Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 177
سَآءَ مَثَلَا اِ۟لْقَوْمُ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنْفُسَهُمْ كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ
سَآءَ : بری مَثَلَۨا : مثال الْقَوْمُ : لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات وَاَنْفُسَهُمْ : اور اپنی جانیں كَانُوْا : وہ تھے يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
بری مثال ہے ان لوگوں کی کہ جھٹلایا انہوں نے ہماری آیتوں کو اور وہ اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔
تیسری آیت میں فرمایا کہ آیات الہیہ کو جھٹلانے والوں کا برا حال ہے اور یہ لوگ اپنی ہی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں اور کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے۔
آیات مذکورہ اور ان میں بیان کئے ہوئے واقعہ اہل فکر کے لئے بہت سے فوائد اور عبرتیں اور نصیحتیں ہیں
اول یہ کہ کسی شخص کو اپنے علم و فضل اور زہد و عبادت پر باز نہیں کرنا چاہئے، حالات بدلتے اور بگڑتے ہوئے دیر نہیں لگتی، جیسے بلعم بن باعوراء کا حشر ہوا، اطاعت و عبادت کے ساتھ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور استقامت کی دعا اور اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرنا چاہئے۔
دوسرے یہ کہ ایسے مواقع اور ان کے مقدمات سے بھی آدمی کو پرہیز کرنا چاہئے جہاں اس کو اپنے دین کی خرابی کا اندیشہ ہو، خصوصا مال اور اہل و عیال کی محبت میں اس انجام بد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔
تیسرے یہ کہ مفسد اور گمراہ لوگوں کے ساتھ تعلق اور ان کا ہدیہ یا دعوت وغیرہ قبول کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے، بلعم اس بلاء میں ان کا ہدیہ قبول کرنے کے سبب مبتلا ہوا۔
چوتھے یہ کہ بےحیائی اور حرام کاری پوری قوم کے لئے تباہی اور بربادی کا سامان ہوتی ہے، جو قوم اپنے آپ کو بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رکھنا چاہے اس پر لازم ہے کہ اپنی قوم کو بےحیائی کے کاموں سے پورے اہتمام کے ساتھ روکے ورنہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینا ہوگا۔
پانچویں یہ کہ آیات الہیہ کی خلاف ورزی خود بھی ایک عذاب ہے اور اس کی وجہ سے شیطان اس پر غالب آکر ہزاروں خرابیوں میں بھی مبتلا کردیتا ہے، اس لئے جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے علم دین عطا کیا ہو اس کو چاہئے کہ اس کی قدر کرے اور اصلاح عمل کی فکر سے کسی وقت فارغ نہ ہو۔
Top