بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے ان ہواؤں کی بکھیرتی ہیں اڑا کر
خلاصہ تفسیر
قسم ہے ان ہواؤں کی جو غبار وغیرہ کو اڑاتی ہیں پھر ان بادلوں کی جو بوجھ (یعنی بارش کو) اٹھاتے ہیں پھر ان کشتیوں کی جو نرمی سے چلتی ہیں پھر ان فرشتوں کی جو (حکم کے موافق اہل ارض میں) چیزیں تقسیم کرتے ہیں (مثلاً جہاں جس قدر بارش کا حکم ہوتا ہے جو مادہ ہے رزق کا وہاں بادلوں کے ذریعہ اسی قدر پہنچاتے ہیں، اسی طرح حسب حدیث رحم مادر میں بچے کی صورت میں مذکر و مونث پوچھ کر بناتے ہیں اور سکینہ اور رعب بھی تقسیم کرتے ہیں، آگے ان قسموں کا جواب ہے کہ) تم سے جس (قیامت) کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ بالکل سچ ہے اور (اعمال کی) جزا (و سزا) ضرور ہونے والی ہے (ان قسموں میں اشارہ ہے استدلال کی طرف یعنی یہ سب تصرفات عجیبہ قدرت الٰہیہ سے ہونا دلیل ہے عظمت قدرت کی، پھر ایسی عظیم القدرت ذات کو قیامت کا واقع کرنا کیا مشکل ہے اور تفسیر ان کلمات کی جن کی آیات مذکورہ میں قسم کھائی گئی ہے درمنثور میں حدیث مرفوع سے اسی طرح نقل کی ہے جو آگے آتی ہے اور تخصیص ان چیزوں کی شاید اس لئے ہو کہ اس میں اشارہ ہوگیا مخلوق کی اصناف مختلفہ کی طرف چناچہ ملائکہ سماویات میں سے ہیں اور ریاح و سفن (کشتیاں) ارضیات میں سے اور سحاب کائنات جو یعنی فضائی مخلوقات میں سے اور ارضیات میں دو چیزیں جن میں ایک آنکھ سے نظر آتی ہے دوسری نظر نہیں آتی، شاید اس لئے آئی ہوں کہ قیامت کے متعلق ایک مضمون پر خود آسمان کی قسم ہے جیسے اوپر سماویات کی تھی یعنی) قسم ہے آسمان کی جس میں (فرشتوں کے چلنے کے) راستے ہیں (کقولہ تعالیٰ (آیت) ولقد خلقنا فوقکم سبع طرآئق، آگے جواب قسم ہے) کہ تم (یعنی سب) لوگ (قیامت کے بارے میں) مختلف گفتگو میں ہو (کوئی تصدیق کرتا ہے، کوئی تکذیب کرتا ہے، وہذا کقولہ تعالیٰ ”(آیت) عن النبا العظیم الذی ہم فیہ مختلفون“ الذی فسرہ قتادة کما فی الدر بقول مصدق بہ و مکذب اور آسمان کی قسم سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ جنت آسمان میں ہے اور آسمان میں راستہ بھی ہے مگر جو حق میں اختلاف کرے گا اس کے لئے راہ بند ہوجاوے گی اور ان اختلاف والوں میں) اس (وقوع قیامت و جزا کے اعتقاد) سے وہی پھرتا ہے جس کو (بالکلیہ خیر وسعادت ہی سے) پھرنا ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث میں ہے من حرمہ فقد حرم الخیر کلہ رواہ ابن ماجہ یعنی جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہر خیر سے محروم رہا اور اختلاف والوں کے دوسرے فریق کا یعنی تصدیق کرنے والوں کا حال اسی کے مقابلہ سے معلوم ہوگیا کہ وہ خیر وسعادت سے پھرے ہوئے نہیں، اب آگے ان پھرنے والوں کی مذمت ہے کہ) غارت ہوجائیں بےسند باتیں کرنے والے (یعنی جو قیامت کا انکار کرتے ہیں بلا اس کے کہ ان کے پاس کوئی اس کی دلیل ہو) جو کہ جہالت میں بھولے ہوئے ہیں (بھولنے سے مراد اختیاری غفلت ہے اور وہ لوگ بطور استہزا و استعجال کے) پوچھتے ہیں کہ روز جزا کب ہوگا (آگے جواب ہے کہ وہ اس دن ہوگا) جس دن (کہ) وہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے (اور کہا جاوے گا کہ) اپنی اس سزا کا مزہ چکھو یہی ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے (یہ جواب (آیت) یوم ہم علی النار یفتنون اس طرز کا ہے جیسے کسی مجرم کے لئے پھانسی کا حکم ہوجاوے، مگر وہ احمق باوجود قیام براہین کے محض اس وجہ سے کہ اس کو تاریخ نہیں بتلائی گئی تکذیب ہی کئے جاوے اور کہے جاوے کہ اچھا وہ دن کب آوے گا، چونکہ یہ سوال محض کج روی کی راہ سے ہے اس لئے جواب میں بجائے تاریخ بتلانے کے یہ کہنا نہایت مناسب ہوگا کہ وہ دن اس وقت آوے گا جب تم پھانسی پر لٹکا دیئے جاؤ گے، آگے دوسرے فریق یعنی مومنین و مصدقین کے ثواب کا ذکر ہے کہ) بیشک متقی لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے (اور کیوں نہ ہو ؟) وہ لوگ اس کے قبل (یعنی دنیا میں) نیکوکار تھے (پس حسب وعدہ ہل جزآء الاحسان الا الاحسان کے ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا، آگے ان کی نیکوکاری کی قدرے تفصیل ہے کہ) وہ لوگ (فرائض و واجبات سے ترقی