Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قرار فرمایا
عَلَي
: پر
الْعَرْشِ
: عرش
يُغْشِي
: ڈھانکتا ہے
الَّيْلَ
: رات
النَّهَارَ
: دن
يَطْلُبُهٗ
: اس کے پیچھے آتا ہے
حَثِيْثًا
: دوڑتا ہوا
وَّالشَّمْسَ
: اور سورج
وَالْقَمَرَ
: اور چاند
وَالنُّجُوْمَ
: اور ستارے
مُسَخَّرٰتٍ
: مسخر
بِاَمْرِهٖ
: اس کے حکم سے
اَلَا
: یاد رکھو
لَهُ
: اس کے لیے
الْخَلْقُ
: پیدا کرنا
وَالْاَمْرُ
: اور حکم دینا
تَبٰرَكَ
: برکت والا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّ
: رب
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر ٹھہرا۔ وہی دن کو رات کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ سب اسی کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے یہ خدائے رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔
آیت نمبر
54
قولہ تعالیٰ : ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض فی ستۃ ایام اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ قدرت ایجاد میں منفرد اور یکتا ہے، پس وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ ستۃ کی اصل سدسۃ ہے، پس انہوں نے دال کو سین میں ادغام کرنے کا ارادہ کیا اور وہ دونوں تا کے مخرج کے قریب مل گئے لہٰذا تا ان دونوں پر غالب آگئی۔ اور اگر چاہے تو کہے : دو سینوں میں سے ایک کو توا سے بدل دیا جائے اور پھر اسے دال میں ادغامکر دیا جائے، کیونکہ تو اس کی تصغیر میں کہتا ہے : سدیسۃ اور اس کی جمع اسد اس آتی ہے اور جمع اوع تصغیر دونوں اسماء کو اپنی اصل کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں : جاء فلان سادساد سادتا ساتا پس جن نے سادتا کہا ہے اس نے سین کو تاء سے بدل دیا ہے۔ اور الیوم سے مراد سورج کے طلوع ہونے سے لے کر اس کے غروب ہونے تک ہے۔ پس اگر سورج نہ ہو تو پھر یوم بھی نہ ہو۔ یہ قشیری نے کہا ہے۔ اور فرمایا : آیت : فی ستۃ ایام کا معنی ہے آخرت کے ایام میں سے چھ دنوں میں، ان میں سے ہر دن ہزار برس کا ہوگا۔ اور یہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی تعظیم بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ چھ دن ایام دنیا میں سے تھے۔ حضرت مجاہد (رح) وغیرہ (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
408
) نے کہا ہے : ان میں سے پہلا دن اتوار کا دن تھا اور آخر جمعہ کا دن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مدت ذکر فرمائی ہے اگر وہ ایک لحظہ میں ان کی تخلیق کرنا چاہتا تو یقینا ایسا کردیتا۔ کیونکہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ اس کے لیے کہتا : کونی ( تو ہوجا) تو وہ ہوجاتا۔ لیکن اس نے یہ ارادہ فرمایا کہ وہ بندوں کو امور میں نرمی اور تثبت کی تعلیم دے اور تاکہ ملائکہ کے لیے یکے بعد دیگرے اس کی قدرت کا اظہار ہو۔ اور یہ ان کے نزدیک ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ملائکہ کو پیدا فرمایا۔ اور دوسری حکمت یہ ہے کہ اس نے انہیں چھ دنوں میں پیدا فرمایا، کیونکہ اس کے نزدیک ہر شے کی ایک مدت مقرر ہے اور اس نے اس کے ذریعے گنہگاروں کو سزد دینے میں جلدی کرنے کو بھی بیان کیا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک ہر شے کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور یہ اس کے اس قول کی طرح ہے : آیت : آیت : ولقد خلقنا السموٰت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب فاصبر علی ما یقولون (ق) ( اور ہم نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور جو کھچ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں۔ اور ہمیں تھکن نے چھواتک نہیں، پس آپ صبر فرمائیے ان ( کی دل کھانے والی) باتوں پر) اس کے بعد فرمایا : آیت : وکم اھلکنا قبلھم من قرن ھم اشد منھم بطشا ( ق :
36
) ( اور قریش مکہ سے پہلے ہم نے برباد کردیا بہت سی قوموں کو جو شوکت وقوت میں ان سے کہیں زیادہ تھیں) قولہ تعالیٰ : آیت : ثم استوی علی العرض یہ استواء کا مسئلہ ہے، اس بارے میں علماء کا بہت سا کلام اور جرأت کا اظہار ہے۔ ہم نے اس بارے میں علماء کے اقوال الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی وصفاتہ العلی میں بیان کردیئے ہیں اور وہاں ہم نے چودہ اقوال ذکر کیے ہیں۔ اکثر متقدمین اور متاخرین کی جانب سے یہ ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات جہت اور تحیز سے منزہ اور پاک ہے تو پھر اس کی ضرورت اور اس کے لواحق لازم میں سے یہ بھی ہے کہ عام علماء متقدمین کے نزدیک اور متاکرین میں سے محققین اور قائدین کے نزدیک اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات جہت سے پاک اور منزہ ہے، کیونکہ ان کے نزدیک اس سے اوپر کوئی جہت نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جب اسے جہت کے ساتھ خاص کردیا جائے تو پھر وہ کسی مکان اور حیز میں ہو اور مکان اور حیز تسلیم کرنے پر متحیز کے لیے حرکت، سکون، تغیر اور حدوث ماننا لازم آتا ہے ( اور رب کریم کی ذات ان تمام سے مبرا اور منزہ ہے) یہ متکلمین کا قول ہے اور دور اول کے اسلاف ؓ جہت کی نفی کے بارے کوئی کلام نہیں کرتے تھے اور نہ اس کے بارے وہ بولتے تھے، بلکہ انہوں نے یہی بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے اثبات میں وہی کافی ہے جو اس نے اپنی کتاب میں بیان فرمادیا ہے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور سلف صالح میں سے کسی نے بھی اس انکار نہیں کیا ہے کہ وہ اپنے عرش پر حقیقۃ متمکن ہوا ہے اور اس نے عرش کو اس لیے خاص کیا ہے، کیونکہ وہ اس کی مخلوقات میں سے بہت عظیم ہے، لیکن وہ اس استوا اور تمکن کی کیفیت سے ناواقف ہیں، کیونکہ اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ امام مالک (رح) نے فرمایا ہے : لغت میں استوا معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے، لہٰذا اس کے بارے سوال کرتا بدعت ہے۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ ؓ نے کہا ہے۔ اور اتنی مقدار کافی ہے اور جو اس سے زیادہ کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ علماء کی کتب سے اس مقام کو مطالعہ کرے۔ اور کلام عرب میں استوا کا معنی بلندی اور استقرار ہے۔ جوہری نے کہا ہے : استوی من اعوجاج ( وہ ٹیڑھا ہونے سے بچ گیا، سیدھا ہوگیا) استوی ظھر دابتہ ( وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھ گیا) استوی الی السماء اس نے آسمان کا قصد کیا۔ اور استوی بمعنی استولی وظھر ( والی بننا اور غالب آنا) ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : قد استوی بشر علی العراق من غیر سیف ودم مھراق (تفسیر ماوردی، جلد
