Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 69
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَكُلُوْا : پس کھاؤ مِمَّا : اس سے جو غَنِمْتُمْ : تمہیں غنیمت میں ملا حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
سو کھاؤ جو تم کو غنیمت میں ملا حلال ستھرا اور ڈرتے رہو اللہ سے بےبیشک اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔
مسئلہ۔ آیت مذکو رہ میں قیدیوں سے فدیہ لے کر آزاد کرنے یا مال غنیمت جمع کرنے پر جو عتاب نازل ہوا اور عذاب الہی سے ڈرایا گیا مگر پھر معافی دے دی گئی۔ اس سے یہ بات نہ کھلی کہ آئندہ کے لئے ان معاملات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس لئے اگلی آیت میں مال غنیمت کا مسئلہ تو صاف کردیا گیا (آیت) فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ یعنی جو مال غنیمت تم کو ہاتھ آگیا ہے وہ اب کھا سکتے ہو وہ آئندہ کے لئے تمہارے واسطے حلال کردیا گیا۔ مگر اس میں بھی ایک شبہ یہ رہ جاتا ہے کہ مال غنیمت حلال کرنے کا حکم تو اب ملا ہے۔ اس حکم سے پہلے جو غلطی سے جمع کرلیا گیا تھا شاید اس میں کسی قسم کی کراہت ہو اس لئے اس کے بعد حَلٰلًا طَيِّبًا فرما کر یہ شبہ بھی دور کردیا گیا کہ اگرچہ نزول حکم سے پہلے جمع غنیمت کا اقدام درست نہ تھا مگر اب جب کہ مال غنیمت حلال ہونے کا حکم آگیا تو پہلا جمع کیا ہوا بھی بغیر کسی کراہت کے حلال ہے۔
مسئلہ۔ یہاں اصول فقہ کا ایک مسئلہ قابل نظر اور قابل یاد داشت ہے کہ جب کسی ناجائز اقدام کے بعد مستقل آیت کے ذریعہ اس مال کو حلال کرنے کا حکم نازل ہوجائے تو سابقہ اقدام کا اس میں کوئی اثر نہیں رہتا۔ یہ مال حلال طیب ہوجاتا ہے جیسا کہ یہاں ہوا لیکن اسی کی ایک دوسری نظیر یہ ہے کہ کسی معاملہ میں حکم تو پہلے سے نازل شدہ تھا مگر اس کا ظہور عمل کرنے والوں پر نہیں تھا اس بنا پر اس کی خلاف ورزی کر گزرے، بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عمل قرآن و سنت کے فلاں حکم کے خلاف تھا۔ تو اس صورت میں ظہور حکم کے بعد وہ مال حلال نہیں رہتا اگرچہ سابقہ غلطی کو معاف بھی کردیا جائے۔ (نور الانوار ملا جیون)
آیت مذکورہ میں مال غنمیت کو حلال طیب تو قرار دے دیا گیا مگر آخر آیت میں یہ قید لگا دی گئی (آیت) وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ اس میں اشارہ کردیا کہ مال غنیمت اگرچہ حلال کردیا گیا ہے مگر وہ بھی ایک خاص قانون کے تحت حلال ہوا ہے اس قانون کے خلاف یا اپنے حق سے زائد لیا جائے گا تو وہ جائز نہیں۔
یہاں دو معاملے تھے ایک مال غنیمت دوسرے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا۔ پہلے معاملے کے متعلق تو اس آیت نے بات صاف کردی مگر دوسرا معاملہ ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ اس کے متعلق سورة محمد میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت) فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا (یعنی جب جنگ میں کافروں سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مار دو یہاں تک کہ جب تم خوں ریزی کے ذریعہ ان کی قوت شوکت توڑ چکو تو پھر ان کو قید کرکے مضبوط باندھو۔ اس کے بعد یا تو ان پر احسان کرکے بغیر کسی معاوضہ کے آزاد کردو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کرنے پر عتاب نازل ہوا، یہ اسلام کا پہلا جہاد تھا اس وقت تک کافروں کی قوت و شوکت ٹوٹ نہیں چکی تھی اتفاقا ان پر ایک مصیبت پڑگئی تھی پھر جب اسلام اور مسلمانوں کا مکمل غلبہ حاصل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے وہ حکم منسوخ کرنے کے لئے سورة محمد کی آیت مذکورہ نازل فرمادی۔ جس میں نبی کریم اور مسلمانوں کو قیدیوں کے بارے میں چار اختیار دے دیئے گئے وہ ہیں۔
