Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قرار فرمایا
عَلَي
: پر
الْعَرْشِ
: عرش
يُغْشِي
: ڈھانکتا ہے
الَّيْلَ
: رات
النَّهَارَ
: دن
يَطْلُبُهٗ
: اس کے پیچھے آتا ہے
حَثِيْثًا
: دوڑتا ہوا
وَّالشَّمْسَ
: اور سورج
وَالْقَمَرَ
: اور چاند
وَالنُّجُوْمَ
: اور ستارے
مُسَخَّرٰتٍ
: مسخر
بِاَمْرِهٖ
: اس کے حکم سے
اَلَا
: یاد رکھو
لَهُ
: اس کے لیے
الْخَلْقُ
: پیدا کرنا
وَالْاَمْرُ
: اور حکم دینا
تَبٰرَكَ
: برکت والا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّ
: رب
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین چھ دن میں پھر قرار پکڑا عرش پر اڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے تابعدار اپنے حکم کے سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا، بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا۔
خلاصہ تفسیر
بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز (کے برابر وقت) میں پیدا کیا، پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے) چھپا دیتا ہے شب (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو (یعنی شب کی تاریکی سے دن کی روشنی پوشیدہ اور زائل ہوجاتی ہے) ایسے طور پر کہ وہ شب دن کو جلدی سے آ لیتی ہے (یعنی دن آناً فاناً گزرتا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ دفعةً رات آجاتی ہے) اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا، ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم (تکوینی) کے تابع ہیں، یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑے کمالات والے ہیں اللہ تعالیٰ جو تمام عالم کے پروردگار ہیں۔
معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں آسمان و زمین اور سیارات و نجوم کے پیدا کرنے اور ایک خاص نظام محکم کے تابع اپنے اپنے کام میں لگے رہنے کا ذکر اور اس کے ضمن میں حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کا بیان کرکے ہر اہل عقل انسان کو اس کی دعوت فکر دی گئی ہے کہ جو ذات پاک اس عظیم الشان عالم کو عدم سے وجود میں لانے اور حکیمانہ نظام کے ساتھ چلانے پر قادر ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ان چیزوں کو معدوم کرکے قیامت کے روز دوبارہ پیدا فرما دے، اس لئے قیامت کا انکار چھوڑ کر صرف اسی ذات کو اپنا رب سمجھیں اسی سے اپنی حاجات طلب کریں، اسی کی عبادت کریں، مخلوق پرستی کی دلدل سے نکلیں اور حقیقت کو پہچانیں اس میں ارشاد فرمایا کہ ”تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے آسمان اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا“۔
آسمان و زمین کی تخلیق میں چھ روز کی مدت کیوں ہوئی
دوسرا سوال یہ ہے کہ دن اور رات کا وجود آفتاب کی حرکت سے پہچانا جاتا ہے، آسمان اور زمین کی پیدائش سے پہلے جب نہ آفتاب تھا نہ ماہتاب، چھ دنوں کی تعداد کس حساب سے ہوئی۔
اس لئے بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد چھ دن سے اتنا وقت اور زمانہ ہے جس میں چھ دن رات اس دنیا میں ہوتے ہیں، لیکن صاف اور بےغبار بات یہ ہے کہ دن اور رات کی یہ اصلاح کہ طلوع آفتاب سے غروب تک دن اور غروب سے طلوع تک رات، یہ تو اس دنیا کی اصطلاح ہے، پیدائش عالم سے پہلے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی دوسری علامات مقرر فرما رکھی ہیں، جیسے جنت میں ہوگا کہ وہاں کا دن اور رات حرکت آفتاب کے تابع نہیں ہوگا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ چھ دن جس میں زمین و آسمان بنائے گئے وہ ہمارے چھ دن کے برابر ہوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس سے بڑے ہوں، جیسے آخرت کے دن کے بارے میں ارشاد قرآنی ہے کہ ایک ہزار سال کے برابر ایک دن ہوگا۔
