Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ
: فرمادیں
تَعَالَوْا
: آؤ
اَتْلُ
: میں پڑھ کر سناؤں
مَا حَرَّمَ
: جو حرام کیا
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اَلَّا تُشْرِكُوْا
: کہ نہ شریک ٹھہراؤ
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ۔ کوئی
وَّبِالْوَالِدَيْنِ
: اور والدین کے ساتھ
اِحْسَانًا
: نیک سلوک
وَلَا تَقْتُلُوْٓا
: اور نہ قتل کرو
اَوْلَادَكُمْ
: اپنی اولاد
مِّنْ
: سے
اِمْلَاقٍ
: مفلس
نَحْنُ
: ہم
نَرْزُقُكُمْ
: تمہیں رزق دیتے ہیں
وَاِيَّاهُمْ
: اور ان کو
وَلَا تَقْرَبُوا
: اور قریب نہ جاؤ تم
الْفَوَاحِشَ
: بےحیائی (جمع)
مَا ظَهَرَ
: جو ظاہر ہو
مِنْهَا
: اس سے (ان میں)
وَمَا
: اور جو
بَطَنَ
: چھپی ہو
وَلَا تَقْتُلُوا
: اور نہ قتل کرو
النَّفْسَ
: جان
الَّتِيْ
: جو۔ جس
حَرَّمَ
: حرمت دی
اللّٰهُ
: اللہ
اِلَّا بالْحَقِّ
: مگر حق پر
ذٰلِكُمْ
: یہ
وَصّٰىكُمْ
: تمہیں حکم دیا ہے
بِهٖ
: اس کا
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تَعْقِلُوْنَ
: عقل سے کام لو (سمجھو)
تو کہہ تم آؤ میں سنا دوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے کہ شریک نہ کرو اس کے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی سے ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو اور پاس نہ جاؤ بےحیائی کے کام کے جو ظاہر ہو اس میں سے اور جو پوشیدہ ہو اور مار نہ ڈالو اس جان کو جس کو حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر تم کو یہ حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو
خلاصہ تفسیر
آپ ﷺ (ان سے) کہئے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرمایا ہے وہ (چیزیں یہ ہیں کہ ایک) یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراو (پس شریک ٹھہرانا حرام ہوا) اور (دوسرے یہ کہ) ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو (پس ان سے بری طرح رہنا حرام ہوا) اور (تیسرے یہ کہ) اپنی اولاد کو افلاس کے سبب (جیسا کہ جاہلیت میں غالب عادت تھی) قتل مت کیا کرو (کیونکہ) ہم تم کو اور ان کو (دونوں کو) رزق (مقدر) دیں گے (وہ تمہارے رزق مقدر میں شریک نہیں ہیں، پھر کیوں قتل کرتے ہو، پس قتل کرنا حرام ہوا) اور (چوتھے یہ کہ) بےحیائی (یعنی بدکاری) کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاو (پس زنا کرنا حرام ہوا) خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ ہوں (وہ طریقے یہی ہیں) اور (پانچویں یہ کہ) جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق (شرعی) پر (قتل جائز ہے مثلاً قصاص یا رجم میں، پس قتل ناحق حرام ہوا) اس (سب) کا تم کو (اللہ تعالیٰ نے) تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم (ان کو) سمجھو (اور سمجھ کر عمل کرو) اور (چھٹے یہ کہ) یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ (یعنی اس میں تصرف مت کرو) مگر ایسے طریقہ سے (تصرف کی اجازت ہے) جو کہ (شرعاً) مستحسن ہے (مثلاً اس کے کام میں لگانا، اس کی حفاظت کرنا، اور بعض اولیاء اور اوصیاء کو اس میں یتیم کے لئے تجارت کرنے کی بھی اجازت ہے) یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جاوے (اس وقت تک ان تصرفات مذکورہ کو بھی اجازت ہے، اور پھر اس کا مال اس کو دے دیاجاوے گا بشرط سفیہہ نہ ہونے کے، پس تصرف غیر مشروع مال یتیم میں حرام ہوا) اور (ساتویں یہ کہ) ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو، انصاف کے ساتھ (کہ کسی کا حق اپنے پاس نہ رہے، اور نہ آوے، پس اس میں دغا کرنا حرام ہوا، اور یہ احکام کچھ دشوار نہیں کیونکہ) ہم (تو) کسی شخص کو اس کے امکان سے زیادہ (احکام کی) تکلیف (بھی) نہیں دیتے (پھر ان احکام میں کوتاہی کیوں کی جاوے) اور (آٹھویں یہ کہ) جب تم (فیصلہ یا شہادت وغیرہ کے متعلق کوئی) بات کیا کرو (جیسی قسم یا نذر بشرط اس کے مشروع ہونے کے) اس کو پورا کیا کرو (پس اس کا عدم ایفاء حرام ہوا) ان (سب) کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو (اور عمل کرو) اور یہ (بھی کہہ دیجئے) کہ (کچھ انھیں احکام کی تخصیص نہیں بلکہ) یہ دین (اسلام اور اس کے تمام احکام) میرا رستہ ہے (جس کی طرف میں باذن الٓہی دعوت دیتا ہوں) جو کہ (بالکل) مستقیم (اور راست) ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے (جن کی طرف میں دعوت کرتا ہوں) جدا (اور دور) کردیں گے، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم (اس راہ کے خلاف کرنے سے) احتیاط رکھو۔
معارف و مسائل
ان آیات سے پہلے تقریباً دو تین رکوع میں مسلسل یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ غافل اور جاہل انسان نے زمین و آسمان کی ساری چیزوں کے پیدا کرنے والے احکم الحاکمین کا نازل کیا ہوا قانون چھوڑ کر آبائی اور من گھڑت رسموں کو اپنا دین بنا لیا، جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تھا ان کو جائز سمجھ کر استعمال کرنے لگے، اور بہت سی چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھا ان کو اپنے اوپر حرام کرلیا، اور بعض چیزوں کو مردوں کے لئے جائز عورتوں کے لئے حرام، بعض کو عورتوں کے لئے حلال مردوں کے لئے حرام قرار دیدیا۔
ان تین آیتوں میں ان چیزوں کا بیان ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، تفصیلی بیان میں نو چیزوں کا ذکر ہے، اس کے بعد دسواں حکم اس طرح بیان فرمایا گیا کہ (آیت) ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ”یعنی یہ دین میرا سیدھا راستہ ہے، اس پر چلو“۔ جس میں رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے اور بتلائے ہوئے دین و شریعت کی طرف اشارہ کرکے تمام حلال و حرام اور جائز و ناجائز، مکروہ و مستحب چیزوں کی تفصیلات کو اس کے حوالہ کردیا کہ شریعت محمدیہ ﷺ نے جس چیز کو حلال بتلایا اس کو حلال اور جس کو حرام قرار دیا اس کو حرام سمجھو، اپنی طرف سے حلال و حرام کے فیصلے نہ کرتے پھرو۔
پھر جن دس چیزوں کا تفصیلی بیان ان آیات میں آیا ہے ان میں اصل مقصد تو حرام چیزوں کا بیان کرنا ہے، جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ ان سب کو بصیغہ نہی ممانعت کرنے کے عنوان سے بیان کیا جاتا، لیکن قرآن کریم نے اپنے خاص حکیمانہ اسلوب کے ماتحت ان میں سے چند چیزوں کو ایجابی طور پر بصیغہ امر بیان فرمایا ہے، اور مراد یہ ہے کہ اس کے خلاف کرنا حرام ہے (کشاف) اس کی حکمت آگے معلوم ہوجائے گی، وہ دس چیزیں جن کی حرمت کا بیان ان آیات میں آیا ہے یہ ہیں
(1) اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت و اطاعت میں کسی کو ساجھی ٹھہرانا، (2) والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، (3) فقر و افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کردینا، (4) بےحیائی کے کام کرنا، (5) کسی کو ناحق قتل کرنا، (6) یتیم کا مال ناجائز طور پر کھا جانا، (7) ناپ تول میں کمی کرنا، (8) شہادت یا فیصلہ یا دوسرے کلام میں بےانصافی کرنا (9) اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا نہ کرنا، (01) اللہ تعالیٰ کے سیدھے راستہ کو چھوڑ کر دائیں بائیں دوسرے راستے اختیار کرنا۔
آیات مذکورہ کی اہم خصوصیات
کعب احبار رحمة اللہ علیہ جو تورات کے ماہر عالم ہیں پہلے یہودی تھے، پھر مسلمان ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی یہ آیات جن میں دس حرام چیزوں کا بیان ہے، اللہ کی کتاب تورات بسم اللہ کے بعد ابھی آیات سے شروع ہوتی ہے (انتہیٰ) اور کہا گیا ہے کہ یہی وہ دس کلمات ہیں جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوئے تھے۔
مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہی وہ آیات محکمات ہیں جن کا ذکر سورة آل عمران میں آیا ہے کہ جن پر آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں متفق رہی ہیں ان میں سے کوئی چیز کسی مذہب وملت اور کسی شریعت میں منسوخ نہیں ہوئی (تفسیر بحر محیط)
یہ آیات رسول اللہ ﷺ کا وصیت نامہ ہیں
اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کا ایسا وصیت نامہ دیکھنا چاہے جس پر آپ ﷺ کی مہر لگی ہو تو وہ ان آیات کو پڑھ لے، ان میں وہ وصیت موجود ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بحکم خداوندی اُمّت کو دی ہے۔
اور حاکم نے بروایت حضرت عبادہ بن صامت ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو خطاب کرکے فرمایا”کون ہے جو مجھ سے تین آیتوں پر بیعت کرے“۔ پھر یہی تین آیتیں تلاوت فرما کر ارشاد فرمایا کہ”جو شخص اس بیعت کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگیا“۔
اب ان دس چیزوں کا تفصیلی بیان اور تینوں آیتوں کی تفسیر دیکھئے؛ ان آیات کی ابتداء اس طرح کی گئی ہے(آیت) قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اس میں تعالوا کا ترجمہ ہے ”آجاؤ“۔ اور اصل میں یہ کلمہ ایسے وقت بولا جاتا ہے جب کہ کوئی بلانے والا بلند جگہ کھڑا ہو کر نیچے والوں کو اپنے پاس بلائے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اس دعوت کو قبول کرنے میں ان لوگوں کے لئے برتری اور بلندی ہے، معنی یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا گیا کہ آپ ﷺ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آجاؤ تاکہ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کی ہیں، یہ بلاواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا پیغام ہے، اس میں کسی کے ظن وتخمین یا قیاس کا دخل نہیں، تاکہ تم ان سے بچنے کا اہتمام کرو اور فضول اپنی طرف سے اللہ کی حلال چیزوں کو حرام کرتے نہ پھرو۔
اس آیت کا خطاب اگرچہ بلاواسطہ مشرکین مکہ کی طرف ہے، مگر مضمون خطاب عام ہے اور تمام بنی نوع انسان کو شامل ہے خواہ مومن ہوں یا کافر، عرب ہوں یا عجم، اور موجودہ حاضرین ہوں یا آئندہ آنے والی نسلیں (بحر محیط)
سب سے پہلا گناہ عظیم شرک ہے جس کو حرام کیا گیا ہے
اس اہتمام کے ساتھ خطاب کرکے محرمات و ممنوعات کی فہرست میں سب سے پہلے یہ ارشاد فرمایا الا تشرکوا بہ شیئاً ، یعنی سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک اور ساجھی نہ سمجھو، نہ مشرکین عرب کی طرح بتوں کو خدا بناؤ، نہ یہود و نصاریٰ کی طرف انبیاء کو خدا یا خدا کا بیٹا کہو، نہ دوسروں کی طرح فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دو ، نہ جاہل عوام کی طرح انبیاء و اولیاء کو صفت علم وقدرت میں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراؤ۔
شرک کی تعریف اور اس کی قسمیں
اور تفسیر مظہری میں ہے کہ لفظ شیئاً کے معنی یہاں یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ شرک کی کسی قسم جلی یا خفی میں مبتلا نہ ہو، شرک جلی کو تو سب جانتے ہیں کہ کسی غیر اللہ کو عبادت اور اطاعت میں یا اس کی مخصوص صفات میں اللہ تعالیٰ کے برابر یا اس کا ساجھی قرار دینا ہے، اور شرک خفی یہ ہے کہ اپنے کاروبار اور دینی دنیوی مقاصد میں اور نفع نقصان میں اگرچہ عقیدہ تو یہی ہو کہ کارساز اللہ تعالیٰ ہے، مگر عملاً دوسروں کو کارساز سمجھے اور ساری کوشش دوسروں ہی سے وابستہ رکھے، یا عبادات میں ریا کاری کرے کہ دوسروں کو دکھانے کے لئے نماز وغیرہ کو درست کرکے پڑھے، یا صدقہ خیرات نام آوری کے خیال سے کرے، یا عملاً نفع نقصان کا مالک کسی غیر اللہ کو قرار دے، شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے
دریں نوعے از شرک پوشیدہ است کہ زیدم بہ بخشیدو عمرم بخست