2
، صفحہ
229
) تحقیق بشر نے عراق پر قبضہ جما لیا تلوار چلائے اور خون بہائے بغیر۔ اور استوی الرجل کا معنی ہے آدمی کی جوانی انتہا کو پہنچ گئی۔ استوی الشی کا معنی ہے شے معتدل اور سیدھی ہوگئی۔ ابو عمر بن عبدالبر نے ابو عبیدہ سے قول باری تعالیٰ : آیت : الرحمن علی العرش استوی (طہ) کے بارے نقل کیا ہے کہ اس کا معنی ہے ور عرش پر بلند ہوا۔ اور شاعر نے کہا ہے : فاوردتھم ماء بفیفاء قفرۃ وقد حلق النجم الیمانی فاستوی اس میں استوی بلند ہونے کے معنی میں ہے بمعنی علاوارتفع۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : پس اللہ تعالیٰ کی بلندی اور ارتفاع اس کی عظمت و بزرگی، اس کی صفات اور بادشاہی کی بلندی اور فعت سے عبارت ہے، یعنی اس سے اوپر کوئی نہیں ہے جس کے لیے عظمت و جلال کے ان معانی میں سے کوئی ایک ثابت ہو اور نہ ہی کوئی اور اس کے ساتھ ہے کہ اس کے اور اس کے مابین یہ رفعت و بلندی مشرت کہو، بلکہ یہ عظمت و رفعت اور بلندی بالاطلاق اللہ تعالیٰ سبحانہ کی ذات کے لیے ہے ( اور کوئی دوسرا کسی اعتبار سے اس کے ساتھ شریک نہیں ہے) ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : علی العرش یہ لفظ مشترک ہے ایک سے زیادہ معانی پر اطلاق ہوتا ہے۔ علامہ جوہری وغیرہ نے کہا ہے : عرس کا معنی سریر الملک ( بادشاہ کا تخت) ہے قرآن کریم میں ہے آیت : نکروا لھا عرشھا (النمل :
41
) ( شکل بدل دو اس کے لیے اس کے تخت کی) آیت : ورفع ابویہ علی العرش (یوسف :
100
) ( اور جب شاہی دربار میں پہنچے تو آپ نے اوپر بٹھایا اپنے والدین کو تخت پر) اور عرش کا معنی سقف البیت ( مکان کی چھت) ہے۔ اور عرش القد مکامعنی ہے قدم کی پشت کا بلند حصہ اور اس میں انگلیاں بھی ہیں۔ عرش لسماک : چار چھوٹے ستاروں جو عواء ( چاند کی منازل میں سے ایک منزل ہے) کے نیچے ہیں، کہا جاتا ہے : انھا عجزا لاسد ( بیشک وہ اسد کی دم ہے) اور عرش البئر کا معنی ہے کنویں کو لکڑی کے ساتھ بنانا، اس کے بعد کہ اسے نیچے قد آدم کی مقدار پتھر سے بنا لیا جائے تو وہ لکڑی جس سے اوپر کا حصہ بنایا جاتا ہے وہ عرش کہلاتی ہے، اس کی جمع عروش آتی ہے اور عرش مکہ مکرمہ کا نام بھی ہے اور عرش کا معنی ملک اور سلطنت بھی ہے۔ کہا جاتا ہے مثل عرش فلان جب اس کا ملک، سلطنت اور اس کی عزت جاتی رہے ( چھن جائے) ۔ زہیر نے کہا : تدارکتما عبسا عقد ثل عرشھا وذبیان اذ زلت باقد امھا النعل اور کبھی آیت میں عرش کی تاویل ملک کے معنی سے کی جاتی ہے، یعنی کوئی بادشاہی اور ملک مستحکم اور مضبوط نہیں مگر وہ جو اللہ تعالیٰ جل جلالہ وعزاسمہ کی ہے۔ اور یہ اچھا قول ہے اور اس میں بھی نظر ہے۔ ہم نے اس کے بارے جملہ اقوال اپنی کتاب میں بیان کردیئے ہیں۔ والحمد للہ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : یغشی الیل النھار یعنی وہ اسے ( رات کو) پردے کی طرح بنا دیتا ہے، یعنی دن کی روشنی ختم ہوجاتی ہے ( چلی جاتی ہے) تاکہ رات کے آنے سے دنیا میں زندگی کو قائم رکھنا مکمل ہوجائے، پس رات آرام اور سکون کے لیے ہے اور دن کاروبار حیات کے لیے۔ اور اسے یغشی تشدید کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور اس کی مثل سورة رعد میں ہے۔ اور یہ ابوبکر کی عاصم، حمزہ اور کسائی سے قراءت ہے۔ اور باقیوں نے تخفیف کی ہے۔ اور اس میں یہ دونوں لغتیں ہیں اغشی اور غشی اور تمام نے فغشاھا ما غشی کے متشدد ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اور فاغشینھم ( یسین :