ان شاء واقتلوھم و ان شاء وا استعبدوھم وان شاء وا افادوھم وان شاء وا اعتقوھم (مظہری) " چاہیں تو سب کو قتل کردیں یا چاہیں تو غلام بنالیں یا چاہیں تو فدیہ لے کر چھوڑ دیں یا چاہیں تو بغیر فدیہ کے آزاد کردیں "۔
مذکورہ چار اختیارات میں سے پہلے دو پر تو پوری امت کا اتفاق اور اجماع ہے کہ امیر مسلیمن کے لئے قیدیوں کو قتل کردینے کا بھی اختیار ہے اور غلام بنالینے کا بھی۔ لیکن ان کو بلا معاوضہ چھوڑ دینے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دینے میں فقہاء امت کا اختلاف ہے۔
امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ثوری، اسحاق اور تابعین میں سے حضرت حسن بصری اور عطاء کا قول یہ ہے کہ یہ دونوں صورتیں بھی امیر مسلیمن کے لئے جائز ہیں کہ قیدیوں کو معاوضہ لے کر چھوڑ دے یا بلا معاوضہ آزاد کردے یا مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرے۔
اور مام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد، اوزاعی اور قتادہ اور ضحاک اور سدی اور ابن جریج فرماتے ہیں کہ بلا معاوضہ چھوڑنا تو بالکل جائز نہیں۔ فدیہ لے کر چھوڑنا بھی امام ابوحنیفہ کے مشہور مذہب میں جائز نہیں۔ البتہ سیر کبیر کی روایت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو مال کی ضرورت ہو تو فدیہ لے کر چھوڑ سکتے ہیں۔ البتہ مسلمان قیدیوں کے تبادلہ میں ان کو چھوڑ دینا امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک جائز ہے (کما ہو اظہر الروایتین عنہم۔ مظہری)
جن حضرات نے فدیہ لے کر یا بلا فدیہ چھوڑ دینے کی اجازت دی ہے وہ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق سورة محمد کی آیت کو انفال کی آیت کا ناسخ اور آیت انفال کو منسوخ قرار دیتے ہیں فقہاء حنفیہ نے آیت سورة محمد کو منسوخ قرار دیا ہے اور سورة انفال کی (آیت) فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ اور آیت فاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ کو اس کا ناسخ قرار دیا ہے اس لئے قیدیوں کو آزاد کردینا خواہ فدیہ لے کر ہو یا بلا فدیہ ان کے نزدیک جائز نہیں (مظہری)
لیکن اگر سورة انفال کی آیت کے الفاظ اور سورة محمد کے الفاظ میں غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں۔ بلکہ دو مختلف حالتوں کے دو حکم ہیں۔ سورة انفال کی آیت میں بھی اصل حکم اثخان فی الارض یعنی قتل کے ذریعہ کافروں کی قوت توڑ دینا۔ اور سورة محمد کی آیت میں بھی جو من و فداء (یعنی قیدیوں کو بلا معاوضہ یا معاوضہ لے کر آزاد کرنے) کا اختیار دیا گیا ہے ان سے پہلے اثخان فی الارض کا بیان ہوچکا ہے یعنی خون ریزی کے ذریعہ کفر کی قوت ٹوٹ جانے کے بعد یہ بھی اختیار ہے کہ قیدیوں کو فدیہ پر یا بلا فدیہ آزاد کردیا جائے۔
امام اعظم ابوحنیفہ کی روایت سیر کبیر کا بھی یہی منشاء ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے حالات اور ضرورت پر نظر کرکے دونوں قسم کے احکام دیئے جاسکتے ہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
Top