یعنی اس میں بھی ایک قسم کا شرک چھپا ہوا ہے کہ آدمی یوں سمجھے کہ مجھے زید نے کچھ بخش دیا اور عمر نے نقصان پہنچا دیا، بلکہ حقیقت اس کے سوا نہیں کہ بخشش یا نقصان جو کچھ ہے وہ قادر مطلق حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، زید اور عمر پردے ہیں جن کے اندر سے بخشش یا نقصان کا ظہور ہوتا ہے ورنہ جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے کہ اگر ساری دنیا کے جن و انس مل کر تم کو کوئی ایسا نفع پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر نہیں فرمایا تو مجال نہیں کہ پہنچا سکیں، اسی طرح اگر ساری دنیا کے جن و انس مل کر تم کو کوئی ایسا نقصان پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا تو یہ بھی کسی سے ممکن نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ شرک جلی اور خفی دونوں سے انتہائی پرہیز کرنا چاہیے، اور شرک میں جس طرح بتوں وغیرہ کی پوجا پاٹ داخل ہے، اسی طرح انبیاء و اولیاء کو علم وقدرت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا بھی شرک میں داخل ہے، اگر خدا نخواستہ کسی کا عقیدہ ہی ایسا ہو تو شرک جلی ہے، اور عقیدہ نہ ہو مگر عمل اس طرح کا ہے تو شرک خفی کہلائے گا، اس مقام میں سب سے پہلے شرک سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے، وجہ یہ ہے کہ شرک ایسا جرم ہے جس کے متعلق قرآن کا فیصلہ ہے کہ اس کی معافی نہیں، اس کے سوا دوسرے گناہوں کی معافی مختلف اسباب سے ہو سکتی ہے، اسی لئے حدیث میں بروایت حضرت عبادہ بن صامت ؓ و حضرت ابو الدرداء ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو ساجھی نہ قرار دو ، اگرچہ تمہارے ٹکڑے کردیئے جائیں، یا تمہیں سولی پر چڑھا دیا جائے، یا تمہیں زندہ جلا دیا جائے۔
دوسرا گناہ، والدین سے بدسلوکی ہے
اس کے بعد دوسری چیز یہ ارشاد فرمائی(آیت) وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا، یعنی والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ اور اچھا برتاؤ کرو، مقصد تو اس جگہ یہ ہے کہ والدین کی نافرمانی نہ کرو، ان کو ایذاء نہ پہنچاؤ، مگر حکیمانہ انداز سے بیان اس طرح کیا گیا کہ والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو، اس میں اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ والدین کے حق میں صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ان کی نافرمانی نہ کرو اور ایذاء نہ پہنچاؤ، بلکہ حسن سلوک اور نیاز مندانہ برتاؤ کے ذریعہ ان کو راضی رکھنا اور خوش کرنا فرض ہے، جس کا بیان دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح آیا ہے(آیت) واخفض لہما جناح الذل، ”یعنی ان کے سامنے اپنے بازو نیاز مندانہ طور پر پست کرو“۔
اس آیت میں والدین کو ایذاء پہنچانے اور تکلیف دینے کو شرک کے بعد دوسرے نمبر کا جرم قرار دیا ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں ان کی اطاعت اور راحت رسانی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر ارشاد فرمایا ہے
(آیت) وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا۔
”یعنی آپ ﷺ کے رب نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو“۔
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا
(آیت) ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر
”یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا پھر میری ہی طرف لوٹ کر آنا یعنی اگر خلاف کرو گے تو سزا پاؤ گے“۔
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے افضل اور بہتر عمل کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”نماز کو اس کے وقت (مستحب) میں پڑھنا“۔ فرماتے ہیں کہ میں نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے ؟ تو فرمایا ”والدین کے ساتھ اچھا سلوک“۔ پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا عمل ہے ؟ فرمایا”اللہ کے راستہ میں جہاد“۔
