Ahkam-ul-Quran - An-Naml : 23
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ الصُّمُّ : بہرے الْبُكْمُ : گونگے الَّذِيْنَ : جو کہ لَا يَعْقِلُوْنَ : سمجھتے نہیں
بیشک سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہی بہرے گونگے ہیں جو نہیں سمجھتے۔
تیسری آیت میں ان لوگوں کی شدید مزمت ہے جو حق بات کو غور و تدبر کے ساتھ نہیں سنتے اور اس کو قبول نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم نے جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ۔
لفظ دواب دابہ کی جمع ہے اصل لغت کے اعتبار سے ہر زمین پر چلنے والے کو دابہ کہا جاتا ہے مگر عرف و محاورہ میں صرف چوپایہ جانوروں کو دابة کہتے ہیں۔ معنی آیت کے یہ ہوئے کہ سب سے بدترین چوپائے اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو حق کو سننے سے بہرے اور اس کے قبول کرنے سے گونگے ہیں اور بہرے گونگے میں اگر کچھ عقل ہو تو وہ بھی اشاروں سے اپنے دل کی بات کہہ لیتا ہے اور دوسروں کی بات سمجھ لیتا ہے یہ لوگ بہرے گونگے ہونے کے ساتھ بےعقل بھی ہیں اور یہ ظاہر ہے جو بہرا گونگا عقل سے بھی خالی ہو اس کے سمجھنے سمجھانے کا کوئی راستہ نہیں۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ انسان کو جو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا اور اشرف المخلوقات اور مخدوم کائنات بنایا گیا یہ سب انعامات صرف اطاعت حق میں مضمر اور منحصر ہیں جب انسان نے حق بات کے سننے سمجھنے اور ماننے سے اعراض کیا تو یہ سارے انعامات اس سے سلب ہوجاتے ہیں اور وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ انسان اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے سب جانوروں سے افضل و اعلی ہے اور فرشتوں سے کم درجہ رکھتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے سعی و عمل اور اطاعت حق میں جد و جہد کرتا ہے تو فرشتوں سے بھی اعلی و اشرف ہوجاتا ہے اور اگر اس نے اطاعت حق سے روگردانی کی تو پھر وہ اسفل سافلین میں جاتا ہے اور جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہوجاتا ہے۔
Top