Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 33
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں تَعَالَوْا : آؤ اَتْلُ : میں پڑھ کر سناؤں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلَيْكُمْ : تم پر اَلَّا تُشْرِكُوْا : کہ نہ شریک ٹھہراؤ بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کوئی وَّبِالْوَالِدَيْنِ : اور والدین کے ساتھ اِحْسَانًا : نیک سلوک وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد مِّنْ : سے اِمْلَاقٍ : مفلس نَحْنُ : ہم نَرْزُقُكُمْ : تمہیں رزق دیتے ہیں وَاِيَّاهُمْ : اور ان کو وَلَا تَقْرَبُوا : اور قریب نہ جاؤ تم الْفَوَاحِشَ : بےحیائی (جمع) مَا ظَهَرَ : جو ظاہر ہو مِنْهَا : اس سے (ان میں) وَمَا : اور جو بَطَنَ : چھپی ہو وَلَا تَقْتُلُوا : اور نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : جو۔ جس حَرَّمَ : حرمت دی اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر حق پر ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : تمہیں حکم دیا ہے بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لو (سمجھو)
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں ( ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے (بد سلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا (کیونکہ) تم کو اور ان کو ہمیں رزق دیتے ہیں۔ اور بےحیائی کا کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا۔ اور کسی جان (والے کو) جس کے قتل کو خدا نے حرام کردیا ہے قتل نہ کرنا۔ مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں تاکید فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
آیت نمبر : 151۔ 152۔ 153 اس میں چودہ مسئلے ہیں مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : آیت : قل تعالوا اتل آو اور پڑھو جو یقینا حق ہے جیسا کہ میرے رب نے میری طرف وحی فرمایا ہے، نہ یہ ظن ہے اور نہ ہی کذب جیسا کہ تم نے گمان کیا ہے، پھر اسے بیان فرمایا اور ارشاد فرمایا : آیت : الا تشرکوا بہ شیا آدمی کے لیے کہا جاتا ہے : تعال یعنی آگے آو اور عورت کے لیے تعالیٰ تثنیہ مذکر و مؤنث کے لیے تعالیا اور جمع مذکر کے لیے تعالوا اور جمع مونث کے لیے تعالین کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فتعالین امتعکن (الاحزاب : 28) ( تو آو تمہیں مال و متاع دے دوں) اور انہوں نے تقدم کو تعالیٰ اور ارتفاع ( بلند ہونا اور چڑھنا) کی ایک قسم قرار دیا ہے، کیونکہ مامور بالتقدم فی الاصل اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہے گویا کہ وہ بیٹھا ہوا تھا تو اسے کہا گیا : تعال، ای ارفع شخصک بالقیام و تقدم ( یعنی اٹھ اور آگے آ) اور انہوں نے اس میں وسعت رکھ دی ہے یہاں تک کہ انہوں نے اسے ٹھہرنے والے کے لیے استعمال کیا ہے، یہ ابن الشجری نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ما حرم اس میں ما خبریہ ہے اور اتل کے سبب محل نصب میں ہے اور معنی یہ ہے : آو میں وہ تلاوت کرتا ہوں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ پس اگر علیکم، حرم کے ساتھ معلق ہو تو پھر وجہ یہ ہے، کیونکہ یہ قریب ترین ہے اور بصریوں کی پسند ہے۔ اور اگر تم اسے اتل کے ساتھ معلق کرو تو یہ جید اور عمدہ ہے، کیونکہ وہ اسبق اور پہلے ہے۔ اور اسے ہی کو فیوں نے اختیار کیا ہے۔ اور اس قول میں تقدیر عبارت یہ ہے آتل علیکم الذی حرم ربکم، الا تشرکوا یہ محل نصب میں ہے اور اس میں پہلے لفظ اول کے ساتھ فعل مقدر ہے، یعنی اتل علیکم الا تشرکوا یعنی میں تم پر تلاوت کرتا ہوں کہ شرک کرنا حرام ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس فعل اغرا کے سبب منصوب ہو جو علیکم میں ہے اور علیکم اپنے ماقبل سے منقطع ہو، یعنی علیکم ترک الاشراک، وعلیکم احسانا بالوالدین ( تم پر شرک کو ترک کرنا لازم ہے اور تم پر والدین کے ساتھ احسان کرنا لازم ہے) اور نحاس نے کہا ہے : یہ جائز ہے کہ ان محل نصب میں ہو اور وہ ما سے بدل ہو۔ یعنی اتل علیکم تحریم الاشراک ( میں تم پر شرک کی تحریم کا حکم تلاوت کرتا ہوں) اور فراء نے اختیار کیا ہے کہ الا نہی کے لیے ہے، کیونکہ اس کے بعد ولا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 : یہ آیت اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ہے کہ آپ تمام مخلوق کو ان چیزوں کے بارے تلاوت سننے کی دعوت دیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں۔ اور اسی طرح آپ کے بعد علماء پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں اور ان کے لیے وہ چیزیں بیان کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان چیزوں میں سے حرام قرار دیں ہیں جو اس نے حلال فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ ( آل عمران : 187) ( کہ تم ضرور کھول کر بیان کرنا اسے لوگوں سے اور نہ چھپانا اس کو) ۔ اور ابن المبارک نے ذکر کیا ہے : ہمیں عیسیٰ بن عمر بن عمر و بن مرہ وے خبر دی ہے کہ انہوں نے انہیں بتایا اور کہا کہ ان کے ہمنشین ربیع بن خثیم نے کہا : کیا تجھے یہ بات خوش کرے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کا ایک صحیفہ لایا جائے جس کی مہر نہیں توڑی گئی ؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں۔ تو انہوں نے فرمایا : پس یہ پڑھو آیت : قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم، پس انہوں نے تین آیات کے آخر تک پڑھا۔ اور حضرت کعب الاحبار نے کہا ہے : یہ آیت تو تورات کا آغاز ہے : آیت : بسم اللہ الرحمن الرحیم قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم الایہ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : یہ وہ محکم آیات ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں کیا ہے اور ان پر تمام مخلوق کے ادیا نکا اجماع ہے اور وہ کسی دین میں کبھی منسوخ نہیں ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلاسبہ یہ وہ دس کلمات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیے گئے۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ آیت : وبالوالدین احسانا والدین کے ساتھ احسان کرنے کا مفہوم ہے ان کے ساتھ نیکی کرنا، ان کی حفاظت کرنا، انہیں ( تکلیف اور رنج والم سے) بچانا، ان کے حکم کی تعمیل کرنا، ان سے غلامی کو زائل کرنا اور ان پر رعب داب اور غلبہ نہ پانا۔ اور احسانا مصدر ( مفعول مطلق) ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ اور اس کا ناصب اس کا ہم لفظ فعل مضمر ہے۔ تقدیر کلام ہے واحسنوا بالوالدین احسانا۔ مسئلہ نمبر 5۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تقتلوا اولادکم من املاق املاق کا معنی فقروافلاس ہے یعنی تم فقر و افلاس کے خوف سے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور نہ کرو، کیونکہ میں تمہارا اور ان کار ازق ہوں۔ تحقیق ان میں ایسے ہی تھے جو فقر و افلاس کے ڈر سے بچیوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتے تھے، جیسا کہ ظاہر آیت دلالت کرتی ہے۔ املق بمعنی افتقر ( فقیر ہونا) ہے اور املقہ بمعنی افقرہ ( اس نے اسے مفلس کردیا) یہ فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ نقاش نے مورج سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : املاق کا معنی لغت لخم کے مطابق بھوک ہے۔ اور منذر بن سعید نے ذکر کیا ہے کہ املاق کا معنی انفاق ( خرچ کرنا) ہے کہا جاتا ہے : املق مالہ بمعنی انفقہ ( یعنی اس نے اپنا مال خرچ کیا) اور یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت علی ؓ نے اپنی بیوی کو فرمایا : املقی من مالک ما شئت ( اپنے مال میں سے تو جو چاہے خرچ کر) اور رجل ملق وہ آدمی جو اپنی زبان سے وہ کچھ دیتا ہے جو اس کے دل میں نہیں ہوتا۔ پس الملق لفظ مشترک ہے اس کا بیان اپنے محل میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر 6۔ اس سے وہ استدلال کرتے ہیں جو عزل سے روکتے ہیں، کیونکہ زندہ درگور کرنا موجودہ فرد اور نسل کو اٹھانا اور ختم کرنا ہوتا ہے اور عزل اصل نسل کا انکار ہوتا ہے لہٰذا یہ اس کے مشابہ ہوگیا، مگر ایک نفس کو قتل کرنا ( مارنا) بہت بڑا گناہ اور انتہائی قبیح اور برا فعل ہے۔ اسی لیے ہمارے بعض علماء نے کہا ہے : بیشک عزل کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ذالک الواد الخفی ( صحیح مسلم، کتاب النکاح، جلد 1، صفحہ، 466) وہ (عزل کرنا) وادخفی ہے یعنی یہ خفیہ زندہ درگور کرنا ہی ہے) تو یہ کراہت ہے نہ کہ تحریم اور صحابہ کرام کی ایک جماعت اور دوسروں نے بھی کہ کہا ہے۔ اور عزل کی اباحت کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی ایک جماعت، تابعین اور فقہاء کا قول ہے، کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : لا علیکم الا تفعلوا فانما ھو القدر (ایضا، جلد 1، صفحہ، 464) یعنی تم پر کوئی حرج نہیں اس بارے میں کہ تم نہ کرو (بلا شبہ یہ تقدیر ہے) تحقیق اس سے حسن اور محمد بن مثنی نے یہ سمجھا ہے کہ یہ عزل کے بارے میں نہی اور زجر وتوبیخ ہے۔ اور پہلی تاویل اولیٰ اور بہتر ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : واذا اراد اللہ خلق شیء لم یمنعہ شی (ایضا، جلد 1، صفحہ، 465) اور جب اللہ تعالیٰ کسی شی کو پیدا کرنے کا ارادہ فرما لے تو کوئی شی اسے نہیں روک سکتی) امام مالک اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : آزاد عورت کے ساتھ اس کی اجازت کے بغیر عزل جائز نہیں ہوتا، گویا انہوں نے انزال کو عورت کی لذت کی تکمیل دیکھا ہے اور اسے بچے کے بارے میں عورت کے حق میں سے قرار دیا ہے اور اگر موطؤہ لونڈی ہو تو اس کے بارے ان کا یہ خیال نہیں، کیونکہ آدمی اس کے ساتھ اس کی اجازت کے بغیرعزل کرسکتا ہے، کیونکہ اس کا ذکر کردہ چیزوں میں سے کسی شی میں کوئی حق نہیں۔ مسئلہ نمبر 7۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تقربوا الفواحش ما ظھر منھا وما بطن اسی کی مثل یہ آیت ہے۔ آیت : وذروا ظاھر الاثم و باطنہ ( الانعام : 120) ( اور ترک کر دو ظاہری گناہ کو اور چھپے ہوئے کو) پس اس کا قول ما ظھر گناہوں اور معاصی کی تمام انواع سے نہیں اور روکنا ہے۔ اور وما بطن سے مراد مخالفت کا وہ نظریہ اور اعتقاد جو دل میں پختہ ہوجائے۔ اور ظھر وبطن دو حالتیں ہیں جو مکمل طور پر اشیاء کی ان تمام اقسام کو محیط ہیں جو اس کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اور ما ظھر، الفواحش سے بدل ہونے کی بناء پر منصوب ہے اور وما بطن اس پر معطوف ہے۔ مسئلہ نمبر 8۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالح، النفس میںٰ الف لام تعریف جنس کے لیے ہے، جیسا کہ ان کے اس قول میں ہے : اھلک الناس حب الدرھم والدینار اور اسی کی مثل یہ ارشاد ہے آیت : ان الانسان خلق ھلوعا (المعارج : 19) ( ان مثالوں میں الناس اور الانسان پر الف لام تعریف جنس کے لیے ہے) کہا آپ دیکھتے نہیں کہ رب کریم کا ارشاد ہے : الا المصلین ( المعارج) (سوائے نمازیوں کے) اور اسی طرح ارشاد گرامی ہے : والعصر ان الانسان لفی خسر (العصر) (قسم ہے زمانے کی بیشک انسان خسارے میں ہے) (اس میں الانسان پر الف لام جنسی ہے) کیونکہ آگے فرمایا : آیت : الا الذین امنوا (العصر : 3) (سوائے ان کے جو ایمان لائے) تو یہ آیت اس نفس کو قتل کرنے کے بارے میں نہی ہے جسے حرام کیا گیا ہے، چاہے وہ مومن ہو یا ان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہو مگر اس حق کے ساتھ جو اس کے قتل کو واجب کرتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کہنے لگیں لا الہ الا اللہ پس جس نے کہا : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو محفوظ کرلیا مگر اس کے حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے “ (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، جلد 2، صفحہ 89) اور اس حق میں کئی امور ہیں ؛ ان میں سے زکوٰۃ کا انکار کرنا اور نماز کو ترک کرنا بھی ہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے منکرین زکوٰۃ کے ساتھ قتال کیا۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : فان تابوا واقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ فخلوا سبیلھم (التوبہ : 5) ( پھر اگار یہ توبہ کرلیں اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکوٰۃ تو چھوڑ دو ان کا راستہ) اور یہ بالکل بین اور