Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 17
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : تمہیں پہنچائے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی سختی فَلَا : تو نہیں كَاشِفَ : دور کرنے والا لَهٗٓ : اس کا اِلَّا هُوَ : اس کے سوا وَاِنْ : اور اگر يَّمْسَسْكَ : وہ ہپنچائے تمہیں بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور اگر پہنچا دے تجھ کو اللہ کچھ سختی تو کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں سوا اس کے اور اگر تجھ کو پہنچا دے بھلائی تو وہ ہر چیز پر قادر ہے
دوسری آیت میں اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر نفع اور نقصان کا مالک در حقیقت صرف اللہ جل شانہ ہے، کوئی شخص کسی کو حقیقت کے اعتبار سے نہ ادنیٰ نفع پہنچا سکتا ہے نہ ادنیٰ نقصان، اور ظاہر میں جو کسی کو کسی کے ہاتھ سے نفع یا نقصان پہنچتا نظر آتا ہے وہ صرف ایک ظاہری صورت اور حقیقت کے سامنے ایک نقاب سے زائد کوئی حقیقت نہیں رکھتا
کار زلف تست مشک اثسائی امّا عاشقاں
مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند ؛
یہ عقیدہ بھی اسلام کے ان انقلابی عقائد میں سے ہے جس نے مسلمانوں کو ساری مخلوق سے بےنیاز اور صرف خالق کا نیاز مند بنا کر ان کی ایک ایسی بےمثال البیلی جماعت تیار کردی جو فقر و فاقہ اور تنگدستی میں بھی سارے جہان پر بھاری ہے، کسی کے سامنے سر جھکانا نہیں جانتی
فقر میں بھی میں سربسر فخر و غرور و ناز ہوں
کسی کا نیاز مند ہوں سب سے جو بےنیاز ہوں
قرآن مجید میں جا بجا یہ مضمون مختلف عنوانات کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، ایک آیت میں ارشاد ہے
(آیت) ما یفتح اللہ للناس
”یعنی اللہ تعالیٰ نے جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دی اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو روک دے اس کو کوئی کھولنے والا نہیں“۔
صحیح احادیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنی دعاؤں میں اکثر یہ کہا کرتے تھے
اللہم لا مانع لما اعطیت۔ الخ۔
(ترجمہ) ”یعنی اے اللہ ! جو آپ نے دیا اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو آپ نے روک دیا اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش والے کی کوشش آپ کے مقابلہ میں نفع نہیں دے سکتی“۔
امام بغوی رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ایک سواری پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے ردیف بنا لیا، کچھ دور چلنے کے بعد میری طرف منوجہ ہو کر فرمایا کہ اے لڑکے ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں، کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کو یاد رکھو ! اللہ تم کو یاد رکھے گا، تم اللہ کو یاد رکھو گے تو اس کو ہر حال میں اپنے سامنے پاؤ گے، تم امن و عافیت اور خوش عیشی کے وقت اللہ تعالیٰ کو پہچانو تو تمہاری مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ تم کر پہچانے گا، جب تم کو سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے سوال کرو، اور مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگو، جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے قلم تقدیر کا اس کو لکھ چکا ہے، اگر ساری مخلوقات مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نفع پہنچا دیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں نہیں رکھا تو وہ ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے، اور اگر وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں کہ تم کو ایسا نقصان پہنچاویں جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے تو ہرگز اس پر قدرت نہ پائیں گے، اگر تم کرسکتے ہو کہ یقین کے ساتھ صبر پر عمل کرو تو ایسا ضرور کرلو، اگر اس پر قدرت نہیں تو صبر کرو، کیونکہ اپنی خلاف طبع چیزوں پر صبر کرنے میں بڑی خیروبرکت ہے، اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کے ساتھ ہے، اور مصیبت کے ساتھ راحت اور تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ (یہ حدیث ترمذی اور مسند احمد میں بھی بسند صحیح مذکور ہے)۔
افسوس ہے کہ قرآن کے اس واضح اعلان اور رسول کریم ﷺ کی عمر بھر کی تعلیمات کے باوجود یہ امت پھر اس معاملہ میں بھٹکنے لگی، سارے خدائی اختیارات مخلوقات کو بانٹ دیئے، آج ایسے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو مصیبت کے وقت بجائے خدا تعالیٰ کے پکارنے کے اور اس سے دعا مانگنے کے مختلف ناموں کی دہائی دیتے اور انہی سے مانگتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف دھیان تک نہیں ہوتا، انبیاء و اولیاء کے توسل سے دعا مانگنا دوسری بات ہے وہ جائز ہے، اور خود نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں اس کے شواہد موجود ہیں، لیکن براہ راست کسی مخلوق کو حاجت روائی کے لئے پکارنا، اس سے اپنی حاجتیں مانگنا، اس قرآنی حکم کے خلاف کھلی بغاوت ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔
Top