9
) پر بھی تمام کا اجماع ہے پس یہ دونوں قرائتیں مساوی ہیں اور تشدید میں تکریر اور تکثیر کا معنی پایا جاتا ہے اور تغشیۃ اور اغشاء کا معنی ہے : ایک شی کا دوسری شے کو ڈھانپ دینا، چھپا دینا اور اس آیت میں رات پر دن کے داخل ہونے کا ذکر نہیں کیا، بلکہ دو میں سے ایک پر اکتفا کیا گیا ہے، جیسے آیت : سرابیل تقیکم الحر ( النحل :
81
) (ایسے لباس جو بچاتے ہیں تمہیں گرمی سے) اور آیت : بیدک الخیر ( آل عمران :
26
) ( تیرے ہی ہاتھ میں ہے ساری بھلائی) میں ہے۔ اور حمید بن قیس نے آیت : یغشی الیل النھار پڑھا ہے اور اس کا معنی ہے بیشک دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ آیت : یطلبہ حثیثا یعنی وہ اسے ہمیشہ طلب کرتا ہے بغیر کسی فتور اور سکون کے۔ اور آیت : یغشی الیل النھار حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے اور تقدیر کلام ہے : استوی علی العرش مغشیا اللیل النھار ( وہ عرش پر اپنی شان کے مطابق متمکن ہوا درآنحالیکہ وہ رات سے دن کو ڈھانکتا ہے) اور اسی طرح آیت : یطلبہ حثیثا بھی اللیل سے حال ہے، یعنی یغشی اللیل النھار طالبالہ ( رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اسے تیزی سے طلب کرتے ہوئے) اور یہ احتمال بھی ہے کہ جملہ مستانفہ ہو حال نہ ہو اور حثیثا طالب المقدر سے بدل ہو یا اس کی صفت ہو یا مصدر محذوف کی صفت ہو، یعنی یطلبہ طلبا سریعا اور الحث کا معنی ہوتا ہے : بہت جلدی کرنا اور تیزی کرنا۔ اور دلی حثیثا ای برعا ( یعنی وہ تیزی سے واپس بھاگا) ۔ آیت : والشمس والقمر والنجوم مسخرت بامرہ اخفش نے کہا ہے : اس کا عطف السموات پر ہے، یعنی وخلق الشمس ( اور اس نے سورج، چاند اور ستاروں کو تخلیق فرمایا وہ سب اس کے حکم کے پابند ہیں) اور حضرت عبداللہ بن عامر (معالم التنزیل، جلد
2
، صفحہ
482
) سے ان تمام میں رفع مروی ہے اس بنا پر کہ یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ قولہ تعالیٰ : آیت : الا لہ الخلق والامر اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ اپنی خبر میں سچا ہے، پس اسی کے لیے خاص ہے پیدا کرنا اور حکم دینا، اس نے انہیں تخلیق فرمایا ہے اور انہیں اس کے بارے حکم دیا جو پسند فرمایا۔ اور یہ امر نہیں کا تقاضا کرتا ہے۔ ابن عیینہ (معالم التنزیل، جلد
2
، صفحہ
482