واضح ہے۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ولا یحل دم امری مسلم الا باحدی ثلاث الثیب الزانی والنفس بالنفس والتارک لدینہ المفارق للجماعۃ ( مسند امام احمد، حدیث نمبر 3621) ( مسلم آدمی کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے ثیبہ عورت جو زنا کرے، نفس کو نفس کے بدلے (ایک آدمی کسی کو قتل کرے تو اس کے بدلے قاتل کو قتل کیا جائے گا) اور جماعت سے الگ ہو کر اپنے دین کو ترک کرنے والا ( یعنی مرتد ہونے کے سبب وہ واجب القتل ہوجائے گا) ۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الآخر منھما (صحیح مسلم، کتاب المارہ، جلد 2، صفحہ 128) ( جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو ) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور ابو داؤدنے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من وجد تم وہ یعمل عمل قوط لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 257) ( جسے تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل کرتا ہے تو تم فاعل اور مفعول بہ کو قتل کردو) عنقریب اس کا بیان سورة اعراف میں آئے گا۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : انما جزؤا الذین یحاربہوں اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتوا الآیہ ( المائدہ : 32) ( بلا شبہ سزا ان لوگوں کی جو جنگ کرتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے زمین میں فساد برپا کرنے کی یہ ہے کہ کہ انہیں ( چن چن کر) قتل کیا جائے) ۔ اور مزید فرمایا : آیت : وان طآئفتن من المؤمنین اقتلوا الآیہ ( الحجرات : 9) ( اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو ) اور اسی طرح وہ آدمی جس نے مسلمانوں کا عصا توڑا اور ان میں سے کسی جماعت کے امام کی مخالفت کی اور ان کے کلمہ ( قول) کو متفرق کردیا اور اہل و مال کو اچک کر زمین میں فساد برپا کردیا اور حاکم وقت کے خلاف بغاوت کردی اور اس کا حکم ماننے سے انکار کیا تو اسے بھی قتل کردیا جائے گا، پس رب کریم کے ارشاد الا بالحق کا یہی معنی ہے۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : المؤمنون تتکافا دماؤھم ویسعی بذمتھم ادناھم لا یقتل مسلم بکافر ولا ذوعھد فی عھدہ ولا یتوارث اھل ملتین (سنن ابی داؤد، کتاب الدیات، کتاب الفرائض، حدیث، 2523۔ سنن ابن ماجہ، کتاب الفرائض، حدیث 2720، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ( مومنین کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور ان کے ادنی اپنی ذمہ داری کے لیے کوشش کریں گے کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی ذمی کو اس کے عہد کے دوران قتل کیا جائے گا اور علیحدہ علیحدہ دو دین رکھنے والے ایک دوسرے کے وراث نہیں بنیں گے) ۔ ابو داؤد اور نسائی نے ابو بکرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : من قتل معاھدا فی غیر کنھہ حرم اللہ علیہ الجنۃ ( جس نے کسی ذمی کو بلا وجہ قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی۔ اور ابو داؤد کی دوسری روایت میں ہے فرمایا : من قتل رجلا من اھل الذمۃ لم یجد ریح الجنۃ وان ریحھا لیوجد من مسیرۃ سبعین عاما (مسند امام احمد، حدیث نمبر، 6745) (جس نے اہل ذمہ میں سے کسی آدمی کو قتل کیا وہ جنت کی ہوا نہیں پائے گا اور بلا سبہ اس کی ہوا ستر برس کی مسافت سے پائء جائے گی) (صحیح بخاری، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 1021 ) ۔ آپ نے اسے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ عنما کی حدیث سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 9۔ قولہ تعالیٰ : ذلکم یہ ان محرمات کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہیں اور ان دونوں کا اعراب میں کوئی حصہ نہیں۔ آیت : وصٰکم بہ وصیت سے مراد وہ امر (حکم) ہے جو مؤکد اور مقرر ہے۔ اور کاف اور میم محل نصب میں ہیں، کیونکہ یہ ضمیر ہے جو مخاطب کے لیے وضع کی گئی ہے۔ اور وحی میں ضمیر فاعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور مطر الوراق نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان ذوالنورین ؓ نے اپنے ساتھیوں پر اوپر سے جھانک کر دیکھا اور فرمایا : تم کس بنا پر مجھے قتل کرتے ہو ؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے وہ آدمی جس نے محصن ہونے کے بعد زنا کیا تو اس پر رجم کی سزا ہے یا جس نے عمدا کسی کو قتل کیا تو اس پر قصاص ہے یا جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا تو اس پر قتل کی سزا ہے “ (جامع ترمذی کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 485) ۔ تو اقسم بخدا ! نہ میں نے زنا کیا ہے زمانہ جاہلیت میں اور نہ زمانہ اسلام میں اور میں نے کسی کو قتل نہیں کیا کہ اس کے بدلے میری جان لی جائے ( یعنی مجھے قصاصا قتل کیا جائے) اور نہ میں مرتد ہوا ہوں جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے، بلاشبہ میں شہادت دیتا ہوں لا الہ الا اللہ وان محمدا عبداہ ورسولہ، یہ جو میں نے تمہارے لیے ذکر کیا ہے اسی کے بارے اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم (حقیقت کو) سمجھو (سنن ابی داؤد، کتاب الحدیود باب الاما یامر بالعفول الدم، حدیث نمبر 3903، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، سنن ابن ماجہ۔ کتاب الحدیود باب لا عحلل دم امری مسلم الافی ثلاث۔ حدیث نمبر 2523، ایضا) مسئلہ نمبر 10 : قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن یعنی یتیم کے مال کے قریب نہ جاو مگر اس طریقہ سے جس میں اس کا فائدہ ہو اور یہ اس کے اصل مال کی حفاظت کرنا اور اس کے فروع میں اضافہ کرنا ہے۔ اور اس میں یہی سب سے اچھا قول ہے، کیونکہ یہ جامع قول ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : آیت : ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن یعنی اس میں تجارت کرنے کے ساتھ اور نہ تو اس سے خریدے اور نہ قرض لے۔ مسئلہ نمبر 11۔ قولہ تعالیٰ : آیت : حتہ یبلغ اشدہ یعنی یہاں تک کہ وہ اپنی قوت کو پہنچ جائے اور یہ کبھی بدن میں ہوتی ہے اور کبھی معرفت وپہچان میں تجربہ کے ساتھ اور دونوں وجہوں کا حصول ضروری ہے، کیونکہ یہاں اشد کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے، حالانکہ سورة النساء میں یتیم کے حال کا بیان مقید آیا ہے، چناچہ ارشاد فرمایا : آیت : وابتلوا الیتمی حتی اذابلغوا النکاح فان انستم منھم رشدا (النساء : 6) ( اور آزماتے ہو یتیموں کو یہاں تک کہ وہ پہنچ جائیں نکاح ( کی عمر) کو پس اگر محسوس کرو تم ان میں دانائی ) ۔ پس یہ قوت بندن اور بلوغ النکاح ہے اور قوت معرفت اور وہ ایناس الرشد ہے دونوں کو جامع ہے اور اگر یتیم کو اپنے مال پر معرتف حاصل ہونے سے پہلے اور قوت بدنیہ حاصل ہونے کے بعد قدرت اور اختیار دے دیا جائے تو وہ یقینا اسے اپنی شہوات میں ضائع کر دے اور پھر وہ ایسا نادار اور مفلس باقی رہ جائے جس کے پاس کوئی مال نہیں ہوتا۔ اور اس شرط کے ساتھ یتیم کو خاص اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ لوگ اس سے غافل وہتے ہیں اور آباء اپنے بیٹوں کے پاس موجود نہیں ہوتے پس باپ کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھانا ( اور جھوٹ بولنا) بدرجہ اولیٰ ہوگا۔ اور جوانی کی عمر تک پہنچنا ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو بغیر احسن طریقہ کے اس کے مال کے قریب جانے کو مباح قرار دیتا ہو یا کیونکہ بالغ کے حق میں حرمت ثابت ہے۔ اور یتیم کو خاص طور پر ذکر اس لیے کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے جھگڑا کیا ہے ( اور وہ غالب ہے) اور معنی یہ ہے کہ تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤمگر ایسے طریقے سے جو ہمیشہ کے لیے بہت اچھا ہو یا یہاں تک کہ جو جوانی کی عمر کو پہنچ جائے۔ اور کلام میں حذف ہے : فاذا بلغ اشدہ واونس منہ الرشد فادفعوا الیہ مالہ ( یعنی جب وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور اس سے دانئی مانوس ہوجائے تو تم اسے اس کا مال دے دو ) ۔ اور علامء نے یتیم کے جوانی کی عمر کو پہنچنے کے بارے اختلاف کیا ہے۔ پس ابن زیدنے کہا ہے : اس لا بالغ ہونا مراد ہے۔ اور اہل مدینہ نے کہا ہے : اس کا بالغ ہونا اور اس کا رشد وہدایت سے مانوس ہونا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس سے مراد اس کا پچیس برس کی عمر کو پہنچنا ہے۔ ابن عربی نے کہا (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 271) ہے : تعجب ہے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر کہ وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ مقدار ات قیاسی اور نظری طور پر ثابت نہیں ہوتیں بلکہ یہ نقلی طور پر ثابت ہوتی ہیں۔ اور آپ انہیں احادیث ضعیف سے ثابت کرتے ہیں، لیکن وہ دار الضرب ( بغداد) میں سکونت پذیر ہیں پس ان کے پاس مدلس راوی کثیر ہیں اور اگر وہ معدن (مدینہ منورہ) میں سکونت پذیر ہوتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے امام مالک (رح) کا مقدر بنایا تو پھر ان سے دین کے خالص مسائل کے سوا کچھ صادر نہ ہوتا ( یہ ابن عربی کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر تشدید ہے حالانکہ ادلہ کو پیش نظر رکھا جائے تو امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظر ائمہ کے نقطہ نظر پر فائق ہوتا ہے) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادھیڑ عمر کی انتہا، اس میں کہ کہ اس میں جوانی کی قوتیں جمع ہوچکی ہوں، جیسا کہ صحیم بن وشیل نے کہا ہے : اخو خمسین مجتمع اشدی ونجذنی مد اورۃ الشئون اس میں نجذنی دال اور ذال دونوں کے ساتھ مروی ہے اور الاشد واحد ہے اس کی جمع نہیں۔ لہٰذا یہ الانک کے قائم مقام ہے۔ جس کا معنی سیسہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا واحد شد ہے، جیسا کہ فلس اور افلس ہے اور اس کی اصل شد النھار یعنی دن چڑھ گیا ہے۔ کہا جاتا ہے : اتیتہ شد النھار ومد النھار ( میں اس کے پاس آیا اس حال میں کہ دن چڑھ چکا تھا اور پھیل گیا تھا۔ اور محمد بن محمد الضبی عنترہ کا شعر کہتا ہے : عھدی بی شد النھار کا نما خضب اللبان وراسہ بالعظلم اور ایک دوسرے نے کہا : تطیف بہ شد النھار فلعینۃ طویلۃ انقاء الیدین سحوق اور سیبویہ کہتے ہیں : اس واحد شدۃ ہے۔ جوہری نے کہا ہے : اور معنی میں یہی اچھا اور حسین ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے : بلغ الغلام شدتہ ( بچہ اپنی جوانی کو پہنچ گیا) لیکن فعلہ کی جمع افعل کے وزن پر نہیں آتی اور رہا انعم تو یہ نعم کی جمع ہے۔ یہ ان کے اس قول سے ہے : یوم بوس ( تکلیف دہ اور تنگ دن) اور یوم نعم ( خوشحال دن) اور رہا ان کا قول جنہوں نے کہا ہے کہ اس کی واحد شد ہے، جیسا کہ کلف اور اکلب ہے اور اس کی واھد شد ہے مثل ذئب اور اذئب تو بلا شبہ یہی قیاس ہے، جیسا کہ وہ ابابیل کی واحد میں کہتے ہیںٰ : ابول یہ عجول پر قیاس ہے اور یہ کوئی ایسی شی نہیں ہے جو عربوں سے سنی گئی ہو۔ ابو زید نے کہا ہے : اصابتنی شدی یہ فعلی کے وزن پر ہے، ای شدۃ ( مجھے تکلیف آپہنچی ہے اور فعلی کے وزن پر ہے اور اشد الرجل (تب کہا جاتا ہے) جب اس کے پاس طاقتور سواری کا جانور ہو۔ مسئلہ نمبر 12۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وافو الکیل والمیزان بالقسط یعنی بیع وشراء کرتے وقت لینے دینے میں عدل کے ساتھ ناپ اور تول پورا پورا کرو۔ اور القسط کا معنی عدل ہے۔ لا نکلف نفسا الا وسعھا اور ہم ناپ تول پورا کرنے میں کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کی مطابق۔ اور یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ اوامر بلاشبہ انہیں چیزوں میں ہیں جو حفاظت اور پرہیز کے اعتبار سے انسان کی قدرت واختیار کے تحت واقع ہیں۔ اور ایسا تفاوت اور فرق جو دو ناپوں کے درمیان اس طرح ہو کہ اس سے بچنا ممکن نہ ہو اور نہ وہ آدمی کی قدرت اور اختیار کے تحت داخل ہو تو وہ معاف ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیل بمعنی مکیال ( یعنی پیمانہ جس کے ساتھ ماپ کیا جاتا) ہے۔ کہا جاتا ہے : ھذا کذا وکذا کیلا یہ ناپ کے اعتبار سے اتنا اتنا ہے۔ اسی وجہ سے اس پر میزان کا عطف کیا گیا ہے۔ اور بعض علماء نے کہا ہے : جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے بارے میں یہ جان لیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ اس بات سے تنگ دل ہیںٰ کہ وہ خوشی کے ساتھ کسی کو وہ شی بھی دیں جو دنیا میں ان پر لازم اور ضروری نہیں تو اس نے دینے والے کو یہ حکم فرمایا کہ وہ صاحب حق کا وہ حق پورا پورا ادا کرے جو اس کا بنتا ہے اور اسے زیادہ دینے کا پابند نہیں فرماتا، کیونکہ زیادتی اس پر گراں گزرے گی اور اس کا دل تنگ ہوگا۔ اور صاحب حق کو حکم فرمایا کہ وہ اپنا پورا پورا حق وصول کرلے اور اسے اپنے حق سے کم مقدار پر راضی ہونے کا پابند نہیں کیا، کیونن کہ اس نقصان اور کمی میں اس کا دل تنگ ہوگا۔ اور موطا امام مالک (رح) میں ہے یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا : کسی قوم میں کبھی خیانت ظاہر نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے اور کسی قوم میں زنا عام نہیں ہوتا مگر اس میں موت بڑھ جاتی ہے اور کوئی قوم ناپ تول میں کمی نہیں کرتی مگر ان سے رزق کاٹ لیا جاتا ہے ( یعنی ان کا رزق کم کردیا جاتا ہے) اور کوئی قوم بغیر حق کے ( بےانصافی کے ساتھ) فیصلے نہیں کرتی مگر ان میں قتل و غارت عام ہوجاتی ہے اور کوئی قوم وعدہ خلافی نہیں کرتی مگر ان پر دشمن کو مسلط کردیا جاتا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی کہا ہے : بلا شبہ تم عجمیوں کے گروہ ہو تمہیں ایسے دو امروں کا والی اور پابند بنایا گیا ہے جن کے سبب تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوگئے اور وہ ناپ اور تول ہیں۔ مسئلہ نمبر 13۔ قولہ تعالیٰ : آیت : واذا قلتم فاعدلوا یہ ارشاد احکام اور شہادات تمام کو متمضن ہے۔ آیت : ولو کان ذا قربی اگرچہ وہ حق تمہارے کسی قرابت دار پر ہو، جیسا کہ سورة النساء میں گزر چکا ہے۔ آیت : وبعھد اللہ اوفوا یہ ان تمام وعدوں کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لے رکھے ہیں۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ تمام عقد ہوں جو دو آدمیوں کے طے پاتے ہیں۔ اور اس عہد کو اللہ تعالیٰ کی طرف اس وجہ سے منسوب کیا گیا ہے کہ اس نے اس کی حفاظت اور اسے وفا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آیت : لعلکم تذکرون ( تاکہ تم نصیحت حاصل کرو) مسئلہ نمبر 14۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ یہ بہت عظیم آیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ماقبل پر عطف کیا ہے، کیونکہ جب اس نے پہلے نہی اور امر بیان کیا تو یہاں اپنے راستے کے علاوہ کسی اور کی اتباع و پیروی کرنے سے ڈرایا اور اس میں اپنے راستے کی اتباع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، جیسا کہ ہم اسے احادیث صحیحہ اور اقوال سلف کے ساتھ بیان کریں گے۔ وان یہ محل نصب میں ہے ای واتل ان ھذا صراطی ( اور میں تلاوت کرتا ہوں کہ یہ میرا راستہ ہے) اور فراء اور کسائی سے منقول ہے۔ امام فراء نے کہا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ محل جر میں ہو یعنی آیت : وصکم بہ وبان ھذا صراطی ( اس نے تمہیں حکم دیا ہے اس کے بارے اور اس کے بارے کی یہ میرا راستہ ہے) اور خلیل اور سیبویہ کے نزدیک اس کی تقدیر کلام یہ ہے : ولان ھذا صراطی ( کیونکہ یہ میرا راستہ ہے) جیسا کہ ارشاد فرمایا : وان المسجد للہ (الجنض : 18) ( یعنی ولان المساجد للہ) ۔ اور اعمش، حمزہ اور کسائی نے وان ھذا ہمزہ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اس بنا پر کہ یہ جملہ مستانفہ ہے، یعنی ان آیات میں جو ذکر کیا گیا ہے وہی میرا سیدھا راستہ ہے۔ ابن ابن اسحاق اور یقوب نے وان ھذا تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور ان مخففہ مشددہ کی مثل ہی ہے۔ مگر یہ کہ اس میں ضمیر قصہ اور شان ہے۔ ای وانہ ھذا اور یہ محل رفع میں ہے۔ اور محل نصب میں ہونا بھی جائز ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ زائدہ ہو اور تاکید کے لیے ہو، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فلما ان جآء البشیر ( یوسف : 96) اور الصراط سے مراد وہ راستہ ہے جو دین اسلام ہے۔ مستقیا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کا معنی ہے ہموار اور سیدھا جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو۔ اور اپنے اس راستے کی اتباع و پیروی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا جسے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر راستہ قرار دیا اور اسے شریعت بنایا اور اس کی انتہا جنت میں ہے۔ اور اس سے متفرق راستے نکلتے ہیں پس جو سیدھے راستے پر چلتا گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے ان راستوں کی طرف نکل گیا تو انہوں نے اسے جہنم تک پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : ولاتتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ( اور تم اور راستوں کی پیروری نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس راستے سے ایک طرف کردیں گے) ۔ داری ابومحمد نے اپنی مسند میں صحیح سند کے ساتھ بینا کیا ہے کہ ہمیں عفان، حماد بن زید اور عاصم بن بہدلہ نے خبر دی ہے حضرت ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہمارے لیے ایک سیدھا خط کھینچا، پھر فرمایا ھذا سبیل اللہ ( یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے) پھر اس کی دائیں جانب بھی خطوط کھینچے اور اس کی بائیں جانب بھی۔ پھر فرمایا ھذہ سب ل علی کل سبیل منھا شیطان یدعا الیھا (مجمع الزوائد، کتاب التفسیر، جلد 7، صفحہ 91) ( یہ راستے ہیں ان میں سے ہر راستے پر ایک شیطان ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے) ۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اور اسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان فرمایا : ہم حضور نبی مکریم ﷺ کے پاس تھے (سنن ابن ماجہ، باب اتباع سنۃ رسول اللہ، جلد 1، صفحہ 3) تو آپ ﷺ نے ایک سیدھا خط کھینچا اور دو خط اس کی دائیں جانب اور دو خط اس کی بائیں کھینچے، پھر اپنا دست مبارک درمیان والے خط پر رکھا اور فرمایا : ھذا سبیل اللہ یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : آیت : وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا لسبل فتفرق فکم عن سبیلہ اور یہ راستے یہودیت، نصرانیت، مجوسیت، تمام اہل ادیان، اہل بدعت، خواہش اور نفس پرستوں کی جملہ گمراہوں اور فروعات میں شذوذ اور علاوہ ازیں انتہائی گہرائی میں غواصی کرنے والوں کی جانب سے علم کلام میں جدل ومناظرہ وغیرہ بھی کو شامل ہیں۔ یہ سب کے سب صراط مستقیم سے بہکنے کا ذریعہ ہیں اور سوء اعتقاد کا وہم پیدا کرنے والے ہیں۔ یہ ابن عطیہ نے کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اور یہی صحیح ہے۔ علامہ طبری نے کتاب آداب النفوس میں ذکر کیا ہے : محمد بن عبدالاعلی صنعانی نے ہمیں بیان کیا ہے انہوں نے بتایا کہ ہمیں محمد بن ثور نے معمر سے انہوں ابان سے نقل کیا ہے کہ کسی آدمی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا : صراط مستقیم کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمیں اس کے قریب چھوڑا ہے اور اس کی ایک طرف جنت میں ہے اور اس کی دائیں جانب بھی راستے ہیں اور اس کی بائیں جانب بھی راستے ہیں اور وہاں لوگ ہیں جو اپنے پاس سے گزرنے والے کو بلاتے ہیں، پس جس نے ان راستوں میں سے کسی کو اختیار کرلیا تو وہ اسے جہنم تک پہنچا دے گا اور جو سیدھے راستے پر چلتا گیا تو وہ اس کے سبب جنت تک پہنچ جائے گا۔ پھر حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ آیت پڑھی : آیت : وان ھذا صراطی مستقیما الایہ۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : تم علم سیکھ لو اس سے پہلے کہ اسے قبض کرلیا جائے اور اس کا قبض کرنا یہ ہے کہ اہل علم اٹھ جائیں ( فوت ہوجائیں) خبردار ! تم کلام میں غلو کرنے، اس کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے ( یا چرب زبانی سے باتیں کرنے) اور بدعت سے بچو، اور تم پر قدیم اول (ابتدائی پرانا دین) کو پکڑنا لازم ہے۔ اسے دارمی نے روایت کہا ہے : تعلموا العلم قبل ان یقبض، و قبضہ ان یذھب اھلہ، الا وایاکم والتنظع والتعمق والبدع وعلیکم بالعتیق اور حضرت مجاہد (رح) نے قول باری تعالیٰ : آیت : ولا تتبعوا السبل کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد بدعتیں ہیں۔ ابن شہاب نے کہا ہے : یہ اس قول باری تعالیٰ کی طرح ہے : آیت : ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا، الایہ ( الانعام : 159) ( بیشک وہ جنہوں نے تفرقہ ڈالا اپنے دین میں ہوگئے کئی گروہ) پس بھاگو بھاگو اور نجات پاؤ اور صراط مستقیم اور مضبوط طریقے کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو یہ وہی ہے جس پر سلف صالحین چلے اور یہی نفع بخش تجارت ہے۔ ائمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ما امرتکم بہ فخذوہ وما نھیتکم عنہ فانتھوا (سنن ابن ماجہ، کتاب التفسیر، جلد 1، صفحہ 2) ( میں جس چیز کے بارے تمہیں حکم دوں تم اسے لے لو اور جس سے میں تمہیں منع کروں اس سے رک جاؤ ) ۔ اور ابن ماجہ وغیرہ نے حضرت عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا کہ اس سے آنکھیں (آنسوؤں سے) بہہ پڑیں اور اس سے دل خوفزدہ ہوگئے، تو ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ بیشک یہ تو الوداع کہنے والے کا وعظ ہے، تو ہماری حفاظت کے لیے کہا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے تمہیں ایک روشن اور واضح دین پر چھوڑا ہے اس کی رات اس کی دن کی مثل ہے۔ جو بھی میرے بعد اسمیں بھٹک جائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا، تم میں جو زندہ رہا وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا پس تم پر اسے اختیار کرنا لازم ہے ہے جسے تم میری سنت سے اور میرے بعد خلفائے راشدین مہدین کی سنت سے پہچانو اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاؤ۔ اور ایسے امور سے بچو جو نئے اختراع کیے گئے ہوں، کیونکہ ہر بدعت گمرائی ہے اور تم پر اطاعت لازم ہے اگرچہ (امیر) حبشی غلام ہی ہو، کیونکہ مومن نکیل ڈالے گئے اونٹ کی طرح ہے کہ اسے جہاں چلایا جائے وہ پیروی کرتا ہے “ (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 453 ) ۔ اسے ترمذی نے اسی معنی کے ساتھ روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ قد ترکتکم علی البیضا لیلھا کنھارھا لا یزیغ عنھا بعدی الا ھالک من یعش منکم فسیری اخفلافا کثیرافعلیکم بما عرفتم من سنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین بعدی عضوا علیھا بالنواجذ ایاکم والامور المحدثات تک کل بدعۃ ضلالۃ وعلیکم بالطاعۃ وان عبدا حبشیا فانما المؤمن کالجمل الانف حیثما قید انقاد۔ (ایضا) اور ابو داؤد نے روایت بیان کی ہے (سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، جلد 2، صفحہ 279) کہ انن کثیر نے ہمیں بتایا، انہوں نے کہا : ہمیں ابو سفیان نے خبر دی کہ انہوں نے بیان کیا کہ کسی آدمی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف خط لکھا اور تقدیر کے بارے آپ سے دریافت کیا، تو آپل نے اس کی طرف لکھا : اما بعد ! فانی اوصیک بتقوی اللہ والاقتصاد فی امری واتباع سنۃ رسول اللہ ﷺ وترک ما احدث المحدثون بعد ما جرت بہ سنتۃ، وکفوا مؤدنتہ فعلیک بلزوم الجماعۃ فانھا لک باذن اللہ عصبۃ الخ۔ (میں تجھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اسکی معاملہ میں میانہ روی کرنے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اور انہیں ترک کرنے کی جو مبتدع لوگوں نے ایجاد کی ہیں اس کے بعد کہ ان کے بارے سنت موجود ہے اور اس کی مشقت (اور معاونت) سے باز رہو، پس تجھ پر لازم ہے کہ جماعت کے ساتھ رہے کیونکہ وہ تیرے لیے اللہ تعالیٰ کے اذن سے حفاظت اور بچاؤ ہے۔ پھر تو جان لے کہ لوگوں نے کسی بدعت کو ایجاد نہیں کیا مگر اس سے پہلے کوئی ایسی شی گزر چکی ہو جو اس پر دلیل ہو یا اس میں اس کا قیاس ہو، کیونکہ سنت کو سنت اس سنے قرار دیا ہے جو اس کے خلاف خطا اور غلطی، بےوقوفی (یعنی کم عقلی) اور تعمق (گہرائی) تو جانتا اور اس سے واقف ہے، پس تو اپنے آپ کے لیے اس پر راضی اور خوش رہ جس سے قوم نے اپنے نفسوں کو راضی رکھا، کیونکہ وہ علم کی بنا پر اس سے واقف ہوئے اور کھلی نگاہ کے ساتھ دیکھ کر اس سے باز رہے، بلاشبہ وہ کشف امور پر زیادہ قوت اور قدرت رکھتے تھے اور جس فضل و مہربانی کے ساتھ وہ اس مقام میں ہے وہ اولیٰ اور افضل ہے، پس اگر ہدایت وہ ہے جس پر تم ہو تو پھر تم اس کی طرف ان پر سبقت لے گئے ہو اور اگر تم کہو کہ یہ (بدعت) ان کے بعدظاہر ہوئی ہے تو اسے ایجاد نہیں کیا مگر اس نے جس ان کے راستے کے علاوہ کی اور کی اتباع اور پیروی کی ہے اور اس نے اپنے آپ کو ان سے دور کرلیا ہے، بلاشبہ سابقون تو وہی ہیں۔ تحقیق انہوں نے اس بارے میں ایسی گفتگو کی ہے جو کافی ہے اور انہوں نے وہ صف بیان کیا ہے جو شفا یاب کرتا ہے ( یعنی باعث اطمینان ہے) پس جو ان سے کم ہے وہ کوتاہی کرنے والے کی طرف سے ہے اور جو ان سے اوپر (اور زیادہ) ہے وہ جسارت کرنے والے کی طرف سے ہے۔ تحقیق ایک قوم نے ان کے جو درجہ میں ان سے کم ہے اس نے کوتاہی کی پس انہوں نے جفا کی (ظلم کیا) اور ان میں سے کئی قوموں نے سرکشی اختیار کی اور انہوں نے غلو کیا بلاشبہ وہ اس کے باوجود ہدایت مستقیم پر ہیں۔ اور حدیث ذکر کی (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3996، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور حضرت سہل بن عبداللہ تستری نے کہا ہے : تم پر اثر سنت کی اقتدا کرنا لازم ہے، کیونکہ ڈر ہے کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گا جب کوئی انسان حضور نبی مکرم ﷺ اور تمام احوال میں آپ کی اقتدار اور پیروی کرنے کا ذکر کرے گا تو لوگ اس کی مذمت کریں گے اس سے نفرت کریں گے اور اس سے برأت اختیار کرلیں گے اور وہ اسے ذلیل ورسوا کریں گے۔ حضرت سہل نے کہا : بیشک اہل سنت کے ہاتھ پر بدعت ظاہر ہوئی۔ کیونکہ انہوں نے ان کی معاونت کی اور انہوں نے اس کے ساتھ بحث مباحثہ کیا اور ان کے جھوٹے دعوے ظاہر ہوئے اور عام لوگوں میں پھیل گئے اور اس نے بھی اسے سن لیا جس نے نہیں سنا ہوا تھا، اگر وہ انہیں چھوڑ دیتے اور ان سے گفتگو نہ کرتے تو ان میں سے ہر ایک اس کے ساتھ مرجاتا جو اس کے سینے میں تھا اور اس سے کوئی شی ظاہر نہ ہوتی اور وہ اسے اپنے ساتھ قبر میں لے جاتا۔ اور سہل (رح) نے بیان کیا : تم میں سے کوئی کسی بدعت کا آغاز نہیں کرتا یہاں تک کہ ابلیس اس کے لیے کوئی عبادت ایجاد کرتا ہے اور وہ اس کے مطابق عبادت کرنے لگتا ہے پھر وہ اس کے لیے بدعت کو ایجاد کرد یتا ہے اور جب وہ بدعت کے بارے بولنے لگتا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ اس سے اس خدمت ( اور بوجھ) کو الگ کرلیتا ہے۔ حضرت سہل (رح) نے فرمایا : میں کوئی حدیث نہیں جانتا جو مبتدع کے لیے اس حدیث سے زیادہ سخت ہو۔ حجب اللہ الجنۃ عن صاحب البدعۃ (اللہ تعالیٰ نے جنت کو بدعتی سے چھپا لیا ہے) فرمایا : پس یہودی اور نصرانی اس کی نسبت زیادہ امیدوار ہیں۔ حضرت سہل نے کہا : جو چاہے کہ اپنے دین کی عزت و تکریم کرے تو وہ سلطان وقت کے پاس داخل نہ ہو، عورتوں کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے اور ہوس پرستوں کے ساتھ مخاصمت اور جھگڑا نہ کرے۔ اور یہ بھی فرمایا : تم اتباع و پیروی کرو اور نئی چیزیں (بدعت) ایجاد نہ کرو۔ تمہارے لیے وہ کافی ہوگی۔ اور مسند دارمی میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئے اور کہا : اے ابو عبدالرحمن ! بلا شبہ میں نے مسجد میں ابھی وہ شے دیکھے ہے جس کو میں نے ناپسند کیا ہے اور الحمد اللہ میں نے خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھا انہوں نے پوچھا : تو وہ کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا : اگر آپ زندہ رہے تو عنقریب آپ اسے دیکھ لیں گے۔ میں نے مسجد میں ایک قوم کو مختلف حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے وہ نماز کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہر حلقے میں ایک آدمی ہے اور ان کے ہاتھوں میں سنگریزے ہیں اور وہ انہیں کہہ رہا ہے : سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھو۔ چناچہ وہ سو مرتبہ سبحانہ اللہ پڑھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے پوچھا : تو پھر تم نے انہیں کیا کہا ؟ انہوں نے بتایا : میں نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ آپ کی رائے اور حکم کا انتظار کیا۔ انہوں نے فرمایا : کیا تم نے انہیں حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور میں ان کے لیے ضامن ہوں کہ یہ عمل ان کی نیکیوں کو ضائع نہیںٰ کرے گا۔ پھر آپ چلے اور ہم بھی ان کی معیت میں چلے یہاں تک کہ وہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے میں آئے اور ان کے پاس آ کر ٹھہر گئے۔ اور فرمایا : یہ کہا ہے جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ؟ انہوں نے کہا : اے ابو عبدالرحمن ! یہ سنگریزے ہیں ہم ان کے ساتھ تکبیر وتہلیل ( اور تسبیح) کو شمار کر رہے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : سو تم اپنے گناہوں کو شمار کرو اور میں تمہارے لیے ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی شی ضائع نہیں ہوگی، اے محمد ﷺ کی امت ! تم پر افسوس ہے تمہاری ہلاکت کتنی تیزی سے آپہنچی ہے، کیا ضلالت و گمراہی کا دروازہ کھلنے والا ہے۔ انہوں نے جواب دیا : اے ابو عبدالرحمن ! قسم بخدا ہم نے سوائے نیکی کے کوئی ارادہ نہیں کیا۔ تو آپ نے فرمایا : کتنے ہی خیر اور نیکی کا ارادہ کرنے والے ہیں ہر گز اسے نہیں پہنچ سکیں گے (ذکر اذکار کے بارے یہ تشدید کا پہلو ہے انسان خلوص نیت سے حضور قلب کے ساتھ ذکر کرے یہی تو مقصود ہے۔ ) ۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے ہوس پرستوں اور اہل بدعت کی کسی شی کے بارے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : تجھ پر لازم ہے کہ تو اعراب اور غلام کے دین کو لازم پکڑے جو کتاب کے بارے میں ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اس سے علیحدگی اختیار کرلے۔ اور امام اوزاعی نے کہا ہے : ابلیس نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم کون سے شے سے بنی آدم (انسان) کے پاس آتے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہر شے سے۔ اس نے کا ہ : کیا تم استغفار سے پہلے بھی ان کے پاس آتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : دور ہو ! وہ وہ شے ہے جسے توحید کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ اس نے کہا : میں یقینا ان میں کوئی ایسی شے پھیلا دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار نہیں کریں گے۔ امام اوزاعی نے فرمایا : پس اس ( ابلیس) نے لوگوں میں ہوس کو پھیلا دیا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا : میں نہیں جانتا دونعمتوں میں سے کون سی نعمت مجھ پر زیادہ عظیم ہے کہ کہ اس نے مجھے اسلام کی ہدایت اور رہنمائی عطا فرمائی یا یہ کہ اس نے مجھے اس ہوس سے عافیت اور چھٹکارا عطا فرمایا ؟ اور امام شعبی (رح) نے بیان کیا ہے کہ ہوس پرستوں کو اصحاب الاہواء کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ آتش جہنم میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب دارمی سے مروی ہے۔ اور حضرت سہل بن عبداللہ سے معتزلہ کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے نکاح، شادی کرنے کے بارے پوچھا گیا توا نہوں نے فرمایا : نہیں، ان کی کوئی عزت و تکریم نہیں، وہ کفار ہیں، وہ کیسے مومن ہو سکتا ہے جو یہ کہتا ہے : قرآن کریم مخلوق ہے، نہ جنت پیدا کی گئی ہے اور نہ ہی جہنم اور نہ ہی اللہ کی کوئی پل صراط ہے، کوئی شفاعت نہیں، مومنین میں سے کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور حضور نبی مکرم ﷺ کی امت کے گنہگاروں میں سے کوئی جہنم سے نہیں نکلے گا، نہ کوئی عذاب قبر ہے اور نہ ہی منکر ونکری ہیں۔ اور آخرت میں نہ ہمارے رب کا دیدار ہے اور نہ ہی زیادہ ( کا کوئی تصور ہے) اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا علم مخلوق ہے، نہ وہ سلطان کو جانتے ہیں اور نہ ہی جمعہ کو اور وہ اسے کافر قرار دیتے ہیں جو ان کے ساتھ ایمان رکھتا ہے ؟۔ حضرت فضیل بن عیاض (رح) نے کہا ہے : جس نے کسی بدعتی سے محبت کی اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو ضائع کر دے گا اور اس کے دل سے نور اسلام کو نکال دے گا آپ کے کلام میں سے یہ اور زیادہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور ابو سفیان ثوری نے کہا ہے : بدعت ابلیس کے نزدیک معصیت ( گناہ) سے زیادہ پسندیدہ ہے، ( کیونکہ) معصیت سے توبہ کی جا ست کی ہے اور بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اہل السنۃ میں سے ایسے آدمی کی طرف دیکھنا عبادت ہے جو سنت کی طرف دعوت دیتا ہو اور بدعت سے منع کرتا ہو۔ اور ابو العالیہ نے کہا : تم پر اس پہلے امر کو مضبوطی سے تھامنا لازم ہے جس پر تم تفرقہ سے پہلے تھے۔ عاصم الاحوال نے کہا ہے : میں نے اس کے بارے میں حسن سے بات کی تو انہوں نے فرمایا : انہوں نے تجھے نصیحت کی ہے قسم بخدا ! اور تجھے سچ کہا ہے۔ تحقیق سورة آل عمران میں حضور ﷺ کے اس قول کے معنی گزر چکے ہیں کہ ” بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور یہ امت عنقریب تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی “۔ الحدیث، بعض اہل معرفت علماء نے کہا ہے : یہ فرقہ جو حضور نبی مکرم ﷺ کی امت کے فرقوں میں زائد ہوا ہے وہ قوم ہے جو علماء سے عداوت رکھتے ہیں اور فقہاء سے بغض رکھتے ہیں اور گزشتہ امتوں میں سے یہ فرقہ کبھی نہیں ہوا۔ اور حضرت رافع بن خدیج ؓ نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میری امت میں ایک قوم ہوگی جو اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم سے کفر کریں گے درآنحالیکہ انہیں احساس اور شعور بھی نہ وہ گا جیسا کہ یہودونصاری نے کفر کیا۔ فرمایا : تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ نثار و قربان ! وہ کیسے لوگو ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” وہ بعض کا اقرار کریں گے اور بعض کا انکار کریں گے “۔ پھر میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ آپ پر نثار وقربان ! وہ کیا کہیں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ابلیس کو اللہ تعالیٰ کے برابر اور مساوی قرار دیں گے اس کی صفت خلق میں، قوت میں اور رزق میں۔ اور کہیں گے خیر اور بھلائی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور شرابلیس کی جانب سے “۔ فرمایا : پس وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہیں فرمایا :” میری امت ان سے عداوت، بغض اور جھگڑا فساد نہیں کریء گی وہی اس امت کے زنادقہ ہیں “۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور سورة النساء میں اور اس سورت میں اہل بدعت اور ہوس پرستوں کی مجالست اور ہمنشینی اختیار کرنے سے نہی کا بیان گزر چکا ہے۔ اور بلاشبہ جو ان کے ساتھ مجالست کرے گا اس کا حکم ان کے حکم کی مثل ہی ہوگا۔ پس فرمایا : آیت : واذا رایت الذین یخوضون فیا ایتنا الآیہ ( الانعام : 68) (اور ( اے سننے وال ! ) جب تو دیکھے انہیں کہ بےہودہ بحثیں کر رہے ہیں ہماری آیتوں میں ) ، پھر سورة النساء میں ان لوگوں کی سزا بیان فرمائی جنہوں نے ایسا کیا اور اس کی مخالفت کی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا۔ پس فرمایا : آیت : وقد نزل علیکم فی الکتب الآیہ (النساء : 140) اور سورة النساء مدنی سورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے ان کے ساتھ ملا دیا جس نے ان کی مجلس اختیار کی۔ اور اس امت کے ائمہ میں ایک جماعت نے یہی موقف اختیار کیا ہے اور اہل بدعت کی مجلس اختیار کرنے والے پر معاشرت اور مخالطت کی بنا پر ان آیات کے تقاضا کے مطابق حکم صادر کیا، ان میں سے امام احمد بن حنبل، امام اوزاعی اور ابن مبارک رحمۃ اللہ علیھم ہیں، کیونکہ انہوں نے اہل بدعت کی مجالست اختیار کرنے والے آدمی کے بارے میں کہا ہے : اسے ان کی مجالست اختیار کرنے سے روکا جائے گا، اگر وہ رک جائے تو فتہا ورنہ اسے ان کے ساتھ جلا دیا جائے گا، ان کی مراد یہ کہ حکم میں ( اسے ان کی مثل قرار دیا جائے گا) ۔ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شراب پینے والوں کی مجلس اختیار کرنے والے پر حد کا حکم لگایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی : انکم اذا مثلھم ( النسائ : 140) ( ورنہ تم بھی انہیں کی طرح ہو گے) آپ کو عرض کی گئی : وہ کہتا ہے میں ان کی مجلس اپناتا ہوں تاکہ ان پر اسے واضح کروں اور ان کی باتوں کا رد کروں۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسے ان کی مجالست سے روکا جائے گا اور اگر وہ باز نہ ۃ آئے تو اسے ان کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔
Top