Maarif-ul-Quran - An-Najm : 36
اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ : یا نہیں خبر دیا گیا۔ آگاہ کیا گیا بِمَا : ساتھ اس کے جو فِيْ صُحُفِ : صحیفوں میں ہے مُوْسٰى : موسیٰ کے
کیا اس کو خبر نہیں پہنچی اس کی جو ہے ورقوں میں موسیٰ کے
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ، اس آیت میں حضرت ابراہیم ؑ کی ایک خاص صفت وَفّٰی بیان فرمائی گئی، وفا کے معنی کسی وعدہ یا معاہدے کو پورا کردینے کے آتے ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ کی خاص صفت ایفائے عہد کی کچھ تفصیل
مراد یہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے جو اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اور اس کا پیغام مخلوق کو پہنچا دیں گے، انہوں نے اس معاہدہ کو ہر حیثیت سے پورا کر دکھایا، جس میں ان کو بہت سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا، وفی کی یہی تفسیر ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ نے اختیار کی ہے۔
بعض روایات حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کے خاص خاص اعمال کو لفظ وفی کا سبب بنایا گیا ہے وہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ اصل وفاء عہد عام ہے، تمام احکام الٰہیہ کی تعمیل و اطاعت جس میں اپنے اعمال بھی داخل ہیں، اور فرائض رسالت و نبوت کے ذریعہ عام خلق اللہ کی اصلاح بھی، انہیں اعمال میں یہ عمل بھی ہیں جن کا ذکر ان روایات حدیث میں ہے۔
مثلاً ابن ابی حاتم نے حضرت ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ) اور پھر ان سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ و فی کا مطلب کیا ہے ؟ ابوامامہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ۔
وفی عمل یومہ باربع رکعات فی اول النھار (ابن کثیر)
" یعنی انہوں نے اپنے دن کے اعمال کی تکمیل اس طرح کردی کہ شروع دن میں چار رکعت (نماز اشراق کی) پڑھ لیں "۔
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ترمذی نے حضرت ابوذر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
ابن ادم ارکع لی اربع رکعات من اول النھار اکفک اخرہ (ابن کیثر)
" یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے ! تو شروع دن میں میرے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر تو میں آخر دن تک تیرے سب کاموں کی کفالت کروں گا "۔
اور ابن ابی حاتم ہی نے ایک روایت حضرت معاذ بن انس سے یہ نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو الذی و فی کا خطاب کیوں دیا، پھر فرمایا کہ وجہ یہ ہے کہ وہ روزانہ صبح شام ہونے کے وقت یہ پڑھا کرتے تھے (فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ) ابن کثیر
Top