Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 7
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ
مَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : جو دلوادے اللہ عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول کو مِنْ : سے اَهْلِ الْقُرٰى : بستی والوں فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لئے وَ للرَّسُوْلِ : اور رسول کے لئے وَ لِذِي الْقُرْبٰى : اور قرابت داروں کیلئے وَالْيَتٰمٰى : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ : اور مسافروں كَيْ لَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے دُوْلَةًۢ : ہاتھوں ہاتھ لینا (گردش) بَيْنَ : درمیان الْاَغْنِيَآءِ : مال داروں مِنْكُمْ ۭ : تم میں سے تمہارے وَمَآ اٰتٰىكُمُ : اور جو تمہیں عطا فرمائے الرَّسُوْلُ : رسول فَخُذُوْهُ ۤ : تو وہ لے لو وَمَا نَهٰىكُمْ : اور جس سے تمہیں منع کرے عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ : اس سے تم باز رہو وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزادینے والا
جو مال لوٹایا اللہ نے اپنے رسول پر بستیوں والوں سے سو اللہ کے واسطے اور رسول کے اور قرابت والے کے اور یتیموں کے اور محتاجوں کے اور مسافر کے تاکہ نہ آئے لینے دینے میں دولت مندوں کے تم میں سے اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے
معارف و مسائل
(آیت) وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ الآیہ، لفظ افاء فئی سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، اس لئے دوپہر کے بعد جو چیزوں کا سایہ مشرق کی طرف لوٹتا ہے اس کو بھی فئی کہا جاتا ہے، اموال غنیمت جو کفار سے حاصل ہوتے ہیں ان سب کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے باغی ہوجانے کی وجہ سے ان کے اموال بحق سرکار ضبط ہوجاتے ہیں اور ان کی ملکیت سے نکل کر پھر مالک حقیقی حق تعالیٰ کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لئے ان کے حاصل ہونے کو افا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ کفار سے حاصل ہونے والے تمام قسم کے اموال کو فئی ہی کہا جاتا، مگر جو مال جہاد و قتال کے ذریعہ حاصل ہوا اس میں انسانی عمل اور جدوجہد کو بھی ایک قسم کا دخل ہے، اس لئے اس کو تو لفظ غنیمت سے تعبیر فرمایا گیا ، (آیت) واعلموا انما غنمتم من شیئ، لیکن جس کے حصول میں جہاد و قتال کی بھی کوئی ضرورت نہ پڑی اس کو لفظ فئی سے تعبیر فرمایا گیا، اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ جو مال بغیر جہاد و قتال کے حاصل ہوا ہے وہ مجاہدین و غانمین میں مال غنیمت کے قانون کے مطابق تقسیم نہیں ہوگا، بلکہ اس میں کلی اختیار رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہوگا جس کو جتنا چاہیں عطا فرما دیں یا اپنے لئے رکھیں، البتہ یہ پابندی لگا دی گئی کہ چند اقسام مستحقین کی متعین کردی گئیں کہ اس مال کی تقسیم انہیں اقسام میں دائر رہنی چاہئے، اس کا بیان اگلی آیت میں اس طرح فرمایا (آیت) مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى، اس میں اہل قریٰ سے مراد بنو نضیر اور ان جیسے دوسرے قبائل بنو قریظہ وغیرہ ہیں جن کے اموال بغیر قتال کے حاصل ہوئے، آگے مصارف و مستحقین کی پانچ قسمیں بتلائی گئیں ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے۔