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ مذکور ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایاانفہ رغم انفہ رغم انفہ، یعنی ذلیل ہوگیا، ذلیل ہوگیا، ذلیل ہوگیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کون ذلیل ہوگیا ؟ فرمایا وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے کے زمانہ میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔
مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے کے زمانہ میں والدین کی خدمت سے جنت کا ملنا یقینی ہے بڑا محروم و ذلیل ہے وہ شخص جس نے اتنی سستی جنت کو ہاتھ سے کھو دیا، سستی اس لئے کہ والدین جو اولاد پر طبعی طور پر خود ہی مہربان ہوتے ہیں وہ ذرا سی خدمت سے بہت خوش ہوجاتے ہیں، ان کا خوش رکھنا کسی بڑے عمل کا محتاج نہیں، اور بڑھاپے کی قید اس لئے کہ جس وقت والدین تندرست اور قوی ہیں، اور اپنی ضروریات خود پوری کرتے ہیں بلکہ اولاد کی بھی مالی اور جانی امداد کردیتے ہیں اس وقت تو نہ خدمت کے وہ محتاج ہیں نہ اس خدمت کا کوئی خاص وزن ہے، قابل قدر خدمت اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب کہ وہ بڑھاپے کی وجہ سے محتاج ہوں۔
تیسرا حرام قتل اولاد
تیسری چیز جس کا حرام ہونا ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ قتل اولاد ہے، اور مناسب یہ ہے کہ اس سے پہلے ماں باپ کے حق کا بیان تھا جو اولاد کے ذمہ ہے اور اس میں اولاد کے حق کا بیان ہے جو ماں باپ کے ذمہ ہے، اولاد کے ساتھ بدسلوکی کا بدترین معاملہ وہ تھا جو جاہلیت میں اس کو زندہ درگور کرنے یا قتل کرنے کا جاری تھا، اس آیت میں اس سے روکا گیا۔ ارشاد فرمایا (آیت) ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ”یعنی افلاس کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم تم کو بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی“۔
جاہلیت کے زمانہ میں بےرحمی اور سنگدلی کی یہ بدترین رسم چل پڑی تھی کہ جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو اس عار کے خوف سے کہ کسی کو داماد بنانا پڑے گا زندہ گڑھے میں دفن کردیتے تھے، اور بعض اوقات اس خوف سے کہ اولاد کے لئے ضروریات زندگی اور کھانے پینے کا سامان جمع کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی، یہ سنگدل لوگ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کردیتے تھے، قرآن کریم نے اس رسم کو مٹایا، اور جو ارشاد اوپر مذکور ہوا، اس میں ان کے اس ذہنی مرض کا بھی علاج کردیا، جس کے سبب وہ اس بدترین جرم کے مرتکب ہوتے تھے کہ بچوں کو کھانا کہاں سے کھلائیں گے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتلا دیا کہ کھانا کھلانے اور رزق پہنچانے کے اصلی ذمہ دار تم پر نہیں، یہ کام براہ راست حق تعالیٰ کا ہے، تم خود اپنے رزق اور کھانے میں بھی اسی کے محتاج ہو، وہ دیتا ہے تو تم بچوں کو بھی دیدیتے ہو، وہ اگر تمہیں نہ دے تو تمہاری کیا مجال ہے کہ ایک دانہ گیہوں یا چاول کا خود پیدا کرلو، زمین کے اندر سے بیج کو ایک کونپل کی صورت میں منوں مٹی کو چیر پھاڑ کر نکالنا پھر اس کو درخت کی صورت دینا، پھر اس پر پھول پھل لگانا کس کا کام ہے ؟ کیا ماں باپ یہ کام کرسکتے ہیں ؟ یہ تو سب قادر مطلق کی قدرت و حکمت کے کرشمے ہیں، انسان کے عمل کا اس میں کیا دخل ہے وہ تو صرف اتنا کرسکتا ہے کہ زمین کو نرم کر دے اور درخت نکلے تو پانی دے دے، اور اس کی حفاظت کرلے، مگر پھول پھل پیدا کرنے میں تو اس کا ادنیٰ دخل نہیں، معلوم ہوا کہ ماں باپ کا یہ تصور غلط ہے کہ ہم بچوں کو رزق دیتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے خزانہ غیب سے ماں باپ کو بھی ملتا ہے، اولاد کو بھی، اسی لئے اس جگہ ماں باپ کے ذکر کو مقدم کرکے فرمایا کہ ہم تم کو بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی، اس تقدیم میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ تم کو رزق اس لئے دیا جاتا ہے کہ تم بچوں کو پہنچاؤ، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےانما تنصرون وترزقون بضعفاء کم ”یعنی تمہارے کمزور لوگوں کے طفیل میں اللہ تعالیٰ تمہاری بھی مدد فرماتے ہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں“۔