ابو عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ فلک اعظم کی حرکت اس دنیا کی حرکات کے مقابلہ میں اتنی تیز ہے کہ ایک دوڑنے والا انسان ایک قدم اٹھا کر زمین پر رکھنے نہیں پاتا کہ فلک اعظم تین ہزار میل کی مسافت طے کرلیتا ہے۔ (بحر محیط)
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ کا قول یہی ہے کہ یہاں چھ دن سے آخرت کے چھ دن مراد ہیں، اور بروایت ضحاک رحمة اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی یہی منقول ہے۔
اور یہ چھ دن جن میں پیدائش عالم وجود میں آئی ہے، صحیح روایات کے مطابق اتوار سے شروع ہو کر جمعہ پر ختم ہوتے ہیں، یوم السبت یعنی ہفتہ کے اندر تخلیق عالم کا کام نہیں ہوا، بعض علماء نے فرمایا کہ سبت کے معنی قطع کرنے کے ہیں، اس روز کا یوم السبت اسی لئے نام رکھا گیا کہ اس پر کام ختم ہوگیا (تفسیر ابن کثیر)
آیت مذکورہ میں زمین و آسمان کی تخلیق چھ روز میں مکمل ہونے کا ذکر ہے اس کی تفصیل سورة حم سجدہ کی نویں اور دسویں آیات میں اس طرح آئی ہے کہ دو دن میں زمین بنائی گئی، پھر دو دن میں زمین کے اوپر پہاڑ، دریا، معاون، درخت، نباتات، اور انسان و حیوان کے کھانے پینے کی چیزیں بنائی گئیں، کل چار دن ہوگئے، ارشاد فرمایا(آیت) خلق الارض فی یومین اور پھر فرمایا (آیت) قدر فیہا اقو تھا فی اربعۃ ایام۔
پہلے دو دن جس میں زمین بنائی گئی، اتوار اور پیر ہیں، اور دوسرے دو دن جن میں زمین کی آبادی کا سامان پہاڑ، دریا بنائے گئے وہ منگل اور بدھ ہیں، اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) فقضھن سبع سموات فی یومین، یعنی پھر ساتوں آسمان بنائے دو دن میں، ظاہر ہے کہ یہ دو دن جمعرات اور جمعہ ہوں گے، اس طرح جمعہ تک چھ دن ہوگئے۔
آسمان و زمین کی تخلیق کا بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۔ یعنی پھر عرش پر قائم ہوا، استویٰ کے لفظی معنی قائم ہونے اور عرش شاہی تخت کو کہا جاتا ہے اب یہ عرش رحمن کیسا اور کیا ہے، اور اس پر قائم ہونے کا کیا مطلب ہے ؟
اس کے متعلق بےغبار اور صاف و صحیح وہ مسلک ہے جو سلف صالحین صحابہ وتابعین سے اور بعد میں اکثر حضرات صوفیائے کرام سے منقول ہے کہ انسانی عقل اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کی حقیقت کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے، اس کی کھوج میں پڑنا بیکار بلکہ مضر ہے ان پر اجمالاً یہ ایمان لانا چاہئے کہ ان الفاظ سے جو کچھ حق تعالیٰ کی مراد ہے وہ صحیح اور حق ہے، اور خود کوئی معنی متعین کرنے کی فکر نہ کرے۔
حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ سے ایک شخص نے یہی سوال کیا کہ استواء علی العرش کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے کچھ دیر تامل فرمانے کے بعد فرمایا کہ لفظ استواء کے معنی تو معلوم ہیں اور اس کی کیفیت اور حقیقت کا ادراک عقل انسانی نہیں کرسکتی، اور ایمان لانا اس پر واجب ہے، اور اس کے متعلق کیفیت و حقیقت کا سوال کرنا بدعت ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے سوالات نہیں کئے، سفیان ثوری، امام اوزاعی، لیث بن سعد، سفیان ابن عینیہ، عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا کہ جو آیات اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق آئی ہیں ان کو جس طرح وہ آئی ہیں اسی طرح بغیر کسی تشریح و تاویل کے رکھ کر ان پر ایمان لانا چاہئے (مظہری)