) نے کہا ہے : اس نے خلق اور امر کے درمیان فرق کیا ہے، پس جس نے ان دونوں کو جمع کیا تو اس نے کفر کیا، پس خلق مخلوق ہے اور امر اس کا وہ کلام ہے۔ جو غیر مخلوق ہے اور وہ اس کا یہ قول ہے : کن (ہو جا) ارشاد باری تعالیٰ ہے : آیت : انما امرہ اذا اراد شیا ان یقول لہ کن فیکون (یسٰین) ( اس کا حکم، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہ فرماتا ہے اس کو ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے) اور خلق اور امر کے الگ الگ اور متفرق ہونے میں اس کے قول کے فاسد ہونے پر بین دلیل موجود ہے جس نے کہا ہے کہ قرآن مخلوق ہے، کیونکہ اگر اس کا وہ کلام جو امر ہے مخلوق ہو تو تحقیق اس نے پھر یہ کہا : الا لہ الخلق والخلق اور یہ کلام سے عاجز آنا، ناپسندیدہ اور ایسا کلام ہے جس میں مدد کی حاجت اور ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی کلام کرنے سے بلندو برتر ہے جس میں کوئی فائدہ اور نفع نہیں۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : آیت : ومن ایتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ (الروم :
25
) ( اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں ایک یہ ہے کہ قائم ہے آسمان اور زمین اس کے حکم سے) آیت : والشمس والقمر والنجوم مسخرت بامرہ پس اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ خبر دی ہے کہ مخلوقات اسی کے حکم کے ساتھ قائم ہیں، پس اگر امر بھی مخلوق ہو تو وہ یقینا ایک دوسرے امر کا محتاج ہوگا جس کے ساتھ وہ قائم ہوگا اور پھر وہ امر کا ایک مزید امر محتاج ہوگا یہاں تک کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ اور یہ محال ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس کا وہ امر جو اس کا کلام ہے وہ قدیم ازلی اور غیر مخلوق ہے، تاکہ اس کے ساتھ مخلوقات کا قیام صحیح ہو سکے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : آیت : وما خلقنا السموت والارض ومابینھما الا بالحق (الفجر :
85
) ( اور نہیں پیدا فرمایا ہم نے آسمانوں اور زمین کو نیز جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر حق کے ساتھ ) اور اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ اس نے ان دونوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی قول کے ساتھ اور وہ اس کا وہ قول ہے جو اس نے چیزوں کے موجود ہونے کے لیے فرمایا ہے یعنی کن ( تو ہوجا) پس اگر حق بھی مخلوق ہو تو پھر یہ صحیح نہیں کہ وہ اس کے ساتھ مخلوقات کو پیدا کرے، کیونکہ خلق مخلوق کے ساتھ تخلیق نہیں ہو سکتی۔ اور اس پر یہ ارشادات دلالت کرتے ہیں : آیت : ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین ( الصافات) ( اور ہمارا وعدہ اپنے بندوں کے ساتھ جو رسول ہیں پہلے ہوچکا ہے) آیت : ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (الانبیاء) ( بلاشبہ وہ لوگ جن کے لیے مقدر ہوچکی ہے ہماری طرف سے بھلائی تو وہی اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے) آیت : ولکن حق القول منی ( السجدہ :
13
) ( لیکن یہ بات طے ہوچکی ہے میری طرف سے، یہ سب قدیم میں قول کے مقدم ہونے کی طرف اشارہ ہے اور یہ وجود میں ازل کو ثابت کرنا ہے اور ان کے رد کے لیے یہی ایک نکتہ کافی ہے۔ اور ان کے لیے یہ آیات ہیں جن سے انہوں نے اپنے مذہب پر استدلال کیا ہے مثلا قول باری تعالیٰ ہے : آیت : ما یاتیھم من ذکر من ربھم محدث الایہ ( الانبیاء :
2
) ( نہیں آتی ان کے پاس کوئی تازہ نصیحت ان کے رب کی طرف سے) اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : وکان امر اللہ قدرا مقدورا (الاحزاب) اور مفعولا اور وہ آیات جو ان کی مثل ہیں ( اور اللہ کا حکم ایسا فیصلہ ہوتا ہے جو طے پا چکا ہوتا ہے) ؎ قاضی ابوبکر نے کہا ہے : آیت : ما یاتیھم من ذکر ( الانبیاء :
