وتفریط کی غلطیوں میں مبتلا رہی ہے اور مذاہب میں جتنے مختلف فرقے پیدا ہوئے وہ سب اسی ایک غلطی کی پیداوار ہیں کہ کہیں ان کو حد سے بڑھا کر رجال پرستی تک نوبت پہنچا دی گئی اور کہیں ان سے بالکل قطع نظر کرکے حسبنا کتاب اللّٰہ کو غلط معنٰے پہنا کر اپنا شعار بنا لیا گیا۔ ایک طرف رسول کو بلکہ پیروں کو بھی عالم الغیب اور خاص خدائی صفات کا مالک سمجھ لیا گیا اور پیر پرستی بلکہ قبر پرستی تک پہنچ گئے۔ دوسری طرف اللہ کے رسول کو بھی محض ایک قاصد اور چٹھی رساں کی حیثیت دے دیگئی۔ آیات متذکرہ میں رسولوں کی توہین کرنے والوں کو بھی کافر قرار دیا گیا۔ اور ان کو حد سے بڑھا کر خدا تعالیٰ کے برابر کہنے والوں کو بھی کافر قرار دیا گیا۔ آیت لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ اسی مضمون کی تمہید ہے، جس نے واضح کردیا کہ دین اصل میں چند حدود وقیود ہی کا نام ہے۔ اس حدود کے اندر کوتاہی کرنا اور کمی کرنا جس طرح حرام ہے اسی طرح ان سے آگے بڑھنا اور زیادتی کرنا بھی جرم ہے، جس طرح رسولوں اور ان کے نائبوں کی بات نہ ماننا ان کی توہین کرنا گناہ عظیم ہے اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ کی صفات مخصوصہ کا مالک یا مساوی سمجھنا اس سے زیادہ گناہ عظیم ہے۔
علمی تحقیق و تدقیق غلو نہیں
آیت مذکورہ میں لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ کے ساتھ لفظ غیر الحق لایا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناحق کا غلو مت کرو، یہ لفظ محققین اہل تفسیر کے نزدیک تاکید کیلئے استعمال ہوا ہے، کیونکہ غلو فی الدین ہمیشہ ناحق ہوتا ہے۔ اس میں حق ہونے کا احتمال ہی نہیں اور علامہ زمحشری وغیرہ نے اس جگہ غلو کی دو قسمیں قرار دی ہیں، ایک ناحق اور باطل جس کی ممانعت اس جگہ کی گئی ہے۔ دوسرے حق اور جائز جس کی مثال ہیں انہوں نے علمی تحقیق و تدفیق کو پیش کیا ہے۔ جیسا کہ عقائد کے مسائل میں حضرات متکلمین کا اور فقی مسائل میں فقہاء رحمہم اللہ کا طریقہ رہا ہے، ان کے نزدیک یہ بھی اگرچہ غلو ہے۔ مگر غلو حق اور جائز ہے، اور جمہور کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غلو کی تعریف میں داخل ہی نہیں، قرآن و سنت کے مسائل میں گہری نظر اور موشگافی جس حد تک رسول کریم ﷺ اور صحابہ وتابعین سے ثابت ہے وہ غلو نہیں اور جو غلو کی حد تک پہنچے وہ اس میں بھی مذموم ہے۔
بنی اسرائیل کو معتدل راہ کی ہدایت
مذکورہ آیت کے آخر میں موجود وہ بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایاوَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۔ یعنی اس قوم کے خیالات کا اتباع نہ کرو جو تم سے پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے تھے۔ اور دوسروں کو بھی انہوں نے گمراہ کر رکھا ہے، اس کے بعد ان کی گمراہی کی حقیقت اور وجہ کو ان الفاظ سے بیان فرمایا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ یعنی یہ لوگ صراط مستقیم سے ہٹ گئے تھے جو افراط وتفریط کے درمیان معتدل راہ تھی۔ اسی طرح اس آیت میں غلو اور افراط وتفریط کی مہلک غلطی کا بیان بھی آگیا۔ اور درمیانی راہ صراط مستقیم پر قائم رہنے کا بھی۔
Top