Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 22
فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ
فَرَاغَ : پھر وہ متوجہ ہوا اِلٰٓى : طرف اَهْلِهٖ : اپنے اہل خانہ فَجَآءَ بِعِجْلٍ : پس لایا بچھڑا سَمِيْنٍ : فربہ
پھر وہ نظر بچا کر اپنے گھروالوں کے پاس گیا اور ان کے لئے فربہ بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لایا
فراغ الی اھلہ فجآء بعجل سمین (26) لفظ ’ روغ ‘ کسی کام کو نظر بچا کر اور کا والگاکر کرنے کے لئے آتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ مہمانوں کو دیکھتے ہی، ان کی نظر بچا کر، اپنے گھر کی طرف گئے کہ ان کی ضیافت کا سامان کریں۔ مہمانوں کی نظر بچا کر اس لئے کہ انہوں نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ ان کا یہ اہتمام مہمانوں کی طبیعت پر بار ہو۔ کریم النفس۔ شریف اور فیاض میزبان کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ مہمان کی ضیافت کا اہتمام اس طرح کرتا ہے کہ اس کو تکلف کا احساس نہ ہو۔ فجآء بعجل سمین، یعنی ان مہمانوں کی ضیافت کے لئے انہوں نے گلے کا ایک فربہ بچھڑا ذبح کرادیا اور اس کا بھنا ہوا گوشت ان کے آگے پیش کیا۔ عجل سمین، کے الفاظ سے حضرت ابراہیم ؑ کی فیاضی کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے چند مہمانوں کی ضیافت کے لئے ایک پورا بچھڑا ذبح کرادیا۔ اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ انہوں نے پورا بچھڑا مہمانوں کے آگے پیش کردیا ہو۔ بعض اوقات کل بول کر اس سے جزء مراد لیتے ہیں۔ یہ اسلوب جس طرح ہر زبان میں ہے اسی طرح عربی میں بھی ہے۔
Top