Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 26
فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ
فَرَاغَ : پھر وہ متوجہ ہوا اِلٰٓى : طرف اَهْلِهٖ : اپنے اہل خانہ فَجَآءَ بِعِجْلٍ : پس لایا بچھڑا سَمِيْنٍ : فربہ
پھر دوڑا اپنے گھر کو تو لے آیا ایک بچھڑا گھی میں تلا ہوا
فَرَاغَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ ، راغ، روغ سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی جگہ سے کھسک جانے اور خفیہ طور پر چلے جانے کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ابراہیم ؑ مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے گھر میں اس طرح گئے کہ مہمانوں کو ان کے اٹھ جانے کی خبر نہ ہو، ورنہ وہ کھانا اور مہمانی لانے سے انکار کرتے۔
آداب مہمانی
ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت میں مہمان کے لئے چند آداب میزبانی کی تعلیم ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلے مہمانوں سے پوچھا نہیں کہ میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں، بلکہ چپکے سے کھسک گئے اور ان کی مہمانی کے لئے اپنے پاس جو سب سے اچھی چیز کھانے کی تھی یعنی بچھڑا ذبح کیا، اس کو بھونا اور لے آئے اور دوسرے یہ کہ لانے کے بعد مہمانوں کو اس کی تکلیف نہیں دی کہ ان کو کھانے کی طرف بلاتے، بلکہ جہاں وہ بیٹھے تھے وہیں لا کر ان کے سامنے پیش کردیا (فقربہ الیہم) تیسرے یہ کہ مہمانی پیش کرنے کے وقت انداز گفتگو میں کھانے پر اصرار نہ تھا بلکہ فرمایا الا تاکلون (کیا آپ کھائیں گے نہیں) اشارہ اس طرف ہوا کہ اگرچہ آپ کو حاجت کھانے کی نہ ہو، مگر ہماری خاطر سے کچھ کھایئے۔
Top