آیات مذکوہ میں فئی کے احکام، اس کے مستحقین اور ان میں تقسیم کا طریقہ کار بیان فرمایا ہے سورة انفال کے شروع میں مال غنیمت اور فئی کا فرق واضح طور پر بیان ہوچکا ہے کہ غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو کفار سے جہاد و قتال کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے اور فئی وہ مال ہے جو بغیر جہاد و قتال کے ان سے حاصل ہو، خواہ اس طرح کہ وہ اپنا مال چھوڑ کر بھاگ گئے یا رضا مندی سے بصورت جزیہ و خراج یا تجارتی ڈیوٹی وغیرہ کے ذریعہ ان سے حاصل ہوتا ہے۔
اس کی کچھ تفصیل شروع سورة انفال میں معارف (القرآن جلد چہارم صفحہ 174 میں اور مزید تفصیل اسی سورة انفال کی آیت 41 کے تحت معارف القرآن جلد چہارم صفحہ 236 میں لکھی جا چکی ہے)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سورة انفال کی آیت 41 میں جو الفاظ خمس غنیمت کے متعلق آئے ہیں تقریباً وہی الفاظ یہاں مال فئی کے بارے میں ہیں، سورة انفال میں ہے (آیت) واعلموآ انما غنمتم من شی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل۔
ان دونوں آیتوں میں مال کے حقداروں میں چھ نام ذکر کئے گئے، اللہ، رسول، ذوی، القربیٰ ، یتیم، مسکین، مسافر، یہ ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ تو دنیا و آخرت اور تمام مخلوقات کا مالک حقیقی ہے، اس کا نام مبارک تو حصوں کے بیان میں محض تبرکاً اس فائدہ کے لئے ہے کہ اس سے اس مال کی شرافت و فضیلت اور حلال و طیب ہونے کی طرف اشارہ ہوجائے، حسن بصری، قتادہ، عطاء، ابراہیم، شعبی اور عام مفسرین کا یہی قول ہے (مظہری)
اللہ جل شانہ کا نام ذکر کرنے سے اس مال کی فضیلت و شرافت کی طرف اشارہ کس طرح ہوا اس کا تفصیلی بیان سورة انفال کی تفسیر میں ہوچکا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے لئے مال صدقہ جو مسلمانوں سے حاصل ہوتا ہے، وہ بھی حلال نہیں فرمایا، مال غنیمت اور فئی جو کافروں سے حاصل ہو اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے کیسے حلال ہوا ؟ اس شبہ کا ازالہ اللہ جل شانہ کا نام اس جگہ ذکر کر کے اس طرح کیا گیا کہ درحقیقت ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس نے اپنے فضل سے ایک خالص قانون کے تحت انسانوں کو حق ملکیت دیا ہے، لیکن جو انسان باغی ہوجائیں ان کو صحیح راستہ پر لانے کے لئے اول تو انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی ہدایات بھیجی گئیں جو ان سے بھی متاثر نہیں ہوئے ان کو یہ حق دیا گیا کہ کم از کم اسلامی قانون کی اطاعت قبول کرلیں اور مقررہ جزیہ و خراج اپنے مال میں سے حکومت کو ادا کیا کریں، جن لوگوں نے اس سے بھی بغاوت کی ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال کا حکم ہوگیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کی جان اور مال قابل احترام نہیں، ان کے اموال بحق حکومت الٰہیہ ضبط ہوگئے اور بذریعہ جہاد و قتال جو مال ان سے حاصل ہوا وہ کسی انسان کی ذاتی ملکیت نہیں رہا بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملک میں واپس ہوگیا اور لفظ فئی میں اس مفہوم کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اس کے اصلی معنی لوٹنے ہی کے ہیں، اس مال کو فئے اس لئے کہا گیا کہ یہ اصل مالک حقیقی اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی طرف لوٹ گیا اب اس میں کسی انسانی ملکیت کا کوئی دخل نہیں، اس کے بعد جن مستحقین کو اس میں کوئی حصہ دیا جائے گا یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا، اس لئے ایسا ہی حلال طیب ہوگا جیسے پانی اور خود اگنے والی گھاس جو براہ راست حق تعالیٰ کا عطیہ انسان کے لئے ہے اور حلال طیب ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام اس جگہ ذکر کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ یہ سارا مال دراصل اللہ کا ہے، اس کی طرف سے مستحقین کو دیا جاتا ہے، یہ کسی کا صدقہ و خیرات نہیں۔
