Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 28
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّمَآ : درحقیقت اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد فِتْنَةٌ : بڑی آزمائش وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : پاس اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اور جان لو کہ بیشک تمہارے مال اور اولاد خرابی میں ڈالنے والے ہیں اور یہ کہ اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔
(آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔ یعنی یہ بات سمجھ رکھو کہ تمہارے مال و اولاد تمہارے لئے فتنہ ہیں۔
فتنہ کے معنی امتحان کے بھی آتے ہیں اور عذاب کے بھی اور ایسی چیزوں کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے جو عذاب کا سبب بنیں۔ قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں ان تینوں معنی کے لئے لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں تنیوں معنی کی گنجائش ہے بعض اوقات مال و اولاد خود بھی انسان کے لئے دنیا ہی میں وبال جان بن جاتے ہیں اور ان کے سبب غفلت و معصیت میں مبتلا ہو کر سبب عذاب بن جانا تو بالکل ظاہر ہے۔ اول یہ کہ مال و اولاد کے ذریعہ تمہارا امتحان لینا مقصود ہے کہ یہ چیزیں ہمارے انعامات ہیں۔ تم انعام لے کر شکر گزار اور اطاعت شعار بنتے ہو یا ناشکرے اور نافرمان۔ دوسرے اور تیسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مال اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا تو یہی مال و اولاد تمہارے لئے عذاب بن جائیں گے۔ بعض اوقات تو دنیا ہی میں یہ چیزیں انسان کو سخت مصیبتوں میں مبتلا کردیتی ہیں اور دنیا ہی میں مال و اولاد کو وہ عذاب محسوس کرنے لگتے ہیں ورنہ یہ تو لازمی ہے کہ دنیا میں جو مال اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف کمایا گیا یا خرچ کیا گیا وہ مال ہی آخرت میں اس کے لئے سانپ بچھو اور آگ میں داغ دینے کا ذریعہ بن جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اور بیشمار روایات حدیث میں اس کی تصریحات موجود ہیں۔ اور تیسرے معنی یہ کہ یہ چیزیں سبب عذاب بن جائیں یہ تو ظاہر ہی ہے کہ جب یہ چیزیں اللہ تعالیٰ سے غفلت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا سبب بنیں تو عذاب کا سبب بن گئیں۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔ یعنی یہ بھی سمجھ لو کہ جو شخص اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں مال و اولاد کی محبت سے مغلوب نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔
اس آیت کا مضمون تو سب مسلمانوں کو عام اور شامل ہے مگر واقعہ اس کے نزول کا اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ابو لبابہ ؓ کا قصہ ہے جو غزوہ بنو قریظہ میں پیش آیا کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام نے بنو قریظہ کے قلعہ کا اکیس روز تک محاصرہ جاری رکھا جس سے عاجز ہو کر انہوں نے وطن چھوڑ کر ملک شام چلے جانے کی درخواست کی آپ نے ان کی شرارتوں کے پیش نظر اس کو قبول نہیں فرمایا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ صلح کی صرف یہ صورت ہے کہ سعد بن معاذ تمہارے بارے میں جو کچھ فیصلہ کریں اس پر راضی ہوجاؤ۔ انہوں نے درخواست کی کہ سعد بن معاذ کے بجائے ابو لبابہ کو یہ کام سپرد کردیا جائے۔ کیونکہ حضرت ابولبابہ کے اہل و عیال اور جائیداد بنو قریظہ میں تھے، ان سے یہ خیال تھا کہ وہ ہمارے معاملہ میں رعایت کریں گے۔ آپ نے ان کی درخواست پر حضرت ابو لبابہ کو بھیج دیا۔ بنوقریظہ کے سب مرد و زن ان کے گرد جمع ہو کر رونے لگے اور یہ پوچھا کہ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اتر آئیں تو کیا ہمارے معاملہ میں وہ کچھ نرمی فرمائیں گے۔ ابولبابہ کو معلوم تھا کہ ان کے معاملہ میں نرمی برتنے کی رائے نہیں ہے۔ انہوں نے کچھ ان لوگوں کی گریہ وزاری سے اور کچھ اپنے اہل و عیال کی محبت سے متاثر ہو کر اپنے گلے پر تلوار کی طرح ہاتھ پھیر کر اشارہ سے بتلا دیا کہ ذبح کئے جاؤ گے۔ گویا اس طرح آنحضرت ﷺ کا راز فاش کردیا۔
مال و اولاد کی محبت میں یہ کام کر تو گزرے۔ مگر فورا تنبہ ہوا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خیانت کی۔ جب وہاں سے واپس ہوئے تو اس درجہ ندامت سوار ہوئی کہ آپ کی خدمت میں لوٹنے کے بجائے سیدھے مسجد میں پہنچے اور مسجد کے ایک ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی اسی طرح بندھا رہوں گا چاہے اسی حالت میں موت آجائے۔ چناچہ سات روز مکمل اسی طرح بندھے کھڑے رہے ان کی بیوی اور لڑکی نگہداشت کرتی تھیں، انسانی ضرورت کے وقت اور نماز کے وقت کھول دیتی اور فارغ ہونے کے بعد پھر باندھ دیتی تھیں، کھانے پینے کے پاس نہ جاتے تھے یہاں تک کہ غشی طاری ہوجاتی تھی۔
رسول کریم ﷺ کو جب اول اس کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ اگر وہ اول ہی میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لئے استغفار کرتا اور توبہ قبول ہوجاتی اب جب کہ وہ یہ کام کر گزرے تو اب قبولیت توبہ نازل ہونے کا انتظار ہی کرنا ہے۔
چنانچہ سات روز کے بعد آخر شب میں آپ پر یہ آیتیں ان کی توبہ قبول ہونے کے متعلق نازل ہوئیں بعض حضرات نے ان کو خوشخبری سنائی اور کھولنا چاہا مگر انہوں نے کہا کہ جب تک خود آنحضرت ﷺ مجھے نہ کھولیں گے میں کھلنا پسند نہ کروں گا۔ چناچہ جب آپ صبح کی نماز کے وقت مسجد میں تشریف لائے تو اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا۔ آیت مذکورہ میں جو خیانت کرنے اور مال و اولاد کی محبت سے مغلوب ہونے کی ممانعت کا ذکر آیا ہے اس کا اصل سبب یہ واقعہ ہے۔ واللہ اعلم۔
Top