Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 86
وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ۚ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ١۪ وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
وَلَا تَقْعُدُوْا : اور نہ بیٹھو بِكُلِّ : ہر صِرَاطٍ : راستہ تُوْعِدُوْنَ : تم ڈراؤ وَتَصُدُّوْنَ : اور تم روکو عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لایا بِهٖ : اس پر وَتَبْغُوْنَهَا : اور ڈھونڈو اس میں عِوَجًا : کجی وَاذْكُرُوْٓا : اور یاد کرلو اِذْ : جب كُنْتُمْ : تم تھے قَلِيْلًا : تھوڑے فَكَثَّرَكُمْ : تو اس نے تمہیں بڑھا دیا وَانْظُرُوْا : اور دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور مت بیٹھو راستوں پر کہ ڈراؤ اور روکو اللہ کے راستہ سے اس کو جو کہ ایمان لائے اس پر اور ڈھونڈو اس میں عیب اور یاد کرو جب کہ تھے تم بہت تھوڑے پھر تم کو بڑھا دیا اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا،
تیسری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے۔ راستوں سڑکوں پر نہ بیٹھا کرو۔ اس کا مطلب بعض مفسرین نے یہ قرار دیا کہ یہ دونوں جملے ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں کہ یہ لوگ راستوں پر بیٹھ کر حضرت شعیب ؑ کے پاس آنے والوں کو روکتے اور ڈراتے دھمکاتے تھے اس سے منع کیا گیا۔
اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ان کے یہ دو جرم الگ الگ تھے۔ راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ بھی کرتے تھے اور حضرت شعیب ؑ پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ پہلے جملہ میں پہلا مضمون اور دوسرے جملہ میں دوسرا مضمون بیان فرمایا ہے۔ تفسیر بحر محیط وغیرہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور راستوں پر بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کرنے میں اس کو بھی داخل قرار دیا ہے جو خلاف شرع ناجائز ٹیکس وصول کرنے کے لئے راستوں پر چوکیاں بنائی جاتی ہیں۔
علامہ قرطبی نے فرمایا وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا یعنی تم لوگ اللہ کے راستہ میں کجی کی تلاش میں لگے رہتے ہو کہ کہیں انگلی رکھنے کی جگہ ملے تو اعتراضات و شبہات کے دفتر کھول دیں اور لوگوں کو دین حق سے بیزار کرنے کی کوشش کریں۔
اس کے بعد آیت کے آخر میں فرمایا واذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ، اس میں ان لوگوں کی تنبیہ کے لئے ترغیب و ترہیب کے دونوں پہلو استعمال کئے گئے۔ اول تو ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت یاد دلائی کہ تم پہلے اعداد و شمار کے لحاظ سے کم تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری نسلیں بڑھا کر ایک بڑی وسیع قوم بنادیا۔ یا مال و سامان کے اعتبار سے کم تھے اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرما کر مستغنی کردیا۔ پھر ترہیب کے لئے فرمایا کہ اپنے سے پہلے فساد کرنے والی قوموں کے انجام پر نظر ڈالو کہ قوم نوح قوم عاد وثمود قوم لوط پر کیا کیا عذاب آچکے ہیں تاکہ سمجھ سے کام لو۔
Top