اب مستحقین اور مصارف کل پانچ رہ گئے، رسول، ذوی القربیٰ ، یتیم، مسکین، مسافر یہی پانچ مصارف مال غنیمت کے خمس کے ہیں، جس کا بیان سورة انفال میں آیا ہے اور یہی مصارف مال فئی کے ہیں اور دونوں کا حکم یہ ہے کہ یہ سب اموال درحقیقت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے مکمل اختیار میں ہوتے ہیں وہ چاہیں تو ان سب اموال کو عام مسلمانوں کے مفاد کے لئے روک لیں اور بیت المال میں جمع کردیں، کسی کو کچھ نہ دیں اور چاہیں تقسیم کردیں، البتہ تقسیم کئے جاویں تو ان پانچ اقسام میں دائر رہیں (قرطبی)
خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام کے تعامل سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تو مال فئی آپ کے اختیار میں تھا، آپ کی صواب دید کے مطابق صرف کیا جاتا تھا، آپ کے بعد آپ کے خلفاء کے اختیار اور صواب دید پر رہا۔
پھر رسول اللہ ﷺ کا جو حصہ اس مال میں رکھا گیا تھا وہ آپ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا ذوی القربیٰ کو اس مال میں سے دینے کی دو وجہ تھیں، ایک نصرت رسول یعنی اسلامی کاموں میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کرنا، اس لحاظ سے اغنیاء ذوی القربیٰ کو بھی اس میں حصہ دیا جاتا تھا۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے ذوی القربیٰ پر مال صدقہ حرام کردیا گیا ہے، تو ان کے فقراء و مساکین کو صدقہ کے بدلہ میں مال فئی سے حصہ دیا جاتا تھا، رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نصرت و امداد کا سلسلہ ختم ہوگیا، تو یہ وجہ باقی نہ رہی، اس لئے اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ بھی حصہ رسول کی طرح ختم ہوگیا، البتہ فقراء ذوی القربیٰ کا حصہ بحیثیت فقر و احتیاج کے اس مال میں باقی رہا اور وہ اس مال میں دوسرے فقراء و مساکین کے مقابلہ میں مقدم رکھے جاویں گے (کذا فی الہدایہ) اس کی پوری تفصیل سورة انفال میں آ چکی ہے۔
كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ، دولة، بضم دال اس مال کو کہا جاتا ہے جس کا آپس میں لین دین کیا جائے (قرطبی) (معنی آیت کے یہ ہیں کہ مال فئی کے مستحقین اس لئے متعین کردیئے) تاکہ ”یہ مال تمہارے مالداروں اور توانگروں میں گردش کرنے والی دولت نہ بن جائے“۔ اس میں اشارہ اس رسم جاہلیت کو مٹانے کی طرف ہے جس میں اس طرح کے تمام اموال پر رئیس خود قابض ومالک ہوجاتا تھا، غریبوں، مسکینوں کے حق کا اس میں کوئی حصہ نہ رہتا تھا۔
اکتناز دولت پر اسلامی قوانین کی ضرب کاری
حق تعالیٰ رب العالمین ہے، اس کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے انسانی ضروریات میں تمام انسانوں کا یکساں حق ہے، اس میں مومن و کافر کا بھی فرق نہیں کیا گیا، خاندانی اور طبقاتی امیر و غریب کا کیا امتیاز ہوتا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تقسیم دولت کا بہت بڑا حصہ جو انسان کی فطری اور اصل ضروریات پر مشتمل ہے اس کی تقسیم خود اپنے دست قدرت میں رکھ کر اس طرح فرمائی ہے کہ اس سے ہر طبقہ ہر خطہ ہر کمزور و قوی یکساں فائدہ اٹھا سکے، ایسی اشیاء کو اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے عام انسانی دستبرد اور قبضہ و تسلط سے مافوق بنادیا ہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ اس پر ذاتی قبضہ جما سکے، ہوا، فضا، آفتاب، ماہتاب اور سیاروں کی روشنی، فضاء میں پیدا ہونے والے بادل ان کی بارش، یہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیر انسان تھوڑی دیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا، ان سب کو قدرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے ایسا وقف عام بنادیا کہ کوئی بڑی سے بڑی حکوت و طاقت اس پر قبضہ نہیں جما سکتی، یہ چیزیں اللہ کی مخلوق کو ہر جگہ یکساں ملتی ہیں۔
