Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 76
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
اور نوح کو بھی (یاد کرو) جبکہ اس سے پیشتر انہوں نے پکارا تو ہم نے اس کی سنی پھر اس کو اور اس کے گھرانے کو بڑی سخت مصیبت سے (طوفان) نجات دی
ترکیب : جس طرح لوطا مفعول تھا ائتیا محذوف کا جس کی تفسیر اتینا مذکور ہے اسی طرح نوحا و دائود و سلیمان ہیں اور ممکن ہے کہ ان کو اذکر محذوف کا مفعول کہا جاوے اذ نفشت ظرف ہو یحکمان کا مع داؤد والعامل فی مع یسبحن اور یہ حال ہے الجبال سے والطیر معطوف ہے الجبال پر وقیلھی بمعنی مع الریح منصوب ہے سخرنامقدر سے عاصفہ حال ہوا الریح سے تجری دوسرا حال من منصوب ہے سخرنا سے۔ تفسیر : :۔ یہ تیسرا قصہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کا ہے کہ جب ان کی قوم نے ان کو سخت تکلیف پہنچائی اور انہوں نے ہم کو کرب عظیم میں پکارا تو اس کو اور اس کے کنبے کو کشتی میں سوار کر کے اس بلائے عظیم سے نجات دی باقی تمام قوم پر قہر الٰہی ٹوٹ پڑا سب کے سب پانی میں ڈوب گئے۔ اے محمد ﷺ ! پہلی امتوں نے اپنے انبیاء کو ایسی ایسی تکلیفیں دی ہیں آخر اس کے وبال میں پکڑے گئے تمہارے مخالف اس مہلت پر نازاں نہ ہوں۔ یہ چوتھا قصہ حضرت دائود اور سلیمان (علیہ السلام) کا ہے ان کے قصہ میں ایک تو یہ بات بتلانی مقصود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے ایسے ایسے برگزیدہ اور صاحب تخت و تاج پیدا ہوئے یہ سب ان کی خدا پرستی کا پھل ہے کہ جن کے ساتھ ان کے معاصروں نے یہ بدسلوکیاں کیں تھیں کہ ان کو آگ میں ڈال دیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ کفار قریش جو اپنی تھوڑی سی آسودگی پر یہ غرور اور سرکشی کرتے یہ ان کی کم حوصلگی ہے ورنہ دائود اور سلیمان ( علیہ السلام) جیسوں کو دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے ان کو کیسی ثروت اور حکومت دی تھی ہوا اور پہاڑ اور پرند تک اور جن و شیاطین تک بھی ان کے زیر حکم تھے۔ اس پر بھی وہ ایسے خدا ترس ‘ خدا پرست ‘ با انصاف تھے کہ جس کی ادنیٰ نظیریہ ہے کہ دائود (علیہ السلام) سے باوجود یہ کہ باپ اور بزرگ تھے ایک فیصلہ میں غلطی ہوئی جو بکریوں کے کھیت میں نقصان کردینے کے متعلق تھا مگر سلمان ( علیہ السلام) کے کہنے کو مان گئے اور سلیمان ( علیہ السلام) کو دیکھو کہ انہوں نے اس غلط فیصلہ میں جو ایسے بڑے معزز باپ سے سرزد ہوگیا تھا ان کی پیروی نہ کی۔ پھر اے لوگو ! تم اپنے جہلا باپ دادا کی لکیر کے ناحق کیوں فقیر بنے بیٹھے ہو کیا ان سے غلطی اور سوئِ فہمی ممکن نہ تھی ؟ اب پیشتر وہ بکریوں کے چرنے کا فیصلہ ذکر فرماتا ہے پھر جو ان کو نعمتیں عطا ہوئی تھیں ان کو ذکر کرتا ہے۔ فقال اذ نفشت ابن السکیت کہتے ہیں نفش شب میں بکریوں کا چرواہے بغیر ازخود چرنا۔ وہ قصہ جیسا کہ ابن مسعود ‘ شریح و مقاتل رحمہم اللہ نے نقل کیا ہے یوں ہے کہ دائود (علیہ السلام) کے عہد حکومت میں ایک رات کسی چرواہے کی بیخبر ی میں بکریاں کسی کے انگوری کھیت میں جا پڑیں۔ بکریوں نے انگور کی کونپلیں کھا لیں خوشوں کو خراب کردیا صبح کو یہ مقدمہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کے سامنے پیش ہوا حضرت نے اس کے نقصان کا اندازہ لگایا تو اس قدر قیمت ہوئی کہ جس قدر بکریوں کی مالیت تھی اس لیے وہ بکریاں اس کے تاوان میں کھیت والے کو دلا دیں۔ فریقین باہر آئے تو ان سے سلیمان ( علیہ السلام) نے پوچھا سن کر کہا کہ فریقین کے حق میں اس سے بہتر اور فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔ یہ خبر دائود ( علیہ السلام) کو پہنچی انہوں نے سلمان ( علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا فرمایا بکریاں کھیت والے کو دیجئے اور چرواہے کو کہئے کہ جتنی مدت تک کہ پھر اسی طرح اس کا باغ درست ہو وہ تیری بکریوں کا دودھ اور اون وغیرہ کا نفع لے گا اور تو اتنے دنوں اس کی کھیت کو درست کرے گا پھر جب ویسا ہی ہوجائے تو تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اس پر فریقین راضی ہوگئے۔ دائود (علیہ السلام) نے اس کو بہت پسند کیا 1 ؎۔ اب دائود پر جو انعام ہوئے تھے ان کو بتلاتا ہے : (1) پہاڑ اور پر ندان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے مقاتل کہتے ہیں کہ 1 ؎ داؤد (علیہ السلام) کا یہ فیصلہ وحی والہام پر مبنی نہ تھا بلکہ اجتہاد پر اور اجتہاد شرع میں درست اور سند ہے لیکن مجتھد سے بحیثیت اجتہاد خواہ وہ کوئی ہو غلطی ممکن ہے یا یوں کہو دائود ( علیہ السلام) سے بھی غلطی نہیں ہوئی مگر سلیمان ( علیہ السلام) کو ان سے بہتر بات معلوم ہوگئی۔ ہماری شرع میں اگر یہ حادثہ واقع ہو تو اس کی نسبت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہی حکم سلیمانی جاری ہوگا کیونکہ یہ آیت محکمہ ہے اور بہت علماء کہتے ہیں اجماع سے منسوخ الحکم ہے پھر اس میں امام شافعی (رح) فرماتے ہیں اگر یہ واقعہ دن میں ہو تو بکریوں کے مالک کو کچھ دینا نہیں پڑتا کیونکہ ان میں کھیت کی حفاظت کھیت والے کے ذمہ ہے ہاں اگر رات میں ہو تو تاوان دینا ہوگا۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ خواہ دن کا واقعہ ہو یا رات کا جب تک چرواہے کی بکریوں کے چھوڑنے میں کوئی تعدی یا خفا نہ ہوگی تاوان نہ لازم ہوگا کیونکہ صحیح حدیث میں آگیا ہے العجماء جرجہاجبار۔ ک 12 منہ جب دائود (علیہ السلام) جنگل میں جا کر زبور پڑھتے اور روتے تھے تو ان کے ساتھ پہاڑ اور پرند بھی تسبیح و تہلیل کرنے لگتے تھے۔ کلبی کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا ان کی آواز تسبیح سے گونج اٹھنا اور پرند کا جھنڈ باندھ کر ان کے گرداگرد ان کے حمد وثناء آہ و بکا میں شریک ہونا ان کا تسبیح کرنا ہے اور ایسا واقعہ ہوتا تھا۔ (2) دائود (علیہ السلام) کو زرہ بنانی سکھائی۔ ان سے پیشتر کوئی زرہ بنانا نہ جانتا تھا۔ یہ بھی حروب وجدال میں بڑی کارآمد چیز ہے خدا نے یہ نعمت بندوں کو دائود (علیہ السلام) کے ذریعہ سے عطا فرمائی۔ آج کل قسم قسم کی توپیں اور بندوقیں اور آلات آتش فشاں انسان کے مارنے کے اسباب ہیں مگر محفوظ رکھنے کا کوئی نہیں۔ اس لیے فرماتا ہے لتحصنکم اس پر شکر کرنا چاہیے۔ کماقال فہل انتم شاکرون۔ اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر کرتا ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو دی گئی تھیں : (1) ولسلیمان الریح عاصفۃ کہ سلیمان کے لیے ہوا مسخر ہوئی اس کے حکم یا مرضی کے موافق شام کے ملک کی طرف چلا کرتی تھی۔ سورة ص میں اسی امر کو یوں بیان فرمایا ہے فسخر نالہ الریح تجری بامرہ رخائً حیث اصاء و الشیاطین کل بناء غواص و آخرین مقرنین فی الاصفاد، سورة سباء میں یوں آیا ولسلیمن الریح غدوھا شہر ورواحہا شہر کہ سلیمان ( علیہ السلام) کے لیے ہوا تابع کردی تھی جس کی صبح و شام کی رفتار ایک مہینہ کا رستہ تھا۔ سورة ص میں ہوا کو نرم اور سورة انبیاء میں تندوتیز فرمایا اس وجہ سے کہ ہوا تو تیز تھی مگر سلیمان ( علیہ السلام) کی مرضی کے موافق نرم نرم بھی چلتی تھی کہ جس میں تکلیف نہ ہو ‘ ہموار چلتی تھی ان آیات میں یہ ذکر نہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کسی تخت پر مع اپنے مصاحبوں کے بیٹھتے تھے اور وہ تخت ایسا اور ایسا تھا جو ہوا پر اڑا کرتا تھا۔ مہینے بھر کا رستہ آدھے دن میں طے کرتا تھا اور سلمان ( علیہ السلام) اصطخریا اور کسی مشرقی صوبہ سے صبح کو سوار ہوتے تھے تو دوپہر تک شام اور خاص یروسلم میں جا پہنچتے تھے۔ البتہ مفسرین اسلام اور مؤرخین یہود کے ہاں یہ روایات مشہور اور مسلم ہیں اور اگر ایسا ہو بھی تو عقلاً کچھ ممنوع نہیں کیونکہ اول تو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نبی تھے ان کے معجزہ سے ایسا ہونا ممکن ہے دوم ہر زمانہ میں ایسے ایسے عجائب وغرائب صنائع اختراع ہوئے ہیں کہ جو ان صنائع کے صفحہ عالم سے محو ہوجانے کے بعد وہ افسانہ دوراز عقل معلوم ہوتا ہے۔ آج کل ہوائی جہاز کی رفتار کو دیکھئے پھر کیا ممکن نہیں کہ اس عہد میں اسی قسم کی سواری ایجاد ہوئی ہو۔ جو لوگ معجزات و خرق عادات کو قصہ و کہانی جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آیات میں صرف ہوا کا مسخر ہونا مذکور ہے جو سلیمان (علیہ السلام) کے جہازی بیڑے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جیرام شہر صور کے بادشاہ نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے لکڑیاں پہنچانے کے لیے بنوایا تھا جیسا کہ اول کتاب السلاطین کے 5 باب میں مذکور ہے اور تجری بامرہ الی الارض التی بارکنافیہا اس پر صاف دلیل ہے کیونکہ لبنان کی طرف سے سمندر کی راہ سے وہ بیڑا یروسلم کی طرف آیا کرتا تھا۔ (2) شیاطین یعنی جن حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تابع تھے جو بہت سے سرکشی کی وجہ سے بیڑیوں میں قید رہتے تھے اور ان میں سے بہت کو مختلف کاموں پر لگا رکھا تھا کہ بعض سمندر میں غوطہ لگا کر موتی نکالا کرتے تھے اور عمارت اور دیگر بھاری بھاری کاموں پر بھی مامور تھے جیسا کہ سورة سباء میں ہے ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ۔ اور یہ قوم جن محض خدا تعالیٰ کی قدرت سے سلیمان (علیہ السلام) کے بس میں تھی جیسا کہ فرماتا ہے وکنا لہم حافظین جبکہ قوم جن کا وجود انسان سے جداگانہ مقدمہ تفسیر میں ثابت ہوچکا اور یہ بھی کہ اپنے مادہ کی وجہ سے وہ انسان سے قوی ہیں تو پھر خدا کی قدرت و عنایت سے ان کا کسی بابرکت انسان کے بس میں ہوجانا اور کام کرنا کیا محال ہے ؟ صدہا عجائب کار عاملان جن کے لوگوں نے دیکھے ہیں مگر وہی نئی روشنی کے لوگ اس کی بھی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی عملداری نہر فرات سے لے کر فلسطینیوں کی زمین تک اور مصر کی سرحد تک تھی اور دریا کے اس پار تفسح سے لے کر غرہ تک سب بادشاہوں یعنی بااختیار رئیسوں پر اس کی حکومت تھی جیسا کہ اول کتاب السلاطین کے 4 باب میں ہے اور عمالیق قوم کو ان کی سرکشی اور تنومندی اور قوت کی وجہ سے کبھی جن کے ساتھ کبھی شیاطین کے ساتھ تعبیر کیا جاتا تھا جیسا کہ آج کل بھی بڑے اور سرکش آدمی کو شیطان اور بڑے قوی کو جن کہا کرتے ہیں۔ بس اس سے یہی لوگ مراد ہیں۔ فائدہ : یہ باتیں صاف صاف بائبل میں نہیں مگر کچھ حرج نہیں کیونکہ کتب موجودہ میں بہت سی باتیں نہیں۔ دیکھو اول کتاب التواریخ کے اخیر میں یہ لکھا ہے کہ دائود بادشاہ کے اعمال اول و آخر دیکھ وہ سب سموئیل غیب بیں کی تواریخ میں اور ناتن نبی کی تواریخ میں اور جادو غیب میں کی تواریخ میں یعنی اس کی ساری حکومت اور زور کا تذکرہ اور جو جو زمانے اس پر اور اسرائیل پر اور زمین کی ساری مملکتوں پر گزر گئے ان کا سب حال لکھا ہے۔ اب فرمائیے کہ وہ سب کتابیں کہاں ہیں ؟ پس جس علام الغیوب کے علم میں وہ سب احوال ہیں اس نے ان میں سے بعض اپنے رسول ﷺ پر بھی الہام کئے۔
Top