اولاد کی تعلیمی اخلاقی تربیت نہ کرنا اور بےدینی کے لئے آزاد چھوڑ دینا بھی ایک طرح سے قتل اولاد ہے
قتل اولاد کا جرم اور سخت گناہ ہونا جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وہ ظاہری قتل کرنے اور مار ڈالنے کے لئے تو ظاہری ہے، اور غور کیا جائے تو اولاد کو تعلیم و تربیت نہ دینا جس کے نتیجہ میں خدا و رسول ﷺ اور آخرت کی فکر سے غافل رہے، بد اخلاقیوں اور بےحیائیوں میں گرفتار ہو یہ بھی قتل اولاد سے کم نہیں، قرآن کریم نے اس شخص کو مردہ قرار دیا ہے جو اللہ کو نہ پہچانے، اور اس کی اطاعت نہ کرے، (آیت) اومن کان میتا فاحیینہ میں اسی کا بیان ہے، جو لوگ اپنی اولاد کے اعمال و اخلاق کے درست کرنے پر توجہ نہیں دیتے ان کو آزاد چھوڑتے ہیں یا ایسی غلط تعلیم دلاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اسلامی اخلاق تباہ ہوں وہ بھی ایک حیثیت سے قتل اولاد کے مجرم ہیں، اور ظاہری قتل کا اثر تو صرف دنیا کی چند روزہ زندگی کو تباہ کرتا ہے، یہ قتل انسان کی اخروی اور دائمی زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔
چوتھا حرام بےحیائی کا کام ہے
چوتھی چیز جس کے حرام ہونے کا ان آیات میں بیان ہے وہ بےحیائی کے کام ہیں، اس کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ، یعنی بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ۔
فَوَاحِشُ ، فاحشہ کی جمع ہے، اور لفظ فحش، فحشاء اور فاحشہ سب مصدر ہیں، جن کا اردو میں ترجمہ بےحیائی سے کیا جاتا ہے، اور قرآن و حدیث کی اصلاح میں ہر ایسے برے کام کے لئے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں جس کی برائی اور فساد کے اثرات برے ہوں اور دور تک پہنچیں، امام راغب رحمة اللہ علیہ نے مفردات القرآن میں اور ابن اثیر رحمة اللہ علیہ نے بہایہ میں یہی معنی بیان فرمائے ہیں، قرآن کریم میں جابجا فحش اور فحشاء کی ممانعت وارد ہوئی ہے ایک آیت میں ارشاد ہے (آیت) ینھی عن الفحشاء والمنکر، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) حرم ربی الفواحش وغیرہ۔
فحش اور فحشاء کے اس مفہوم عام میں تمام بڑے گناہ داخل ہیں خواہ اقوال سے متعلق ہوں یا افعال سے اور ظاہر سے متعلق ہوں یا باطن اور قلب سے، بدکاری اور بےحیائی کے جتنے کام ہیں وہ بھی سب اس میں داخل ہیں، اسی لئے عام زبانوں پر یہ لفظ بدکاری کے معنی میں بولا جاتا ہے، قرآن کی اس آیت میں فواحش کے قریب جانے سے بھی روکا گیا ہے، اس کو اگر مفہوم عام میں لیا جائے تو تمام بری خصلتیں اور گناہ خواہ زبان کے ہوں خواہ ہاتھ پاؤں وغیرہ کے، اور خواہ دل سے متعلق ہوں، سبھی اس میں داخل ہوگئے، اور اگر مشہور عوام معنی بےحیائی کے لئے جاویں تو اس کے معنی بدکاری اور اس کے مقدمات اور اسباب مراد ہوں گے۔
پھر اسی آیت میں فواحش کی تفسیر میں یہ بھی فرما دیا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ، پہلی تفسیر کے مطابق ظاہری فواحش سے زبان اور ہاتھ پاؤں وغیرہ کے تمام گناہ مراد ہوں گے، اور باطنی فواحش سے مراد وہ گناہ ہوں گے جو دل سے متعلق ہیں، جیسے حسد، کینہ، حرص، ناشکری، بےصبری وغیرہ۔