کر کے نوافل و تطوعات کے ایسے التزام کرنے والے تھے کہ) رات کو بہت کم سوتے تھے (یعنی زیادہ حصہ رات کا عبادت میں صرف کرتے تھے) اور (پھر باوجود اس کے اپنی عبادت پر نظر نہ کرتے تھے بلکہ) اخیر شب میں (اپنے کو عبادت میں کوتاہی کرنے والا سمجھ کر) استغفار کیا کرتے تھے (یہ تو عبادت بدنیہ میں ان کی حالت تھی) اور (عبادت مالیہ کی یہ کیفیت تھی کہ) ان کے مال میں سوالی اور غیر سوالی سب کا حق تھا (یعنی ایسے التزام سے دیتے تھے جیسے ان کے ذمہ ان کا کچھ آتا ہو، مراد اس سے غیر زکوٰة ہے (ہکذا فی الدر عن ابن عباس و مجاہد و ابراہیم) اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جنات و عیون کا ملنا نوافل پر موقوف ہے بلکہ یہاں اہل درجات عالیہ کا ذکر فرمایا گیا ہے) اور (چونکہ کفار قیامت کی صحت کا انکار کرتے تھے اس لئے آگے اس کی دلیل کی طرف اشارہ ہے کہ) یقین لانے (کی کوشش اور طلب کرنے) والوں کے لئے (قیامت کے ممکن اور واقع ہونے پر) زمین (کے کائنات) میں بہت نشانیاں (اور دلیلیں) ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی (یعنی تمہارے ظاہری و باطنی احوال مختلفہ بھی دلائل ہیں قیامت کے ممکن ہونے کے، کیونکہ امور آفاقیہ و انفسیہ بالیقین داخل تحت القدرت ہیں اور قدرت ذاتیہ کی نسبت تمام ممکنات کے ساتھ یکساں ہے، اور جب کہ قیامت کے ناممکن ہونے کی کوئی دلیل نہیں تو قیامت بھی ممکنات سے ہے، پس وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے اور چونکہ ان دلائل کی دلالت بہت واضح تھی، اس لئے توبیخاً فرماتے ہیں کہ جب ایسے دلائل موجود ہیں) تو کیا تم کو (مطلوب پھر بھی) دکھلائی نہیں دیتا اور (رہا تعین وقت وقوع کا جس کے عدم سے استدلال عدم وقوع پر کرتے تھے، سو اس کی نسبت یہ ہے کہ) تمہارا رزق اور جو تم سے (قیامت کے متعلق) وعدہ کیا جاتا ہے (ان) سب (کا معین وقت) آسمان میں (جو لوح محفوظ ہے اس میں درج) ہے (زمین پر اس کا یقینی علم کسی مصلحت سے نازل نہیں کیا گیا چناچہ وینزل الغیث میں بھی نہیں بتلایا گیا اور مشاہدہ بھی ہے کہ یقینی تعیین کسی کو نہیں معلوم لیکن جب باوجود تعیین وقت کا علم نہ ہونے کے رزق کا وجود یقینی ہے پھر اس عدم تعیین تاریخ سے قیامت کا عدم کیسے لازم آ گیا اور ایسے استدلال کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ما تو عدون کے ساتھ رزقکم بڑھا دیا، آگے اسی پر تفریع فرماتے ہیں کہ جب نفی کی کوئی دلیل نہیں اور اثبات کی دلیل ہے) تو قسم ہے آسمان اور زمین کے پروردگار کی کہ وہ (روز جزا) برحق ہے (اور ایسا یقینی) جیسا تم باتیں کر رہے ہو (کبھی اس میں شک نہیں ہوتا، اس طرح اس کو یقینی سمجھو)

معارف و مسائل
سورة ذاریات میں بھی اس سے پہلی سورت ق کی طرح زیادہ تر مضامین آخرت و قیامت اور اس میں مردوں کے زندہ ہونے، حساب کتاب اور ثواب و عذاب کے متعلق ہیں۔
پہلی چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کے متعلق جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا وعدہ ہے، جن چیزوں کی قسم کھائی ہے وہ چار ہیں، وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا، فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا، فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا، فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۔ ایک حدیث مرفوع میں جس کو ابن کثیر نے ضعیف کہا ہے اور حضرت فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ سے موقوفاً ان چاروں چیزوں کے معنی اور مفہوم یہ بتلایا گیا ہے کہ ذاریات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جن کے ساتھ غبار ہوتا ہے اور حاملات و قراً کے لفظی معنی بوجھ اٹھانے والے کے ہیں، اس سے مراد بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں اور جاریات یسرا سے مراد کشتیاں ہیں جو پانی میں آسانی سے ساتھ چلتی ہیں اور مقسمات امرا سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام مخلوقات میں رزق اور بارش کا پانی اور تکلیف و راحت کی مختلف اقسام تقدیر الٰہی کے مطابق تقسیم کرتے ہیں، تفسیر ابن کثیر، قرطبی اور در منثور میں یہ روایات موقوفہ و مرفوعہ مذکور ہیں۔
Top