اشیاء ضرورت کی دوسری قسم زمین سے نکلنے والا پانی اور کھانے کی چیزیں ہیں، یہ اگرچہ اتنی عام نہیں مگر اسلامی قانون میں پہاڑوں اور غیر آباد جنگلوں اور قدرتی چشموں کو وقف عام چھوڑ کر ایک خاص قانون کے تحت خاص خاص انسانوں کو زمین کے بعض حصوں پر جائز حق ملکیت بھی دیا جاتا ہے اور ناجائز قبضہ و تسلط جمانے والے بھی زمین پر قبضہ جما لیتے ہیں، لیکن قدرتی طور پر زمین کے فوائد کوئی بڑا سرمایہ دار بھی بغیر غریبوں، کسانوں، مزدوروں کو ساتھ لئے حاصل نہیں کرسکتا، اس لئے ایک گونہ قبضہ کے باوجود وہ اس میں دوسرے کمزور غریبوں کو حصہ دینے پر مجبور ہے۔
تیسری قسم سونا، چاندی، روپیہ پیسہ ہے، جو اصلی اور فطری ضروریات میں داخل نہیں، مگر حق تعالیٰ نے اس کو تمام ضروریات کی تحصیل کا ذریعہ بنادیا ہے اور یہ معاون سے نکالنے کے بعد خاص قانون کے تحت نکالنے والوں کی ملکیت ہوجاتا ہے اور ان سے ان کی ملکیت مختلف طریقوں پر دوسروں کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے اور اگر اس کی گردش پورے انسانوں میں خاطر خواہ ہوتی رہے تو کوئی انسان بھوکا ننگا نہیں رہ سکتا مگر ہوتا یہ ہے کہ مال سے صرف خود ہی فائدہ اٹھائے، دوسروں تک اس کا فائدہ نہ پہنچے، اس بخل و حرص نے دنیا میں اکتناز دولت اور سرمایہ پرستی کے پرانے اور نئے بہت سے طریقے ایجاد کرائے، جن کے ذریعہ اس دولت کی گردش صرف سرمایہ داروں اور بڑے لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئی، عام غریب مساکین محروم کردیئے گئے جس کے رد عمل نے دنیا میں کمیونزم اور سوشلزم جیسے نامعقول طریقے ایجاد کئے۔
اسلامی قانون نے ایک طرف تو شخصی ملکیت کا اتنا احترام کیا کہ ایک شخص کے مال کو اس کی جان کے برابر اور جان کو بیت اللہ کی حرمت کے برابر قرار دیا اس پر کسی کے ناجائز تصرف کو شدت سے روکا، دوسری طرف جو ہاتھ ناجائز طور پر اس کی طرف بڑھا وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا، تیسری طرف ایسے تمام دروازے بند کردیئے کہ قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی چیزوں پر کوئی خاص شخص یا جماعت قبضہ کر کے بیٹھ جائے اور عوام کو محروم کر دے۔
کسب و اکتساب کے مروجہ طریقوں میں سود، سٹہ، جوا ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے ذریعہ دولت سمٹ کر چند افراد و اشخاص میں دائر ہو کر رہ جاتی ہے، ان سب کو سخت حرام قرار دے کر تمام معاملات تجارت اور کرایہ داری وغیرہ میں ان کی جڑ کاٹ دی اور جو دولت کسی شخص کے پاس جائز طریقوں سے جمع ہوئی اس میں بھی غریبوں فقیروں کے حقوق، زکوٰة، عشر، صدقتہ الفطر، کفارات وغیرہ مقرر فرائض کی صورت میں اور اس سے زائد رضا کارانہ صورت میں قائم فرما دیئے اور ان سب اخراجات کے بعد بھی جو کچھ انسان کے مرنے کے وقت تک باقی رہ گیا اس کو ایک خاص حکیمانہ اصول کے مطابق تقسیم کردیا کہ اس کا حق دار اسی مرنے والے کے رشتہ داروں کو اقرب فالا قرب کے اصول پر بنادیا اس کو عام فقراء میں تقسیم کرنے کا قانون اس لئے نہ بنایا کہ ایسا ہوتا تو مرنے والا اپنے مرنے سے پہلے ہی اس کو جا بےجا خرچ کر کے فارغ ہونے کی خواہش طبعی طور پر رکھتا، اپنے ہی خویش و عزیز کو ملتا دیکھ کر یہ داعیہ اس کے دل میں پرورش نہ پائے گا۔