اور دوسری تفسیر کے مطابق ظاہری فواحش سے مراد وہ بےحیائی کے کام ہوں گے جن کو علانیہ کیا جاتا ہے، اور باطنی وہ جو چھپا کر کئے جاویں، کھلی بدکاری میں اس کے مقدمات و لوازمات سب داخل ہیں، بدنیتی سے کسی عورت کی طرف دیکھنا، ہاتھ وغیرہ سے چھونا، اس سے اس طرح کی باتیں کرنا سب اس میں داخل ہیں، اور باطنی بےحیائی میں وہ خیالات اور ارادے اور ان کو پورا کرنے کی خفیہ تدبیریں داخل ہیں جو کسی بےحیائی اور بدکاری کے سلسلہ میں عمل میں لائی جائیں۔
اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ ظاہری فواحش سے وہ بےحیائی کے کام مراد ہیں جن کا برا ہونا عام طور پر مشہور و معلوم ہے اور سب جانتے ہیں، اور باطنی فواحش سے مراد وہ افعال ہیں جو اللہ کے نزدیک بےحیائی کے کام ہیں، اگرچہ عام طور پر ان کو لوگ برا نہیں جانتے یا عام لوگوں کو ان کا حرام ہونا معلوم نہیں، مثلاً بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد بیوی بنا کر رکھ چھوڑنا یا کسی ایسی عورت سے نکاح کرلیا جو شرعاً اس کے لئے حلال نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت فواحش کے اصل مفہوم کے اعتبار سے تمام ظاہری اور باطنی گناہوں کو اور مشہور عام مفہوم کے اعتبار سے بدکاری و بےحیائی کے جتنے طریقے کھلے یا چھپے ہوئے ہیں ان سب کو شامل ہے، اور حکم اس میں یہ دیا گیا ہے کہ ان چیزوں کے پاس بھی نہ جاؤ، پاس نہ جانے سے مراد یہ ہے کہ ایسی مجلسوں اور ایسے مقامات سے بھی بچو جہاں جاکر اس کا خطرہ ہو کہ ہم گناہ میں مبتلا ہوجائیں گے، اور ایسے کاموں سے بھی بچو جن سے ان گناہوں کا راستہ نکلتا ہو، حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے
من حام حول حمی او شک ان یقع فیہ
”یعنی جو شخص کسی ممنوع جگہ کے گرد گھومتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ وہ اس میں داخل بھی ہوجائے“۔
اس لئے احتیاط کا مقتضیٰ یہی ہے کہ جس جگہ کا داخلہ ممنوع ہے اس جگہ کے اردگرد بھی نہ پھرے۔
پانچواں حرام قتل ناحق ہے
محرمات میں سے پانچویں چیز قتل ناحق ہے، اس کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ ۭ ”یعنی جس شخص کا خون اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق پر“۔ اور اس حق کی تفصیل رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے جو بروایت عبداللہ بن مسعود ؓ بخاری و مسلم نے نقل کی ہے وہ یہ کہ آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں، مگر تین چیزوں سے، ایک یہ کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہوجائے، دوسرے یہ کہ اس نے کسی کا ناحق قتل کردیا ہو، اس کے قصاص میں مارا جائے، تیسرے یہ کہ اپنا دین حق چھوڑ کر مرتد ہوگیا ہو۔
حضرت عثمان غنی ؓ جس وقت باغیوں کے نرغہ میں محصور تھے، اور یہ لوگ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اس وقت بھی حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کو یہ حدیث سنا کر کہا کہ بحمد اللہ میں ان تینوں چیزوں سے بری ہوں، میں نے زمانہ اسلام میں تو کیا زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی بدکاری نہیں کی، اور نہ میں نے کسی کو قتل کیا، اور نہ کبھی میرے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ میں اپنے دین اسلام کو چھوڑ دوں، پھر تم مجھے کس بناء پر قتل کرتے ہو ؟
اور بےوجہ قتل کرنا جیسے مسلمان کا حرام ہے اسی طرح اس غیر مسلم کا قتل بھی ایسا ہی حرام ہے جو کسی اسلامی ملک میں ملک کے قانون کا پابند ہو کر رہتا ہے، یا جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں بروایت ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو کسی ذمی غیر مسلم کو قتل کر دے اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دیا، اور جو شخص اللہ کے عہد کو توڑ دے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔
اس ایک آیت میں دس سے پانچ حرام و ناجائز چیزوں کو بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ”یعنی ان چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو“۔
Top