Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو۔ جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار فرمایا عَلَي : پر الْعَرْشِ : عرش يُغْشِي : ڈھانکتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن يَطْلُبُهٗ : اس کے پیچھے آتا ہے حَثِيْثًا : دوڑتا ہوا وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمَ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٍ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اَلَا : یاد رکھو لَهُ : اس کے لیے الْخَلْقُ : پیدا کرنا وَالْاَمْرُ : اور حکم دینا تَبٰرَكَ : برکت والا ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر ٹھہرا۔ وہی دن کو رات کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ سب اسی کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے یہ خدائے رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔
آیت نمبر 54 قولہ تعالیٰ : ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض فی ستۃ ایام اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ قدرت ایجاد میں منفرد اور یکتا ہے، پس وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ ستۃ کی اصل سدسۃ ہے، پس انہوں نے دال کو سین میں ادغام کرنے کا ارادہ کیا اور وہ دونوں تا کے مخرج کے قریب مل گئے لہٰذا تا ان دونوں پر غالب آگئی۔ اور اگر چاہے تو کہے : دو سینوں میں سے ایک کو توا سے بدل دیا جائے اور پھر اسے دال میں ادغامکر دیا جائے، کیونکہ تو اس کی تصغیر میں کہتا ہے : سدیسۃ اور اس کی جمع اسد اس آتی ہے اور جمع اوع تصغیر دونوں اسماء کو اپنی اصل کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں : جاء فلان سادساد سادتا ساتا پس جن نے سادتا کہا ہے اس نے سین کو تاء سے بدل دیا ہے۔ اور الیوم سے مراد سورج کے طلوع ہونے سے لے کر اس کے غروب ہونے تک ہے۔ پس اگر سورج نہ ہو تو پھر یوم بھی نہ ہو۔ یہ قشیری نے کہا ہے۔ اور فرمایا : آیت : فی ستۃ ایام کا معنی ہے آخرت کے ایام میں سے چھ دنوں میں، ان میں سے ہر دن ہزار برس کا ہوگا۔ اور یہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی تعظیم بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ چھ دن ایام دنیا میں سے تھے۔ حضرت مجاہد (رح) وغیرہ (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 408) نے کہا ہے : ان میں سے پہلا دن اتوار کا دن تھا اور آخر جمعہ کا دن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مدت ذکر فرمائی ہے اگر وہ ایک لحظہ میں ان کی تخلیق کرنا چاہتا تو یقینا ایسا کردیتا۔ کیونکہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ اس کے لیے کہتا : کونی ( تو ہوجا) تو وہ ہوجاتا۔ لیکن اس نے یہ ارادہ فرمایا کہ وہ بندوں کو امور میں نرمی اور تثبت کی تعلیم دے اور تاکہ ملائکہ کے لیے یکے بعد دیگرے اس کی قدرت کا اظہار ہو۔ اور یہ ان کے نزدیک ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ملائکہ کو پیدا فرمایا۔ اور دوسری حکمت یہ ہے کہ اس نے انہیں چھ دنوں میں پیدا فرمایا، کیونکہ اس کے نزدیک ہر شے کی ایک مدت مقرر ہے اور اس نے اس کے ذریعے گنہگاروں کو سزد دینے میں جلدی کرنے کو بھی بیان کیا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک ہر شے کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور یہ اس کے اس قول کی طرح ہے : آیت : آیت : ولقد خلقنا السموٰت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب فاصبر علی ما یقولون (ق) ( اور ہم نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور جو کھچ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں۔ اور ہمیں تھکن نے چھواتک نہیں، پس آپ صبر فرمائیے ان ( کی دل کھانے والی) باتوں پر) اس کے بعد فرمایا : آیت : وکم اھلکنا قبلھم من قرن ھم اشد منھم بطشا ( ق : 36) ( اور قریش مکہ سے پہلے ہم نے برباد کردیا بہت سی قوموں کو جو شوکت وقوت میں ان سے کہیں زیادہ تھیں) قولہ تعالیٰ : آیت : ثم استوی علی العرض یہ استواء کا مسئلہ ہے، اس بارے میں علماء کا بہت سا کلام اور جرأت کا اظہار ہے۔ ہم نے اس بارے میں علماء کے اقوال الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی وصفاتہ العلی میں بیان کردیئے ہیں اور وہاں ہم نے چودہ اقوال ذکر کیے ہیں۔ اکثر متقدمین اور متاخرین کی جانب سے یہ ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات جہت اور تحیز سے منزہ اور پاک ہے تو پھر اس کی ضرورت اور اس کے لواحق لازم میں سے یہ بھی ہے کہ عام علماء متقدمین کے نزدیک اور متاکرین میں سے محققین اور قائدین کے نزدیک اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات جہت سے پاک اور منزہ ہے، کیونکہ ان کے نزدیک اس سے اوپر کوئی جہت نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جب اسے جہت کے ساتھ خاص کردیا جائے تو پھر وہ کسی مکان اور حیز میں ہو اور مکان اور حیز تسلیم کرنے پر متحیز کے لیے حرکت، سکون، تغیر اور حدوث ماننا لازم آتا ہے ( اور رب کریم کی ذات ان تمام سے مبرا اور منزہ ہے) یہ متکلمین کا قول ہے اور دور اول کے اسلاف ؓ جہت کی نفی کے بارے کوئی کلام نہیں کرتے تھے اور نہ اس کے بارے وہ بولتے تھے، بلکہ انہوں نے یہی بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے اثبات میں وہی کافی ہے جو اس نے اپنی کتاب میں بیان فرمادیا ہے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور سلف صالح میں سے کسی نے بھی اس انکار نہیں کیا ہے کہ وہ اپنے عرش پر حقیقۃ متمکن ہوا ہے اور اس نے عرش کو اس لیے خاص کیا ہے، کیونکہ وہ اس کی مخلوقات میں سے بہت عظیم ہے، لیکن وہ اس استوا اور تمکن کی کیفیت سے ناواقف ہیں، کیونکہ اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ امام مالک (رح) نے فرمایا ہے : لغت میں استوا معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے، لہٰذا اس کے بارے سوال کرتا بدعت ہے۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ ؓ نے کہا ہے۔ اور اتنی مقدار کافی ہے اور جو اس سے زیادہ کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ علماء کی کتب سے اس مقام کو مطالعہ کرے۔ اور کلام عرب میں استوا کا معنی بلندی اور استقرار ہے۔ جوہری نے کہا ہے : استوی من اعوجاج ( وہ ٹیڑھا ہونے سے بچ گیا، سیدھا ہوگیا) استوی ظھر دابتہ ( وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھ گیا) استوی الی السماء اس نے آسمان کا قصد کیا۔ اور استوی بمعنی استولی وظھر ( والی بننا اور غالب آنا) ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : قد استوی بشر علی العراق من غیر سیف ودم مھراق (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 229 ) تحقیق بشر نے عراق پر قبضہ جما لیا تلوار چلائے اور خون بہائے بغیر۔ اور استوی الرجل کا معنی ہے آدمی کی جوانی انتہا کو پہنچ گئی۔ استوی الشی کا معنی ہے شے معتدل اور سیدھی ہوگئی۔ ابو عمر بن عبدالبر نے ابو عبیدہ سے قول باری تعالیٰ : آیت : الرحمن علی العرش استوی (طہ) کے بارے نقل کیا ہے کہ اس کا معنی ہے ور عرش پر بلند ہوا۔ اور شاعر نے کہا ہے : فاوردتھم ماء بفیفاء قفرۃ وقد حلق النجم الیمانی فاستوی اس میں استوی بلند ہونے کے معنی میں ہے بمعنی علاوارتفع۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : پس اللہ تعالیٰ کی بلندی اور ارتفاع اس کی عظمت و بزرگی، اس کی صفات اور بادشاہی کی بلندی اور فعت سے عبارت ہے، یعنی اس سے اوپر کوئی نہیں ہے جس کے لیے عظمت و جلال کے ان معانی میں سے کوئی ایک ثابت ہو اور نہ ہی کوئی اور اس کے ساتھ ہے کہ اس کے اور اس کے مابین یہ رفعت و بلندی مشرت کہو، بلکہ یہ عظمت و رفعت اور بلندی بالاطلاق اللہ تعالیٰ سبحانہ کی ذات کے لیے ہے ( اور کوئی دوسرا کسی اعتبار سے اس کے ساتھ شریک نہیں ہے) ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : علی العرش یہ لفظ مشترک ہے ایک سے زیادہ معانی پر اطلاق ہوتا ہے۔ علامہ جوہری وغیرہ نے کہا ہے : عرس کا معنی سریر الملک ( بادشاہ کا تخت) ہے قرآن کریم میں ہے آیت : نکروا لھا عرشھا (النمل : 41) ( شکل بدل دو اس کے لیے اس کے تخت کی) آیت : ورفع ابویہ علی العرش (یوسف : 100) ( اور جب شاہی دربار میں پہنچے تو آپ نے اوپر بٹھایا اپنے والدین کو تخت پر) اور عرش کا معنی سقف البیت ( مکان کی چھت) ہے۔ اور عرش القد مکامعنی ہے قدم کی پشت کا بلند حصہ اور اس میں انگلیاں بھی ہیں۔ عرش لسماک : چار چھوٹے ستاروں جو عواء ( چاند کی منازل میں سے ایک منزل ہے) کے نیچے ہیں، کہا جاتا ہے : انھا عجزا لاسد ( بیشک وہ اسد کی دم ہے) اور عرش البئر کا معنی ہے کنویں کو لکڑی کے ساتھ بنانا، اس کے بعد کہ اسے نیچے قد آدم کی مقدار پتھر سے بنا لیا جائے تو وہ لکڑی جس سے اوپر کا حصہ بنایا جاتا ہے وہ عرش کہلاتی ہے، اس کی جمع عروش آتی ہے اور عرش مکہ مکرمہ کا نام بھی ہے اور عرش کا معنی ملک اور سلطنت بھی ہے۔ کہا جاتا ہے مثل عرش فلان جب اس کا ملک، سلطنت اور اس کی عزت جاتی رہے ( چھن جائے) ۔ زہیر نے کہا : تدارکتما عبسا عقد ثل عرشھا وذبیان اذ زلت باقد امھا النعل اور کبھی آیت میں عرش کی تاویل ملک کے معنی سے کی جاتی ہے، یعنی کوئی بادشاہی اور ملک مستحکم اور مضبوط نہیں مگر وہ جو اللہ تعالیٰ جل جلالہ وعزاسمہ کی ہے۔ اور یہ اچھا قول ہے اور اس میں بھی نظر ہے۔ ہم نے اس کے بارے جملہ اقوال اپنی کتاب میں بیان کردیئے ہیں۔ والحمد للہ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : یغشی الیل النھار یعنی وہ اسے ( رات کو) پردے کی طرح بنا دیتا ہے، یعنی دن کی روشنی ختم ہوجاتی ہے ( چلی جاتی ہے) تاکہ رات کے آنے سے دنیا میں زندگی کو قائم رکھنا مکمل ہوجائے، پس رات آرام اور سکون کے لیے ہے اور دن کاروبار حیات کے لیے۔ اور اسے یغشی تشدید کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور اس کی مثل سورة رعد میں ہے۔ اور یہ ابوبکر کی عاصم، حمزہ اور کسائی سے قراءت ہے۔ اور باقیوں نے تخفیف کی ہے۔ اور اس میں یہ دونوں لغتیں ہیں اغشی اور غشی اور تمام نے فغشاھا ما غشی کے متشدد ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اور فاغشینھم ( یسین : 9) پر بھی تمام کا اجماع ہے پس یہ دونوں قرائتیں مساوی ہیں اور تشدید میں تکریر اور تکثیر کا معنی پایا جاتا ہے اور تغشیۃ اور اغشاء کا معنی ہے : ایک شی کا دوسری شے کو ڈھانپ دینا، چھپا دینا اور اس آیت میں رات پر دن کے داخل ہونے کا ذکر نہیں کیا، بلکہ دو میں سے ایک پر اکتفا کیا گیا ہے، جیسے آیت : سرابیل تقیکم الحر ( النحل : 81) (ایسے لباس جو بچاتے ہیں تمہیں گرمی سے) اور آیت : بیدک الخیر ( آل عمران : 26) ( تیرے ہی ہاتھ میں ہے ساری بھلائی) میں ہے۔ اور حمید بن قیس نے آیت : یغشی الیل النھار پڑھا ہے اور اس کا معنی ہے بیشک دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ آیت : یطلبہ حثیثا یعنی وہ اسے ہمیشہ طلب کرتا ہے بغیر کسی فتور اور سکون کے۔ اور آیت : یغشی الیل النھار حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے اور تقدیر کلام ہے : استوی علی العرش مغشیا اللیل النھار ( وہ عرش پر اپنی شان کے مطابق متمکن ہوا درآنحالیکہ وہ رات سے دن کو ڈھانکتا ہے) اور اسی طرح آیت : یطلبہ حثیثا بھی اللیل سے حال ہے، یعنی یغشی اللیل النھار طالبالہ ( رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اسے تیزی سے طلب کرتے ہوئے) اور یہ احتمال بھی ہے کہ جملہ مستانفہ ہو حال نہ ہو اور حثیثا طالب المقدر سے بدل ہو یا اس کی صفت ہو یا مصدر محذوف کی صفت ہو، یعنی یطلبہ طلبا سریعا اور الحث کا معنی ہوتا ہے : بہت جلدی کرنا اور تیزی کرنا۔ اور دلی حثیثا ای برعا ( یعنی وہ تیزی سے واپس بھاگا) ۔ آیت : والشمس والقمر والنجوم مسخرت بامرہ اخفش نے کہا ہے : اس کا عطف السموات پر ہے، یعنی وخلق الشمس ( اور اس نے سورج، چاند اور ستاروں کو تخلیق فرمایا وہ سب اس کے حکم کے پابند ہیں) اور حضرت عبداللہ بن عامر (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 482) سے ان تمام میں رفع مروی ہے اس بنا پر کہ یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ قولہ تعالیٰ : آیت : الا لہ الخلق والامر اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ اپنی خبر میں سچا ہے، پس اسی کے لیے خاص ہے پیدا کرنا اور حکم دینا، اس نے انہیں تخلیق فرمایا ہے اور انہیں اس کے بارے حکم دیا جو پسند فرمایا۔ اور یہ امر نہیں کا تقاضا کرتا ہے۔ ابن عیینہ (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 482) نے کہا ہے : اس نے خلق اور امر کے درمیان فرق کیا ہے، پس جس نے ان دونوں کو جمع کیا تو اس نے کفر کیا، پس خلق مخلوق ہے اور امر اس کا وہ کلام ہے۔ جو غیر مخلوق ہے اور وہ اس کا یہ قول ہے : کن (ہو جا) ارشاد باری تعالیٰ ہے : آیت : انما امرہ اذا اراد شیا ان یقول لہ کن فیکون (یسٰین) ( اس کا حکم، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہ فرماتا ہے اس کو ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے) اور خلق اور امر کے الگ الگ اور متفرق ہونے میں اس کے قول کے فاسد ہونے پر بین دلیل موجود ہے جس نے کہا ہے کہ قرآن مخلوق ہے، کیونکہ اگر اس کا وہ کلام جو امر ہے مخلوق ہو تو تحقیق اس نے پھر یہ کہا : الا لہ الخلق والخلق اور یہ کلام سے عاجز آنا، ناپسندیدہ اور ایسا کلام ہے جس میں مدد کی حاجت اور ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی کلام کرنے سے بلندو برتر ہے جس میں کوئی فائدہ اور نفع نہیں۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : آیت : ومن ایتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ (الروم : 25) ( اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں ایک یہ ہے کہ قائم ہے آسمان اور زمین اس کے حکم سے) آیت : والشمس والقمر والنجوم مسخرت بامرہ پس اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ خبر دی ہے کہ مخلوقات اسی کے حکم کے ساتھ قائم ہیں، پس اگر امر بھی مخلوق ہو تو وہ یقینا ایک دوسرے امر کا محتاج ہوگا جس کے ساتھ وہ قائم ہوگا اور پھر وہ امر کا ایک مزید امر محتاج ہوگا یہاں تک کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ اور یہ محال ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس کا وہ امر جو اس کا کلام ہے وہ قدیم ازلی اور غیر مخلوق ہے، تاکہ اس کے ساتھ مخلوقات کا قیام صحیح ہو سکے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : آیت : وما خلقنا السموت والارض ومابینھما الا بالحق (الفجر : 85) ( اور نہیں پیدا فرمایا ہم نے آسمانوں اور زمین کو نیز جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر حق کے ساتھ ) اور اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ اس نے ان دونوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی قول کے ساتھ اور وہ اس کا وہ قول ہے جو اس نے چیزوں کے موجود ہونے کے لیے فرمایا ہے یعنی کن ( تو ہوجا) پس اگر حق بھی مخلوق ہو تو پھر یہ صحیح نہیں کہ وہ اس کے ساتھ مخلوقات کو پیدا کرے، کیونکہ خلق مخلوق کے ساتھ تخلیق نہیں ہو سکتی۔ اور اس پر یہ ارشادات دلالت کرتے ہیں : آیت : ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین ( الصافات) ( اور ہمارا وعدہ اپنے بندوں کے ساتھ جو رسول ہیں پہلے ہوچکا ہے) آیت : ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (الانبیاء) ( بلاشبہ وہ لوگ جن کے لیے مقدر ہوچکی ہے ہماری طرف سے بھلائی تو وہی اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے) آیت : ولکن حق القول منی ( السجدہ : 13) ( لیکن یہ بات طے ہوچکی ہے میری طرف سے، یہ سب قدیم میں قول کے مقدم ہونے کی طرف اشارہ ہے اور یہ وجود میں ازل کو ثابت کرنا ہے اور ان کے رد کے لیے یہی ایک نکتہ کافی ہے۔ اور ان کے لیے یہ آیات ہیں جن سے انہوں نے اپنے مذہب پر استدلال کیا ہے مثلا قول باری تعالیٰ ہے : آیت : ما یاتیھم من ذکر من ربھم محدث الایہ ( الانبیاء : 2) ( نہیں آتی ان کے پاس کوئی تازہ نصیحت ان کے رب کی طرف سے) اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : وکان امر اللہ قدرا مقدورا (الاحزاب) اور مفعولا اور وہ آیات جو ان کی مثل ہیں ( اور اللہ کا حکم ایسا فیصلہ ہوتا ہے جو طے پا چکا ہوتا ہے) ؎ قاضی ابوبکر نے کہا ہے : آیت : ما یاتیھم من ذکر ( الانبیاء : 2) کا معنی ہے : حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے جو وعظ و نصیحت اور جو وعدہ تخفیف انہیں ہوتا ہے۔ آیت : الا استمعوہ وھم یلعبون (الانیائ) ( مگر یہ کہ وہ سنتے ہیں اسے اس حال میں کہ وہ ( لہو و) لعب میں ( مگن) ہوتے ہیں، کیونکہ رسل علیہم الصلوٰات والتسلیمات کی نصیحت اور ان کا ڈرانا سبھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فذکر انما انت مذکر (الغاشیہ) ( پس آپ انہیں سمجھاتے رہا کریں آپ کا کام تو سمجھانا ہی ہے) اور کہا جاتا ہے : فلان فی مجلس الذکر ( فلاں وعظ ونصیحت کی مجلس میں ہے) اور وکان امرا اللہ قدرا مقدورا (الاحزاب) اور مفعولا کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کافروں کے لیے اپنی سزا اور انتظام کا اور مومنین کے لیے اپنی مدد ونصرت کا اور جو اس کے بارے فیصلہ فرمایا ہے اور اپنے افعال میں سے جو اس کے لیے مقرر فرمائے ہیں ان کا ارادہ کیا ہے اور اس میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : حتی اذا جاء امرنا ( ہود : 40) (یہاں تک کہ جب آگیا اس کا حکم) اور عزوجل نے ارشاد فرمایا : آیت : وما امر فرعون برشید ( ہود) ( اور فرعون کا حکم بالکل غلط تھا) یعنی اس کے مطابق اس کی شان، اس کے افعال اور اس کا طریقہ کار ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے : لھا امرھا حتی اذا تبوات باخفافھا مرعی تبوا مضجعا مسئلہ نمبر 2۔ اور جب یہ ثابت اور پختہ ہوگیا تو پھر یہ جان لو کہ امر کسی چے کے ارادہ میں سے نہیں ہے۔ اور معتزلہ کہتے ہیں : امر نفس ارادہ ہی ہے۔ اور یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ وہ کبھی ایسے شے کے بارے حکم دیتا ہے جس کا وہ ارادہ نہیں فرماتا اور اس سے منع فرما دیتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم ارشاد فرمایا لیکن اس کا ارادہ نہیں فرمایا۔ اور اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اپنی امت کے ساتھ مل کر پچاس نمازیں پڑھیں گے، لیکن اللہ تعلیٰ نے اس میں پانچ سے زیادہ کا ارادہ نہیں فرمایا۔ اور کبھی حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کا ارادہ فرمایا کہ وہ فرماتا ہے : آیت : ویتخذ منکم شھدآء ( ال عمران : 140) اور کافروں کو آپ قتل کرنے سے منع فرما دیا اور انہیں اس بارے حکم نہیں دیا۔ اس باب میں یہی صحیح اور نفس ہے، پاس اس میں غور کرلو۔ قولہ تعالیٰ : آیت : تبٰرک اللہ رب العلمین تبرک باب تفاعل ہے۔ یہ برکت سے ماخوذ ہے ( زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 164ٍ ) اور اس کا معنی کثرت اور وسعت ہے۔ کہا جاتا ہے : بورک الشی اور بورک فیہ ( شے میں کثرت اور وسعت رکھ دی گئی) یہ ابن عرفہ نے کہا ہے۔ اور ازہری نے کہا ہے : تبرک کا معنی ہے تعالیٰ وتعاظم وارتفع ( اور وہ بلند وبالا اور عظمت وشان والا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک اس کے نام سے یمن و برکت حاصل کی جاتی ہے۔ اور آیت : رب العلمین کا معنی سورة الفاتحہ میں گزر چکا ہے۔
Top