یہ طریقہ تو کسب و اکتساب کے عام مروجہ طریقوں میں اکتناز دولت سے بچانے کا اختیار کیا، دوسرا طریقہ دولت حاصل ہونے کا جنگ و جہاد ہے، اس سے حاصل ہونے والے اموال میں وہ تقسیم شرعی جاری فرما دی جس کا ذکر کچھ سورة انفال میں گزرا ہے اور کچھ اس سورت میں بیان ہوا ہے، کیسے بےبصیرت ہیں وہ لوگ جو اسلام کے اس منصفانہ، عادلانہ اور حکیمانہ نظام کو چھوڑ کر نئے نئے ازموں کو اختیار کر کے امن عالم کو برباد کرتے ہیں۔
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الایة، یہ آیت اگرچہ مال فئی کی تقسیم کے سلسلے میں آئی ہے اور اس سلسلے کے مناسب اس کا مفہوم یہ ہے کہ مال فئی میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مستحقین کے طبقات بیان کردیئے ہیں مگر ان میں کس کو اور کتنا دیں اس کی تعیین رسول اللہ ﷺ کی صواب دید پر رکھی ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس آیت میں ہدایت دی گئی کہ جس کو جتنا آپ عطا فرما دیں اس کو راضی ہو کرلے لیں اور جو نہ دیں اس کی فکر میں نہ پڑیں، آگے اس کو اتقوا اللہ کے حکم سے موکد کردیا کہ اگر اس معاملے میں کچھ غلط حیلے بہانے بنا کر زائد وصول کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے وہ اس کی سزا دے گا۔
حکم رسول مثل حکم قرآن کے واجب التعمیل ہے
لیکن الفاظ آیت عام ہیں، صرف اموال کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ احکام بھی اس میں داخل ہیں، اس لئے عام انداز میں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی حکم یا مال یا اور کوئی چیز آپ کسی کو عطا فرما دیں وہ اس کو لے لینا چاہئے اور اس کے مطابق عمل کے لئے تیار ہوجانا چاہئے اور جس چیز سے روک دیں اس سے رکنا چاہئے۔
بہت سے صحابہ کرام نے اسی عام مفہوم کو اختیار کر کے رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو اس آیت کی بنا پر قرآن ہی کا حکم اور واجب التعمیل قرار دیا ہے، قرطبی نے فرمایا کہ اس آیت میں اتی کے بالمقابل نہیٰ کا لفظ آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آتیٰ کے معنی یہاں امر کے ہیں جو نہیٰ کا صحیح مقابل ہے (اھ) اور قرآن کریم نے نہیٰ کے مقابل میں امر کے لفظ کو چھوڑ کر آتیٰ کا لفظ استعمال شاید اس لئے فرمایا تاکہ جس مضمون کے سیاق میں یہ آیت آئی ہے یعنی مال فئی کی تقسیم اس پر بھی آیت کا مضمون شامل رہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک شخص کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا تو حکم دیا کہ یہ کپڑے اتار دو ، اس شخص نے کہا کہ آپ اس کے متعلق مجھے قرآن کی کوئی آیت بتاسکتے ہیں ؟ جس میں سلے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہو، حضرت ابن مسعود نے فرمایا ہاں وہ آیت میں بتاتا ہوں، پھر یہی آیت وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ پڑھ کر سنا دی، امام شافعی نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے ہر سوال کا جواب قرآن سے دے سکتا ہوں، پوچھو جو کچھ پوچھنا ہے، ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک محرم نے زنبور (تتنیا) مار ڈالا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ امام شافعی نے یہی آیت وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ تلاوت کر کے حدیث سے اس کا حکم بیان فرما دیا (قرطبی)
Top