اس کے بعد آیت مذکور میں فرمایا يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ ، یعنی اللہ تعالیٰ ڈھانپ دیتے ہیں رات کو دن پر اس طرح کہ رات جلدی کے ساتھ دن کو آ لیتی ہے، مراد یہ ہے کہ رات اور دن کا یہ انقلاب عظیم کہ پورے عالم کو نور سے اندھیرے میں یا اندھیرے سے نور میں لے آتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کے تابع اتنی جلدی اور آسانی سے ہوجاتا ہے کہ ذرا دیر نہیں لگتی۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا وّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یعنی پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے آفتاب اور چاند اور تمام ستاروں کو اس حال پر کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے امر و حکم کے تابع چل رہے ہیں۔
اس میں ایک ذی عقل انسان کے لئے دعوت فکر ہے جو مخلوق کی بنائی ہوئی مصنوعات کا ہر وقت مشاہدہ کرتا ہے کہ بڑے بڑے ماہرین کی بنائی مشینوں میں اول تو کچھ نقائص رہتے ہیں، اور نقائص بھی نہ رہیں تو کیسی فولادی مشینیں اور کَل پرزے ہوں چلتے چلتے گھستے ہیں، ڈھیلے ہوتے ہیں، مرمت کی ضرورت ہوتی ہے، گریسنگ کی حاجت پیش آتی ہے، اور اس کیلئے کئی کئی دن بلکہ ہفتوں اور مہینوں مشین معطل رہتی ہے، لیکن ان خدائی مشینوں کو دیکھو کہ جس طرح اور جس شان سے پہلے دن ان کو چلایا تھا اسی طرح چل رہی ہیں، نہ کبھی ان کی رفتار میں ایک منٹ سیکنڈ کا فرق آتا ہے، نہ کبھی ان کا کوئی پرزہ گھستا ٹوٹتا ہے، نہ کبھی ان کو ورکشاپ کی ضرورت پڑتی ہے، وجہ یہ ہے کہ وہ مستخرات بامرہ، چل رہی ہیں، یعنی ان کے چلنے چلانے کے لئے نہ کوئی بجلی کا پاور درکار ہے، نہ کسی انجن کی مدد ضروری ہے، وہ صرف امر الٓہی سے چل رہی ہیں، اسی کے تابع ہیں، اس میں کوئی فرق آنا ناممکن ہے، ہاں جب خود قادر مطلق ہی ان کے فنا کرنے کا ارادہ ایک معیّن وقت پر کریں گے تو یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا، جس کا نام قیامت ہے۔
ان چند مثالوں کے ذکر کے بعد حق تعالیٰ کی قدرت قاہرہ مطلقہ کا بیان ایک کلی قاعدے کی صورت میں اس طرح کیا گیا الا لہ الخلق والامر، خلق کے معنی پیدا کرنا اور امر کے معنی حکم کرنا ہیں، معنی یہ ہیں کہ اسی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، اس کے سوا کوئی دوسرا نہ کسی ادنی، چیز کو پیدا کرسکتا ہے اور نہ کسی کو کسی پر حکم کرنے کا حق ہے، (بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حکم کا کوئی خاصہ شعبہ کسی کے سپرد کردیا جائے تو وہ بھی حقیقت کے اعتبار سے اللہ ہی کا حکم ہے) اس لئے مراد آیت کی یہ ہوئی کہ یہ ساری چیزیں پیدا کرنا بھی اسی کا کام تھا، اور پیدا ہونے کے بعد ان سے کام لینا بھی کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے۔
صوفیاء کرام نے فرمایا کہ خلق اور امر دو عالم ہیں، خلق کا تعلق مادّہ اور مادّیات سے ہے، اور امر کا تعلق مجردات لطیفہ کے ساتھ ہے، (آیت) قل الروح من امر ربی۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ روح کو امر رب سے فرمایا، خلق اور امر دونوں کا اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہونے کا مطلب اس صورت میں یہ ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان جتنی چیزیں ہیں یہ تو سب مادی ہیں، ان کی پیدائش کو خلق کہا گیا، اور ما فوق السموٰات جو مادہ اور مادّیت سے بری ہیں ان کی پیدائش کو لفظ امر سے تعبیر کیا گیا (مظہری)
آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ اس میں لفظ تبارک، برکت سے بنا ہے اور لفظ برکت، بڑھنے، زیادہ ہونے، ثابت رہنے وغیرہ کے کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس جگہ لفظ تَبَارَکَ کے معنی بلند وبالا ہونے کے ہیں، جو بڑھنے کے معنی سے بھی لیا جاسکتا ہے، اور ثابت رہنے کے معنی سے بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ قائم اور ثابت بھی ہیں، اور بلند وبالا بھی، بلند ہونے کے معنی کی طرف حدیث کے ایک جملہ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے تبارکت وتعالیت یا ذا الجلال، یہاں تَبَارَکتَ کی تفسیر تَعَالَیتَ کے لفظ سے کردی گئی ہے۔
Top