2
) کا معنی ہے : حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے جو وعظ و نصیحت اور جو وعدہ تخفیف انہیں ہوتا ہے۔ آیت : الا استمعوہ وھم یلعبون (الانیائ) ( مگر یہ کہ وہ سنتے ہیں اسے اس حال میں کہ وہ ( لہو و) لعب میں ( مگن) ہوتے ہیں، کیونکہ رسل علیہم الصلوٰات والتسلیمات کی نصیحت اور ان کا ڈرانا سبھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فذکر انما انت مذکر (الغاشیہ) ( پس آپ انہیں سمجھاتے رہا کریں آپ کا کام تو سمجھانا ہی ہے) اور کہا جاتا ہے : فلان فی مجلس الذکر ( فلاں وعظ ونصیحت کی مجلس میں ہے) اور وکان امرا اللہ قدرا مقدورا (الاحزاب) اور مفعولا کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کافروں کے لیے اپنی سزا اور انتظام کا اور مومنین کے لیے اپنی مدد ونصرت کا اور جو اس کے بارے فیصلہ فرمایا ہے اور اپنے افعال میں سے جو اس کے لیے مقرر فرمائے ہیں ان کا ارادہ کیا ہے اور اس میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : حتی اذا جاء امرنا ( ہود :
40
) (یہاں تک کہ جب آگیا اس کا حکم) اور عزوجل نے ارشاد فرمایا : آیت : وما امر فرعون برشید ( ہود) ( اور فرعون کا حکم بالکل غلط تھا) یعنی اس کے مطابق اس کی شان، اس کے افعال اور اس کا طریقہ کار ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے : لھا امرھا حتی اذا تبوات باخفافھا مرعی تبوا مضجعا مسئلہ نمبر
2
۔ اور جب یہ ثابت اور پختہ ہوگیا تو پھر یہ جان لو کہ امر کسی چے کے ارادہ میں سے نہیں ہے۔ اور معتزلہ کہتے ہیں : امر نفس ارادہ ہی ہے۔ اور یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ وہ کبھی ایسے شے کے بارے حکم دیتا ہے جس کا وہ ارادہ نہیں فرماتا اور اس سے منع فرما دیتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم ارشاد فرمایا لیکن اس کا ارادہ نہیں فرمایا۔ اور اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اپنی امت کے ساتھ مل کر پچاس نمازیں پڑھیں گے، لیکن اللہ تعلیٰ نے اس میں پانچ سے زیادہ کا ارادہ نہیں فرمایا۔ اور کبھی حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کا ارادہ فرمایا کہ وہ فرماتا ہے : آیت : ویتخذ منکم شھدآء ( ال عمران :
140
) اور کافروں کو آپ قتل کرنے سے منع فرما دیا اور انہیں اس بارے حکم نہیں دیا۔ اس باب میں یہی صحیح اور نفس ہے، پاس اس میں غور کرلو۔ قولہ تعالیٰ : آیت : تبٰرک اللہ رب العلمین تبرک باب تفاعل ہے۔ یہ برکت سے ماخوذ ہے ( زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
164
ٍ ) اور اس کا معنی کثرت اور وسعت ہے۔ کہا جاتا ہے : بورک الشی اور بورک فیہ ( شے میں کثرت اور وسعت رکھ دی گئی) یہ ابن عرفہ نے کہا ہے۔ اور ازہری نے کہا ہے : تبرک کا معنی ہے تعالیٰ وتعاظم وارتفع ( اور وہ بلند وبالا اور عظمت وشان والا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک اس کے نام سے یمن و برکت حاصل کی جاتی ہے۔ اور آیت : رب العلمین کا معنی سورة الفاتحہ میں گزر چکا ہے۔
Top